ساحر لدھیانوی، ایک نہ بجھنے والی شمع... حسنین نقوی

زمیندار گھرانے میں پیدا ہونے والے ساحر کی زندگی والدین کی تلخ علیحدگی اور والدہ سردار بیگم کے صبر و ایثار سے گزرنے والے دکھوں سے متاثر ہوئی۔ یہی تجربے ان کے اندر مظلوموں کے لیے گہری ہمدردی کا بیج بنے۔

<div class="paragraphs"><p>ساحر لدھیانوی، تصویر سوشل میڈیا</p></div>
i
user

حسنین نقوی

25 اکتوبر 2025، یعنی آج ساحر لدھیانوی کی 45ویں برسی ہے۔ ان کا اصل نام عبدالحئی تھا، اور ان کے’جادوئی‘ قلمی نام کے پیچھے ایک بے باک سماجی ضمیر چھپا ہوا تھا۔ ساحر کی شاعری، جو کبھی ایک نئی خودمختار قوم کی موسیقی تھی، آج بھی ایک انقلابی منشور کے طور پر زندہ ہے۔ ایسا منشور جو ہماری اس دنیا کے زخموں سے براہِ راست بات کرتا ہے۔ اس کا سب سے موزوں کتبہ خود اس کے الفاظ میں پوشیدہ ہے، جو فنا اور مزاحمت کی گواہی دیتا ہے:

جسم کی موت کوئی موت نہیں ہوتی
جسم مٹ جانے سے انساں نہیں مٹ جاتے

تلخی اور تابناکی کی ابتدا:

ساحر کا فنی جوہر ایک ہنگامہ خیز جوانی کے دوران تراشہ ہوا معلوم پڑتا ہے۔ لدھیانہ کے ایک زمیندار گھرانے میں 1921 کو پیدا ہونے والے ساحر کی زندگی والدین کی تلخ علیحدگی اور والدہ سردار بیگم کے صبر و ایثار سے گزرنے والے دکھوں سے متاثر ہوئی۔ یہی تجربات ان کے اندر مظلوموں کے لیے گہری ہمدردی کا بیج بنے، ایک ایسی ڈور جو ان کے اشعار میں بھرپور انداز سے داخل ہیں۔ ان کے بچپن کی تلخی، جو بعد میں ان کے پہلے مجموعہ ’تلخیاں‘کا عنوان بنی۔ اس مجموعہ کی اشاعت لاہور میں ہوئی، اور اس وقت ساحر کی عمر محض 24 سال تھی۔ یہ تصنیف رومانوی احساسات اور ترقی پسند نظریے کا حسین امتزاج تھی۔ ان کی بے چین لیکن رحم دل روح خاص طور پر ناکام محبت کی نظموں میں جھلکتی ہے:

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
کہ زندگی تیری زلفوں کی نرم چھاؤں میں
گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی


اردو جرائد اور ادبی رسائل میں صحافت اور ادارت کے میدان میں اپنی شناخت قائم کرنے کے بعد، ساحر کے انقلابی اور تند و تیز بیانات نے پاکستانی حکام کو ناراض کر دیا۔ اس کے نتیجے میں انہیں 1949 میں بمبئی (اب ممبئی) ہجرت کرنی پڑی۔ رہائش کی یہ تبدیلی گرچہ اردو ادب کے لیے ایک نقصان تھی، لیکن ہندی سنیما کے لیے ایک عظیم تحفہ ثابت ہوئی۔ بالی ووڈ میں ساحر کے قلم نے اگلی 3 دہائیوں تک ’عوامی شاعر‘ کے طور پر ایک لازوال وراثت تخلیق کی۔

عزتِ نفس کا بے خوف محافظ:

ساحر کے فن میں انقلابی جذبہ سب سے نمایاں طور پر عورت کی عزتِ نفس کے دفاع میں جھلکتا ہے۔ اس بات میں بڑی معنویت ہے کہ وہ 8 مارچ، یعنی یومِ خواتین کے دن پیدا ہوئے۔ ساحر کے نزدیک عورت صرف محبت کی علامت نہیں بلکہ ایک خالق، ایک بغاوت کرنے والی ہستی ہے، جسے صدیوں سے مٹانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ ان کی نظموں میں پدرشاہی نظام کے خلاف سخت مزاحمت بھی صاف دکھائی دیتی ہے:

’عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں نے اسے بازار دیا‘


انھوں نے کبھی بھی سوداگری کے سامنے سر خم نہیں کیا:

’لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں‘

ساحر کے لیے احتجاجی شاعری محض نعرہ نہیں بلکہ معاشرتی منافقت کا آئینہ تھی۔ ان کا ویژن صوفیانہ سکون، عقلی تنقید اور گنگا-جمنی تہذیب کے امتزاج کا مظہر تھا، جو انسانیت کی وحدت پر یقین رکھتا ہے۔

ظلم و جنگ کے خلاف ایک نہ ختم ہونے والی آواز:

جنگ اور جبر کے خلاف ساحر کی شاعری آج بھی پہلے والی ہی شدت سے گونجتی ہے۔ ان کی نظم ’آوازِ آدم‘ (1949) میں طاقتور ایوانوں کے خلاف ان کی للکار ہمیشہ تازہ رہنے والی ہے:

دبے گی کب تلک آوازِ آدم، ہم بھی دیکھیں گے
رکیں گے کب تلک جذباتِ برہم، ہم بھی دیکھیں گے


افریقی رہنما پیٹیس لوممبا کے قتل کے بعد لکھی گئی ساحر کی نظم ’خون پھر خون ہے‘ ظالموں کے لیے ایک لرزہ خیز تنبیہ تھی:

ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا

ان کا دوسرا مجموعہ ’پرچھائیاں‘ جنگ کی ہولناکی پر تقریباً پیشین گوئی کرنے والا بیانیہ معلوم پڑتا ہے، جس میں انسان کی تنہائی اور وجود پر جنگ کے اثرات کو عیاں کیا گیا ہے:

گزشتہ جنگ میں گھر ہی جلے، مگر اس بار
عجب نہیں کہ تنہائیاں بھی جل جائیں

جب شاعری نے فلم کو رفعت بخشی:

اگرچہ کچھ ناقدین نے ساحر کے فلمی نغمہ لکھنے کے فیصلے کو فن کی ’قید‘ قرار دیا، لیکن انہوں نے کبھی بھی کاروباری رکاوٹوں کو اپنے فن پر اثرانداز نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے فلمی دنیا میں شاعر کے وقار اور رائلٹی کے حق کا مطالبہ کیا۔ ان کے نغمے محض گیت نہیں، بلکہ فلسفیانہ، سیاسی و روحانی عکاسیاں ہیں:

  • فلسفیانہ مایوسی: یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے (فلم ’پیاسا‘، 1957)

  • سیکولر انسانیت: تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا/ انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا (فلم ’دھول کا پھول‘، 1959)

  • ماورا عشق: عشق آزاد ہے، ہندو نہ مسلمان ہے عشق/ آپ ہی دھرم ہے اور آپ ہی ایمان ہے عشق (فلم ’برسات کی رات‘، 1960)

ساحر کے موسیقاروں کے ساتھ تعلقات اکثر تناؤ کا شکار رہے، خواہ ایس ڈی برمن ہوں یا او پی نیر۔ خاص طور سے روشن، خیام اور روی جیسے فنکاروں کے ساتھ بھی اپنی بے باکی کے باوجود ایسے شاہکار جنم دیے جو نسل در نسل سننے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔


ایک لا زوال شعلہ، ایک بے مثال صلاحیت:

25 اکتوبر 1980 کو ساحر لدھیانوی بمبئی میں دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا گئے۔ اس سے قبل 1971 میں انہیں پدم شری سے نوازا جا چکا تھا، لیکن ان کا اصل اعزاز ان کی ہمیشہ زندہ رہنے والے بامعنی نغمے ہیں۔ وہ کسی ایک خانہ میں بند نہیں ہو سکتے۔ ایک ہی وقت میں وہ انقلابی بھی تھے اور رومان پرست بھی، گواہ بھی تھے اور ضمیر بھی۔ انہوں نے خود کو اپنے اشعار میں یوں بیان کیا تھا:

میں پل دو پل کا شاعر ہوں،
پل دو پل میری کہانی ہے

لیکن جب تک دنیا میں ناانصافی، تڑپ اور وقار کے لیے لڑنے کی ضرورت باقی ہے، ساحر کی گونج زمانے کے اندھیروں میں زندہ رہے گی:

موت کتنی بھی سنگ دل ہو مگر
زندگی سے تو مہربان ہوگی

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔