’آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی ہم عصرو‘، فراق گورکھپوری کے 129ویں یومِ پیدائش پر خصوصی پیشکش
فراق کی شاعری وقت کی کسوٹی پر پورا اترتی ہوئی نظر آتی ہے۔ وہ صرف اردو زبان کے ہی ماہر نہیں تھے بلکہ انگریزی، ہندی، فارسی اور دیگر زبانوں میں بھی مہارت رکھتے تھے۔

جب ہم رگھوپتی سہائے، جنہیں اردو ادب میں فراق گورکھپوری کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، کی 129ویں سالگرہ منا رہے ہیں، تو ان کے الہامی الفاظ وقت کے پردوں سے گونجتے سنائی دیتے ہیں:
آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی ہم عصرو
جب بھی ان کو دھیان آئے گا تم نے فراق کو دیکھا ہے
یہ شعر، جو ان کی میراث پر کامل یقین کی عکاسی کرتے ہیں، ہمیں یاد دلاتا ہے کہ مستقبل کی نسلیں ان لوگوں سے رشک کریں گی جنہوں نے اس عظیم شاعر کا دور دیکھا۔
28 اگست 1896 کو اتر پردیش کے ضلع گورکھپور کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں بنورپار میں پیدا ہونے والے فراق کی زندگی ذہانت، بغاوت اور شاعرانہ عظمت کا حسین امتزاج تھی، جو آج بھی دنیا بھر میں شاعری کے شائقین کے دلوں کو چھوتی ہے۔ ایک ذہین نوجوان سے ہندوستان کے عظیم ترین اردو شعرا میں شمار ہونے والا ان کا سفر الفاظ کی دیرپا طاقت کا ثبوت ہے۔ انہوں نے کلاسیکی روایتوں کو جدید احساسات سے اس خوبی سے جوڑا کہ اردو شاعری کی ایک نئی جہت سامنے آ گئی۔
فراق کی شاعری (جس میں محبت، حسن، مایوسی و سماجی شعور جیسے موضوعات نمایاں ہیں) وقت کی کسوٹی پر پورا اترتی ہوئی نظر آتی ہے۔ وہ صرف اردو زبان کے ہی ماہر نہیں تھے بلکہ انگریزی، ہندی، فارسی اور دیگر زبانوں میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ ان کا جملہ ’’ہندوستان میں صرف دو ڈھائی آدمی انگریزی جانتے ہیں: پہلا فراق، دوسرا ڈاکٹر رادھا کرشنن، اور نہرو آدھا‘‘ ان کی بے باکی، ذہانت اور اعتماد کا مظہر ہے۔ بعض اوقات یہ انداز تنازعات کا سبب بھی بنتا، مگر ان کے ہم عصروں کو یہ بہت پسند آتا۔ یہ خراجِ تحسین ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو سامنے لاتا ہے اور ان کے انقلابی مزاج، علمی ورثے اور ان کی شاعری کے اس جادو کا مظہر ہے جو آج بھی لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : فراق گورکھپوری: تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں...
بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں: ذہانت کی پہلی جھلک
بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں
یہ شعر زندگی کی دھیمی آہٹ کو پہچاننے کی فطری صلاحیت کو بیان کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے فراق کے بچپن میں ہی ان کے مقدر کی جھلک دکھائی دینے لگی تھی۔ ایک خوشحال ہندو کایستھ خاندان میں پیدا ہوئے، ان کے والد منشی گورکھ پرساد ’عبرت‘ خود بھی اردو شاعر اور وکیل تھے۔ انہوں نے فراق کو بچپن ہی سے ادب سے روشناس کرایا۔ اردو اور فارسی کی ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور بعد ازاں گورنمنٹ جبلی کالج سے میٹرک میں امتیازی کامیابی حاصل کی۔ لکھنؤ کرسچین کالج سے تعلیم جاری رکھی اور پھر الہ آباد کے سینٹرل کالج سے بی اے مکمل کیا۔ 1930 میں آگرہ یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا اور امتیاز کے ساتھ کامیاب ہوئے۔ 1916 میں بی اے کے طالب علم کی حیثیت سے اپنی پہلی غزل مشاعرے میں سنائی، جو اس بات کا اعلان تھی کہ ایک عظیم شاعر ابھر رہا ہے۔ 18 برس کی عمر میں کشور دیوی سے شادی ہوئی، لیکن ازدواجی زندگی کی پیچیدگیاں بعد کی شاعری میں گہری اداسی کے رنگ بھر گئیں۔ مثلاً
ایک مدت سے تیری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
یہ ابتدائی دور ہی ان کی لسانی قابلیت کی بنیاد تھی، جس نے انہیں ایک ماہر لسانیات اور فصیح قلم کار بنایا۔
ہم سے کیا ہو سکا محبت میں: آزادی کی آگ اور قربانی
ہم سے کیا ہو سکا محبت میں
خیر تم نے تو بے وفائی کی
اس شعر میں گرچہ محبت میں ناکامی کا نوحہ ہے، لیکن یہ قومی تحریک کے لیے فراق کی قربانیوں کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔ 1920 میں ہندوستانی سول سروس (آئی سی ایس) کا امتحان پاس کرنے کے باوجود مہاتما گاندھی کی تحریک عدم تعاون میں شامل ہو کر اپنی ملازمت کو ٹھکرا دیا اور جیل چلے گئے۔ 18 ماہ کی قید نے ان کے انقلابی جذبے کو مزید پختہ کیا۔ رہائی کے بعد 1920 تا 1923 اتر پردیش کانگریس کمیٹی کے انڈر سکریٹری رہے اور نہرو خاندان سمیت کئی بڑے رہنماؤں کے ساتھ کام کیا۔ فراق نے اردو کو صرف ’مسلمانوں کی زبان‘ بنانے کی مخالفت کی اور واضح طور پر کہا کہ ’’زبان کسی قوم کی ملکیت نہیں، جس نے سیکھی، اس نے کہی۔‘‘ ان کا یہ رویہ انہیں ہندوستان کے منقسم معاشرے میں ایک ثقافتی پُل بنا گیا۔
شام بھی تھی دھواں دھواں، حسن بھی تھا اداس اداس: عشق و جمال کی نغمگی
شام بھی تھی دھواں دھواں
حسن بھی تھا اداس اداس
دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں
یہ مصرعے اس کیفیت کا اظہار ہیں جو فراق کے کلام میں بار بار جھلکتی ہے، یعنی محبت اور حسن کے حسین مگر اداس مناظر۔ فراق نے اردو میں درجنوں مجموعے تحریر کیے جن میں غزلیں، نظمیں، رباعیات، قطعات اور نثر شامل ہیں۔ ان کی شہرۂ آفاق کتاب ’گلِ نغمہ‘ نے اردو غزل کو ایک نیا انداز دیا، جس میں روایت اور جدیدیت کا حسین امتزاج ہے۔ دیگر اہم مجموعوں میں ’گلِ رعنا‘، ’روحِ کائنات‘، ’شبنمستان‘ اور ’سرگم‘ شامل ہیں، جن میں انسانی تجربات کی باریکیاں شاعری کے پیرائے میں بیان کی گئی ہیں۔
فراق نے اردو شاعری کو نہ صرف جدید بنایا بلکہ اسے فلسفہ، جمالیات اور جذبات کے دائرے میں بھی وسعت دی۔ 1930 سے 1958 تک الہ آباد یونیورسٹی میں پروفیسر رہے۔ آل انڈیا ریڈیو میں پروڈیوسر ایمریٹس کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ جواد صدیقی کے مطابق فراق نوجوان شاعروں سے کہا کرتے تھے ’’لفظوں کو احتیاط سے برتا کیجیے… ان میں بھی جان ہوتی ہے۔‘‘ ان کے اشعار مثلاً ’آج اِک اور برس بیت گیا اُس کے بغیر/ جس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے‘، آج بھی دلوں کو چھو جاتے ہیں۔
عشق توفیق ہے، گناہ نہیں: ایک معتبر ادبی مقام
عشق توفیق ہے، گناہ نہیں
یہ الفاظ فراق کے فکری اور روحانی مقام کو بیان کرتے ہیں۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا، مثلاً 1960 میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ (گلِ نغمہ پر)، 1968 میں پدم بھوشن، 1969 میں گيان پيٹھ ایوارڈ (یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے اردو شاعر)، 1970 میں ساہتیہ اکادمی فیلوشپ، 1968 میں سوویت نہرو ایوارڈ اور 1981 میں غالب ایوارڈ۔ جوش ملیح آبادی نے انہیں میر و غالب کے بعد سب سے بڑا اردو شاعر قرار دیا۔ گوپی چند نارنگ نے بھی ان کی عظمت کو تسلیم کیا۔ ان کے اعزازات صرف ان کی شاعری ہی نہیں بلکہ اردو زبان کے سیکولر تشخص کو محفوظ رکھنے کی جدوجہد کا اعتراف بھی ہیں۔
اب تو اُن کی یاد بھی آتی نہیں: تنہائی اور میراث
اب تو ان کی یاد بھی آتی نہیں
کتنی تنہا ہو گئیں تنہائیاں
یہ شعر فراق کی زندگی کے آخری برسوں کی جھلک پیش کرتا ہے، جو تنہائی، المیے اور ذاتی تکالیف سے لبریز تھے۔ 1958 میں اہلیہ کی جدائی، بیٹے کی خودکشی، بھائی کی موت... یہ سب فراق کی تنہائی میں ڈھل گئے۔ پھر بھی شاعری ان کے ساتھی رہی۔ ان کا دہلی میں 3 مارچ 1982 کو انتقال ہوا اور ریاستی اعزاز کے ساتھ آخری رسومات ادا کی گئیں۔ ان پر لکھی گئی سوانح حیات ’فراق گورکھپوری: شاعرِ درد و کیف‘ از اجئے مان سنگھ ان کی زندگی کی گہرائیوں کو اجاگر کرتی ہے۔
آج، ان کی 129ویں سالگرہ کے موقع پر، فراق گورکھپوری اردو ادب کا ایک روشن مینار ہیں۔ ان کے الفاظ، مثلاً ’کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی/ یہ حسن و عشق تو دھوکہ ہے سب، مگر پھر بھی‘، زندگی کے فریب اور حقیقتوں کو بیان کرتے ہیں۔ ایک ایسے دور میں جہاں فکر کی گہرائی کم ہوتی جا رہی ہے، فراق کا کلام صرف یاد نہیں بلکہ ایک دعوت ہے کہ ہم سب اپنے اندر کے شاعر کو پہچانیں۔
(مضمون نگار ’سینٹ زیویئر کالج‘ ممبئی میں شعبۂ تاریخ کے استاد رہ چکے ہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔