معروف صحافی سہیل انجم کی کتاب ’اُردو زبان مقبول بھی مظلوم بھی‘ کی رسم اجرا

رسم اجراء کے موقع پر مہمان خصوصی پدم شری پروفیسر اختر الوا سع نے اپنے خطاب میں کہا کہ زبان سرکار کی سرپرستی سے نہیں بلکہ اس کو بولنے والوں سے زندہ رہتی ہے اور اردو زبان ہمیشہ زندہ رہے گی۔

<div class="paragraphs"><p>’اردو زبان مقبول بھی مظلوم بھی‘ کی رسم اجرا</p></div>

’اردو زبان مقبول بھی مظلوم بھی‘ کی رسم اجرا

user

محمد تسلیم

نئی دہلی: اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کے بینر تلے معروف صحافی اور مشہور کالم نگار سہیل انجم کی کتاب ’اردو زبان مقبول بھی مظلوم بھی‘ کی رسمِ اجراء دہلی کے دریا گنج واقع ہوٹل ذائقہ میں عمل میں آیا۔ تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے پدم شری پروفیسر اختر الوسع، کانگریس لیڈر اور سینئر صحافی م افضل، پرفیسر شہپر رسول، معروف شاعر ماجد دیوبندی، سینئرصحافی معصوم مرادآبادی، روزنامہ انقلاب کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ڈاکٹر یامین انصاری وغیرہ نے شرکت کی۔ نظامت کے فرائض سہیل انجم نے خود انجام دیے۔

تقریب کے روحِ رواں ڈاکٹر سید احمد خاں تھے اور تقریب کا آغاز سہیل انجم کے فرزند سلمان فیصل نے کتاب کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اور مختصر تعارف سے کیا۔ سہیل انجم کی کتاب ’اُردو زبان مقبول بھی مظلوم بھی‘ اُردو زبان و ادب اور صحافت سے متعلق مختلف مواقع پر تحریر کردہ مضامین کا گراں قدر انتخاب ہے۔ جسے اُردو زبان کے محسن ڈاکٹر سید احمد خاں نے مرتّب کیا ہے۔ ان مضامین میں اُردو زبان کے مسائل پر بحث کی گئی ہے۔ کتاب کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے کا عنوان ہے ’تصویر کا ایک رخ‘ اور دوسرے کا عنوان ہے ’تصویر کا دوسرا رخ‘۔ پہلے حصے میں اُردو زبان کی مقبولیت کے حوالے سے متعدد مضامین ہیں جبکہ دوسرے حصے میں اُردو زبان کی مظلومیت سے متعلق مضامین ہیں۔ ان مضامین میں اہل اُردو کے مزاج اور رویے کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔

معروف صحافی سہیل انجم کی کتاب ’اُردو زبان مقبول بھی مظلوم بھی‘ کی رسم اجرا

کتاب کی ستائش کرتے ہوئے پروفیسر شہپر رسول نے کہا کہ سہیل صاحب کا معاملے یہ ہے کہ وہ شگفتہ بیانی سے کام لیتے ہیں اور ان کی تحریر میں ربط پایا جاتا ہے۔ سہیل انجم موضوعات کا جو انتخاب کرتے ہیں اس میں اُردو زبان کے تئیں خلوص نظر آتا ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں دو رخ پیش کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ قومیں ختم ہو جاتی ہیں جو اپنی تہذیب و ثقافت کو باقی نہیں رکھتیں۔ اُردو کو فروغ دینا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ یہ کتاب اردو سے متعلق کافی اہم ہے۔ ڈاکٹر سید احمد خاں نہ صرف انسانوں کا علاج بلکہ اُردو زبان کی آبیاری کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔

مہمان خصوصی پدم شری پروفیسر اختر الوا سع نے اپنے خطاب میں کہا کہ زبان سرکار کی سر پرستی سے نہیں بلکہ اس کو بولنے والوں سے زندہ رہتی ہے اور اردو زبان ہمیشہ زندہ رہے گی۔ آج اُردو کی حالت سے ہر کس و ناکس اچھی طرح سے واقفیت رکھتا ہے۔ جو اُردو کی کتابوں کے بازار تھے وہ اب مرغ و ماہی کی دکانوں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج اُردو زبان کا کثرت سے استعمال مدرسوں میں کیا جا رہا ہے، اور زیادہ تر اُردو کے صحافی مدرسوں سے ہی نکلے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں یہ بات آج بھی تسلیم نہیں کرتا کہ اُردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ آج ریختہ نے اُردو کی جو خدمت کی ہے وہ غیر معمولی ہے۔ سنجیو صراف نے اُردو کو ایک ایسا پلیٹ فارم عطا کیا ہے جس کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ ہمیں اُردو کے مسائل کو حل کرنے کے لیے لڑائی لڑنی چاہیے، ساتھ ہی یہ عزم بھی کرنا چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو اُردو زبان لکھنا، پڑھنا اور بولنا سکھائیں گے۔

معروف صحافی سہیل انجم کی کتاب ’اُردو زبان مقبول بھی مظلوم بھی‘ کی رسم اجرا

کانگریس لیڈر م. افضل نے کتاب کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس كا عنوان بہت ہی اچھا ہے اور ڈاکٹر سید احمد خاں نے کتاب مرتّب کر کے اُردو کی ترقی کی راہ میں اہم کام انجام دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سہیل انجم کا صحافت سے تعلق ہے اور ان کی کئی کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ ان کی کتاب ’اُردو زبان مقبول بھی مظلوم بھی‘ اُردو کے موجودہ حالات کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ ان کی اس کتاب کے رسم اجرا پر میں موصوف کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

اس موقع پر م. افضل نے اُردو زبان کی زبوں حالی کا ذمہ دار سرکار اور اردو داں دونوں کو برابر ٹھہرایا۔ انہوں نے کہا کہ میں پچھلے 40 برس سے دیکھ رہا ہوں کہ اُردو کا دائرہ پرنٹ میڈیا میں وسیع ہونے کی بجائے سکڑ رہا ہے۔ پہلے کثیر تعداد میں اُردو کے اخبارات مارکیٹ میں نظر آیا کرتے تھے لیکن اب چند اخبارات ہی نظر آتے ہیں۔ اس بات کا بھی اعتراف کرنا چاہئے کہ الیکٹرونک میڈیا میں اُردو زبان فروغ پا رہی ہے۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے م. افضل نے دہلی اُردو اکیڈمی اور قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ جس مقصد سے ان اداروں کو قائم کیا گیا تھا وہ پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ اب ان اداروں کا بجٹ بھی کم کر دیا گیا ہے۔ بہرکیف ہمیں اُردو کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہنا چاہیے۔


معروف شاعر ماجد دیوبندی نے سہیل انجم کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اردو کی مقبولیت نہ کبھی کم ہوئی ہے اور نہ ہی مستقبل میں اس کی اہمیت کم ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ آج اُردو کو مختلف مسائل کا سامنا ہے لیکن اس کے باوجود یہ زبان ہر شعبہ جات میں پھل پھول رہی ہے۔

سینئر صحافی معصوم مرادآبادی نے اس موقع پر اُردو زبان کی اہمیت و افادیت پر اظہار خیال کیا۔ انھوں نے کہا کہ جو زبان ہماری شناخت ہے اگر اس کی بقاء و ترویج میں ہم بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لیں گے تو ہمیں کون پوچھے گا۔ انہوں نے کہا کہ سہیل انجم تیز رفتار سے لکھنے والے صحافی ہیں اور اس کتاب کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے۔ کتاب میں جتنے بھی مضامین اردو زبان کے حوالے سے لکھے گئے ہیں اس میں اُردو زبان کی چاشنی اور اس کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ معصوم مراد آبادی نے کتاب کو مرتب کرنے پر ڈاکٹر سید احمد خاں کی ستائش کی اور کہا کہ گرچہ ڈاکٹر صاحب کا میدان طب ہے لیکن اُردو زبان و ادب کے حوالے سے ان کی جو خدمات ہیں وہ ہم سب کے لیے ایک مثال ہے۔

تقریب کے اختتام پر ڈاکٹر سید احمد خاں نے سبھی مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ اہم شرکا میں ڈاکٹر حبیب اللہ، حکیم عطاء الرحمٰن اجملی، حکیم آفتاب، عمران قنوجی،علی عادل خان کے نام قابل ذکر ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */