جرمنی کا بابائے اردو عارف نقوی... جمال عباس فہمی

عارف نقوی دو درجن کتابوں کے خالق ہیں۔ جو اردو، ہندی، انگریزی اور جرمن زبان میں شائع ہوئی ہیں۔ ان میں افسانوں، نظموں، خاکوں، ڈراموں اور مضامین کے مجموعے شامل ہیں۔

عارف نقوی
عارف نقوی
user

جمال عباس فہمی

عارف نقوی کو 'جرمنی کا بابائے اردو' یونہی نہیں کہا جاتا ہے۔ ساٹھ برس کے عرصہ میں عارف نقوی نے جرمنی میں اردو زبان و ادب کی جو خدمت کی ہے وہ سمندر پار اردو کے فروغ کے حوالے سے مثالی ہے۔عارف نقوی کی شخصیت بڑی طرح دار اور پہلودار ہے۔ وہ افسانہ نگار بھی ہیں اور شاعر بھی۔ ڈرامہ نگار بھی ہیں اور اسٹیج آرٹسٹ بھی۔ ریڈیو آرٹسٹ بھی ہیں اور صحافی اور نامہ نگار بھی۔ وہ اردو، ہندی ،انگریزی اور جرمنی کے ماہر بھی ہیں اور مترجم بھی۔ انہوں نے کرشن چندر جیسے قلمکاروں کی اردو نگارشات کو جرمن زبان کے قالب میں بھی ڈھالا ہے۔ عارف نقوی اردو کے پہلے ایسے قلمکار ہیں جنہوں نے جرمن زبان میں بھی ادب تخلیق کیا ہے۔ ایک جانب وہ جرمنی کے بابائے اردو ہیں تو جرمنی میں کیرم کے کھیل کے باوا آدم بھی ہیں۔ جرمنی میں اردو کی شمع روشن کرنے والے آخر یہ عارف نقوی ہیں کون؟ ان کے بارے میں تفصیل سے جاننے کے لئے پہلے ان کی پیدائش، تعلیم و تربیت اور ابتدائی زندگی کے بارے میں معلومات حاصل کرلیں تو زیادہ اچھا رہے گا۔

عارف نقوی 2 مارچ 1934 میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام سید امین الدین نقوی تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم سینٹینل اسکول میں ہوئی۔ امین آباد انٹر کالج سے انٹر میڈیٹ کیا۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے ہی اردو ادب میں ایم اے کیا۔ ان کے اندر ادبی ذوق چچا مصباح نقوی کے یہاں قیام کے دوران پروان چڑھا۔ مصباح نقوی لکھنؤ میونسپل کارپوریشن کے چیف ایکزیکیٹیو افسر تھے۔ وہ خود بھی ادب کا ذوق رکھتے تھے۔ اردو اور فارسی کے معروف شعرا کے بے شمار اشعار انہیں ازبر تھے۔ ان کے گھر پر شاعروں اور ادیبوں کی محفلیں بھی جمتی تھیں جن میں جسٹس آننند نارائن ملا، جعفر علی خاں اثر، نہال رضوی، شمس لکھنوی، عبدالرشید خاں قمر، اسلم لکھنوی اور شارب رضوی جیسی شخصیات موجود ہوتی تھیں۔


عارف نقوی اسکول کالج کے دنوں میں غالب، میر اور اقبال سے بہت متاثر تھے۔ بعد میں حسرت موہانی اور جگر کی رومانی شاعری اور فیض، مجاز، ساحر، سردار جعفری اور مخدوم محی الدین کے گرویدہ ہوگئے۔ رفتہ رفتہ شعر گوئی کی طرف خود بھی مائل ہو گئے۔ 1958 میں وہ انمجن ترقی پسند مصنفین سے منسلک ہوگئے۔ اس دوران لکھنؤ میں آل انڈیا ریڈیو کی ثقافتی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے۔ صحافت کے میدان میں بھی قدم رکھا اور علی سجاد ظہیر کی ادارت میں دہلی سے نکلنے والے 'عوامی دور ویکلی' سے اسسٹنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے وابستہ ہوگئے۔ دہلی میں قیام کے دوران آل انڈیا ریڈیو سے بھی وابستگی رہی۔ ریڈیو پر نشر ہونے والے اردو اور ہندی کے ڈراموں میں بطور آرٹسٹ حصہ لیتے رہے۔ دہلی میں انڈین پیپلز تھئٹر ایسو سی ایشن IPTA سے بھی منسلک رہے۔ اس کے لئے ڈرامے لکھے بھی ڈائریکٹ بھی کئے اور ان میں اداکاری بھی کی۔

1961 میں عارف نقوی نے جرمنی کا رخ کیا۔ جرمنی آنے کا مقصد جرمن زبان سیکھنا اور جرمن ڈرامہ پر ریسرچ کرنا تھا۔ جرمن زبان سیکھنے کے لئے انہوں نے لائپزگ میں جرمن زبان کے کورس میں داخلہ لیا۔ کورس مکمل کرنے کے بعد انہوں نے ہمبولٹ یونیورسٹی میں تھئیٹر سائنس کے انسٹی ٹیوٹ میں ریسرچ شروع کی۔ ریسرچ کے ساتھ ہمبولٹ یونیورسٹی میں انہوں نے اردو اور ہندی پڑھانے کی ذمے داری سنبھال لی۔ چند سال بعد ہی اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوگیا۔ ریڈیو میں کام کرنے کے عارف نقوی کے شوق نے ان کا پیچھا وہاں بھی نہیں چھوڑا اور وہ ریڈیو برلن انٹرنیشنل سے وابستہ ہو گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ اردو اور ہندی پڑھانے کا کام بھی جاری رہا۔ 1992 میں ان کا ریڈیو برلن انٹرنیشن میں ہندوستانی پروگرام کے ایڈیٹر کی پوسٹ پر باقاعدہ تقرر ہو گیا۔ اس درمیان وہ ہندوستان کےمختلف اردو ہندی اور انگریزی کی خبر رساں ایجنسیوں، اخبارات و رسائل کے لئے جرمنی سے لکھتے رہے۔


جرمنی میں عارف نقوی نے اردو کے قلمکاروں کی نگارشات سے جرمن والوں کو واقف کرانے کا اہم کام کیا۔ انہوں نے کرشن چندر کے ڈرامے 'سرائے کے باہر' اور 'کتے کی موت' جرمن زبان میں ترجمہ کرکے ریڈیو پر براڈ کاسٹ کئے۔ کرشن چندر کے افسانہ 'آخری بس' کا جرمن رسالے Sinn und Form کے لئے ترجمہ کیا۔ انہوں نے اردو کے کئی ادیبوں کے کئی ریڈیو ڈراموں، افسانوں اور نظموں کو جرمن زبان میں ترجمہ کیا جو مختلف رسائل میں شائع ہوئے۔ انہوں نے اپنی غزلیں، نظمیں اور افسانے بھی جرمن زبان میں ترجمہ کئے۔ عارف نقوی کی اردو کہانی ’ایک سے چار‘ کا جرمن ترجمہ جرمن رائٹرس یونین کے ماہنامے ’نیا جرمنی Neue Deutsche Literaturبرلن میں شائع ہوا۔ عارف نقوی کی نظم ’راز ہستی‘ کا جرمن ترجمہ پہلی بار جرمن رائٹرس کے رسالے Neue Deutsche Literatur میں شائع ہوا۔ نظم ’راز ہستی‘ کا جرمن ترجمہ امن کے موضوع پر عالمی نظموں کے ضخیم مجموعے Traenen und Rosen میں شامل کی گئی۔ ان کی نظمیں ’سوال‘ Tochter fragt Meine، ’خلش ‘ Dies Liebling bedenke،’ فکرِ شاعر‘ Meine Verse وغیرہ جرمن زبان میں شائع ہوئیں اور ریڈیو سے براڈ کاسٹ ہوئیں۔

عارف نقوی دو درجن کتابوں کے خالق ہیں۔ جو اردو، ہندی، انگریزی اور جرمن زبان میں شائع ہوئی ہیں۔ ان میں افسانوں، نظموں، خاکوں، ڈراموں اور مضامین کے مجموعے شامل ہیں۔ افسانوں ڈراموں کا مجموعہ ’تلاشِ سحر‘ امن کے موضوع پر نظموں کا مجموعہ ’زخموں کے چراغ' ’جرمنی کل اور آج‘ تاریخی تجزیہ، ہندی کہانیوں کا مجموعہ ’ایک سے چار‘ افسانوی مجموعہ ’پیاسی دھرتی جلتے سائے‘، غزلوں اور نظموں کا مجموعہ ’خلش‘، لکھنؤ کی شخصیات کے خاکوں کا مجموعہ ’یادوں کے چراغ‘، دہلی کی شخصیات کے خاکوں کا مجموعہ ’نقوشِ آوارہ‘، نظموں اور غزلوں کا مجموعہ ’کھلتی کلیاں‘ جرمنی میں 50 سالہ قیام کی داستان ’نصف صدی جرمنی میں' کیرم کے کھیل سے وابستگی اور تجربات پر مبنی کتاب ’کیرم سے رشتہ‘ جرمن زبان میں نظموں اور غزلوں کا مجموعہ 'Dornen und Rosen' جرمن زبان میں افسانوں کا مجموعہ Zum Paradies auf Erden قابل ذکر ہیں۔ جرمن زبان کے ان افسانوں کو انہوں نے اردو میں ’سوئے فردوسِ زمیں‘ کے عنوان سے شائع کیا تھا۔ انہوں نے دو سفر نامے ’راہِ الفت میں گامزن اور’طائرِ آوارہ‘، کے عنوان سے بھی تحریر کئے۔ 'راہ ادب میں بھٹکتا مسافر' ان کی سرگزشت ہے جو سات دہائیوں کے ان کے ادبی صحافتی اور ریڈیائی تجربات پر مبنی ہے۔


عارف نقوی کی ادبی سرگرموں سے جدا ان کی دلچسپی کا ایک پہلو اور بھی ہے جو یکسر متضاد نظر آتا ہے۔ جس کا اردو ادب سے دور دور کا واسطہ نہیں اور وہ ہے کیرم کے کھیل سے ان کا والہانہ لگاؤ۔عارف نقوی کو جہاں یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے جرمنی میں اردو کی شمع روشن کی۔ جرمن کے عوام کے اندر اردو شعر و ادب کی دلچسپی اور شوق کو فروغ دیا جرمنی والوں کو کیرم کے کھیل سے واقف کرانے کا سہرا بھی عارف نقوی کے ہی سر بندھتا ہے۔ 1983 میں عارف نقوی نے جرمنی میں کیرم کے کھیل کو متعارف کرایا۔ مشرقی جرمنی میں کیرم فیڈریشن قائم کی۔ 1996 میں ان کی کوششوں سے یوروپین کیرم کنفیڈریشن قائم ہوئی۔ 2005 سے ستمبر2016ء تک وہ عالمی کیرم فیڈریشن کے صدر رہے۔

عارف نقوی کی شخصیت ان کی ادبی خدمات اور تخلیقات کے حوالے سے کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ 'آسمانِ ادب کا ستارہ عارف نقوی' کے عنوان سے پروفیسر اسلم سید نےعارف نقوی کے مضامین اور ان کے بارے میں مضامین کو ترتیب دیا ہے۔ ’نامے‘ کے عنوان سے عارف نقوی کے نام مشاہیر کے خطوط۔ کو پروفیسر اسلم جمشید پوری نے ترتیب دیا ہے۔ عارف نقوی کے سفر نامے 'طائر آوارہ' کا اردو اسکالر شفا علی نے تجزیاتی جائزہ لیا ہے۔ پروفیسر اسلم جمشید پوری نے عارف نقوی کے افسانوں کا انتخاب ترتیب دیا ہے۔


عارف نقوی کی ادبی خدمات کا ہندوستان اور یوروپ کے مختلف اداروں کی جانب سے اعتراف بھی کیا گیا ہے۔ یوروپین اردو سوسائٹی، لیوٹن برطانیہ کی طرف سے 2005 میں عارف نقوی کو ’بابائے اردو جرمنی‘ کا خطاب دیا گیا۔ قوموں کے بیچ دوستی کے لئے ان کی خدمات کے اعتراف میں جرمنی کی لیگ آف نیشنس کی طرف سے انہیں سونے کے تمغے سے نوازہ گیا۔ عالمی امن کے لئے ان کی خدمات کے اعتراف میں جرمنی کی امن کونسل نے انہیں چاندی کے تمغے سے نوازہ۔ لکھنؤ کے ادیبوں کی طرف سے آل انڈیا ہندی اردو سنگم کا ’نیشنل انٹگریشن ایوارڈ‘ انہیں پیش کیا گیا۔ ادبی خدمات کے لئےچودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میرٹھ کے شعبہ اردو کے سرسید انٹر نیشنل ایوارڈ 2018 سے انہیں نوازہ گیا۔ اردو عربی فارسی یونیورسٹی ’خواجہ معین الدین چشتی‘ لکھنؤ کی طرف سے ملک زادہ منظور احمد ایوارڈ بھی عارف نقوی کو پیش کیا گیا۔

عارف نقوی بھلے ہی ریٹائر ہو گئے ہیں لیکن 88 برس کی عمر میں بھی وہ سرگرم اور فعال ہیں، وہ اردو، ہندی تعلیم، لینگویج انسٹی ٹیوٹ برلن کے انچارج ہیں۔ انٹرنیشنل ینگ ریسرچ اسکالرس ایسوسی ایشن، میرٹھ کے سرپرست ہیں۔ یوروپین اردو رائٹرس ایسو سی ایشن کے صدر ہیں۔ یوروپین لٹریری سرکل کے سرپرست اعلیٰ ہیں۔ اردو انجمن برلن کے صدر ہیں۔ چلڈرین چیری ٹیبل سوسائٹی برلن کے صدر ہیں۔ جرمن کیرم فیڈریشن اور کیرم اسپورٹس ایسوسی ایشن برلن کے تا عمر اعزازی صدر ہیں۔عارف نقوی سے 88 برس کی عمر میں بھی جوان رہنے کا گر سیکھا جاسکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔