کچھ بھی ہو، یہ لڑائی اب جاری رہے گی: بھکت چرن داس
’’شروع میں ہی میرے ہاتھ میں فریکچر ہو گیا تھا۔ بھیڑ زیادہ تھی، ہر کوئی مجھے گلدستہ دینا چاہتا تھا۔ میں اسی گہما گہمی میں گر گیا اور میرا دایاں ہاتھ ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد بھی میں چلا۔‘‘

بھکت چرن داس / آئی اے این ایس
اڈیشہ میں اسمبلی انتخاب ابھی 4 سال دور ہیں، لیکن ریاست میں سیاسی سرگرمیاں کافی تیز ہیں۔ خصوصاً خواتین سے جڑے مسائل پر گہما گہمی ہے۔ گزشتہ ایک سال میں وہاں جرائم کے دوسرے واقعات کے ساتھ ہی عصمت دری کے واقعات بھی بہت بڑھے ہیں۔ اجتماعی عصمت دری کے واقعات بھی بڑی تعداد میں پیش آئے ہیں۔ ان میں سے کئی ہائی پروفائل معاملے بھی ہیں، جن پر گفتگو ملک بھر میں ہوئی ہے۔ تازہ معاملہ بالاسور کا ہے جہاں ایک طالبہ نے خود کشی کر لی۔
اس خودکشی سے ریاست کی سیاست میں ہنگامہ برپا ہو گیا ہے۔ کانگریس نے اس معاملے پر اڈیشہ بند کی اپیل کی اور پوری ریاست میں یہ بند انتہائی کامیاب رہی۔ اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی بی جے ڈی اس معاملے میں زیادہ متحرک نظر نہیں آئی۔ اس تعلق سے عوام میں جو غصہ تھا، اسے قیادت عطا کرنے میں بی جے ڈی ناکام رہی۔ کانگریس کے تئیں لوگوں کا رجحان اسی وقت واضح ہو گیا تھا جب لوک سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر راہل گاندھی اور کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے نے 11 جولائی کو بھونیشور میں ’آئین بچاؤ‘ ریلی کی۔ اس ریلی میں اتنی بھیڑ جمع ہوئی کہ مقامی میڈیا اسے نظر انداز کرنے کی حالت میں نہیں تھی۔ کانگریس کو ملی اس مضبوطی پر ہرجندر نے اڈیشہ کے ریاستی کانگریس صدر بھکت چرن داس سے بات چیت کی۔ انھوں نے کچھ ہی وقت پہلے ریاستی کانگریس کی ذمہ داری سنبھالی ہے اور تنظیم کو مضبوط بنانے میں مصروف ہیں۔ پیش ہیں ان کے ساتھ ہوئی گفتگو کے اہم اقتباسات...
اسمبلی میں نمبر چاہے جیسے ہوں، سڑک پر کانگریس اہم اپوزیشن پارٹی بن گئی ہے۔ یہ سب کیسے ہوا؟
یہ اس لیے ہوا کیونکہ جو ایشو ہمارے پاس تھا، وہ بہت بڑا تھا۔ ہماری پارٹی سے اسمبلی میں بہت زیادہ اراکین ہیں بھی نہیں۔ ایک ہی خاتون رکن اسمبلی ہیں صوفیہ فردوس۔ ہمارے اراکین اسمبلی میں خواتین کے تئیں جو احترام ہے، اور جو سمجھ ہے، وہ کام آئی۔ اڈیشہ میں یہ جو عصمت دری کے واقعات لگاتار ہو رہے ہیں، ایک دو نہیں... ہزاروں خواتین اور بچوں کے لاپتہ ہونے کے کیسز ہیں۔ ہم نے ان ایشوز کو پہلے دن سے اٹھایا۔ اڈیشہ کانگریس صدر کا عہدہ سنبھالتے ہی جب میں دہلی سے یہاں پہنچا تو پہلے دن سے ہی میں نے ایئرپورٹ سے پیدل سفر شروع کیا۔ بھونیشور ایئرپورٹ سے شروع ہوئی ’سنکلپ یاترا‘ 3 دنوں میں 67 کلومیٹر دور پوری تک پہنچی۔ اس میں 5000 لوگ ساتھ چل رہے تھے۔
آپ کو اسی یاترا میں چوٹ لگی تھی؟
شروع میں ہی میرے ہاتھ میں فریکچر ہو گیا تھا۔ بھیڑ زیادہ تھی، ہر کوئی مجھے گلدستہ دینا چاہتا تھا۔ میں اسی گہما گہمی میں گر گیا اور میرا دایاں ہاتھ ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد بھی میں چلا۔ درد مٹانے والی دوا لے کر چلتا رہا، پورے 3 دنوں تک لچا۔ اس سے کارکنان میں جوش پیدا ہوا۔ پانچویں دن آپریشن ہوا، ابھی تک پوری طاقت نہیں آئی ہے۔ ہاتھ ابھی تک پورا اوپر نہیں اٹھ رہا۔ بہرحال، لوگوں کو بھروسہ ہوا کہ لڑائی اب ہر حال میں جاری رہے گی۔ اراکین اسمبلی سمیت سبھی لوگوں نے پوری طاقت سے کام شروع کر دیا۔
اسمبلی میں بھی آپ کے اراکین اسمبلی کو پریشان کرنے کی خبر ہے...
ہمارے سبھی اراکین اسمبلی معطل کر دیے گئے۔ اراکین اسمبلی نے وہیں اسمبلی میں ہی دھرنا دینا شروع کر دیا۔ رات کے 2 بجے انھیں وہاں سے اٹھا کر سڑک پر پھینک دیا گیا۔ اس سے اراکین اسمبلی اور پارٹی کے کارکنان مزید متحد ہو گئے۔ بی جے ڈی کو اس موقع پر جو کردار نبھانا چاہیے تھا، وہ انھوں نے نہیں نبھایا۔ ان کے 51 اراکین اسمبلی ہیں، لیکن وہ خاموش رہے۔
بی جے ڈی دوسری سب سے بڑی پارٹی ہونے کے بعد اپوزیشن کے کردار کو کیوں نہیں نبھا پا رہی؟
کیونکہ 24 سال کی حکومت میں خراب کارکردگی ان کے ساتھ ہے۔ وہ بی جے پی کے ساتھ ہی کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ خواتین کے ایشوز پر ابھی وہ تھوڑا فعال ہوئے ہیں۔ اگر صحیح معنوں میں وہ لوگ فعال ہوں گے تو اگلے اسمبلی اجلاس میں حکومت گر سکتی ہے، لیکن وہ نہیں گرنے دیں گے۔
لوک سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر راہل گاندھی اور کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے کی بھونیشور میں جو آئین بچاؤ ریلی ہوئی، اس پر اتنی گفتگو کیوں ہو رہی ہے؟
وہ ریلی بہت کامیاب رہی۔ راہل جی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ اور اس کے بعد ان کی سرگرمی تھی ’آئین بچاؤ‘ سے متعلق، سماجی انصاف سے متعلق، اس کو ہم نے لوگوں کے پاس پہنچایا۔ اس پیغام کو چھوٹا چھوٹا کر کے کلپ بنا کر ہم نے لوگوں کے ساتھ شیئر کیا۔ کس طرح وہ خواتین سے، چھوٹے چھوٹے بچوں سے بات کر رہے تھے، کس طرح غریبوں، مزدوروں، چھوٹے دکانداروں یا ڈرائیور وغیرہ سے مل رہے تھے۔ اس سے عوام میں بہت جوش پیدا ہوا، وہ راہل گاندھی اور ملکارجن کھڑگے کو دیکھنا چاہتے تھے۔ اس وجہ سے کافی بھیڑ جمع ہوئی۔ ہم تقریباً 60 ہزار لوگوں کے آنے کی امید کر رہے تھے، لیکن بھیڑ سوا لاکھ سے زیادہ تھی۔ جتنے لوگ اندر تھے، اس کے دوگنے باہر تھے۔ راہل جی نے وہاں پر قبائلیوں، دلتوں، خواتین کے بارے میں اور اڈانی کے بارے میں جو کہا، اس کا لوگوں میں بڑا اثر دیکھنے کو ملا۔ ہم شروع سے ہی جانتے تھے کہ راہل جی نے ان سب معاملوں میں ابھی تک جو بھی کہا ہے، اسے ٹھیک سے نافذ کیا جائے اور لوگوں تک پہنچایا جائے تو مشکل حالات میں بھی پارٹی کو پھر سے کھڑا کیا جا سکتا ہے۔
کئی لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ جتنی بھیڑ امنڈی، جتنے لوگ جمع ہوئے، کیا وہ ووٹوں میں بدل پائیں گے؟
زمین پر تنظیم مضبوط ہے تو یہ حمایت ووٹ میں بھی تبدیل ہوگی۔ ایک تو لہر ہونی چاہیے، اور راہل جی کا دورہ لہر جیسا ہی تھا۔ یہ جمع کی ہوئی بھیڑ نہیں تھی، لوگ خود ہی امنڈ پڑے تھے۔ ابھی تنظیم کو مضبوط بنانے کے لیے ہم لوگ بہت زیادہ زور دے رہے ہیں۔ پہلے کانگریس کے بارے میں لوگ سوچ نہیں رہے تھے، کانگریس کے بارے میں بات نہیں کر رہے تھے، آج کانگریس کے بارے میں پہلے سوچ رہے ہیں، پھر بی جے ڈی یا بی جے پی کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ اب کانگریس فعال ہے، تنظیم میں نئی جان آ گئی ہے۔ پہلے جو لوگ غیر فعال تھے، وہ فعال ہو چکے ہیں۔ جو فعال تھے، وہ بہت زیادہ فعال ہو گئے ہیں۔ لوگ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہم پرانے کانگریسی ہیں، ہم 30-20 سال سے کام کر رہے ہیں۔ عہدیدار بننے کے لیے بھی کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔ ہمارا جو کیڈر چلا گیا تھا، وہ واپس آ گیا ہے۔
آپ نے ایک جگہ کہا تھا کہ دوسری پارٹیوں کے لیڈران بھی کانگریس میں آ رہے ہیں؟
زمین سے کارکن سطح کے بہت لوگ آ چکے ہیں۔ بڑے بڑے لوگ بھی رابطے میں ہیں۔ برسراقتدار پارٹی سے بھی لوگ آ رہے ہیں، انھیں ہماری پارٹی میں امید دکھائی دے رہی ہے۔
اڈیشہ بند کتنا کامیاب رہا؟
ایسا بند گزشتہ 25-20 سال میں یہاں نہیں ہوا۔ سب کچھ بند رہا۔ سڑکوں پر ٹریفک بند تھا، 17-16 مقامات پر ٹرینیں رک گئیں، مرچنٹ ایسو سی ایشن نے بند کیا، سرکاری دفاتر بھی بیشتر مقامات پر نہیں چلے۔ ہائی کورٹ سے ضلع عدالتوں تک سب جگہ وکیلوں کی بھرپور حمایت دیکھنے کو ملی۔ دانشوروں اور ایمپلائی ایسو سی ایشن کے لوگوں کی بھی حمایت رہی۔
کیا حکومت پر بھی کوئی اثر پڑا؟
3 دن قبل ہم نے ایک ویمن گریوینس ریڈریسل سسٹم کا اعلان کیا تھا۔ اب یہی بات حکومت بھی کہہ رہی ہے۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ اسے ہر اسکول و کالج میں سب جگہ نافذ کریں گے۔ حکومت اب راستہ تلاش کر رہی ہے کہ وہ عوام کے سامنے کون سا منھ لے کر جائے۔ حکومت میں جو لوگ ہیں، ان کے پاس حکومت کا تجربہ بھی نہیں ہے، اسی لیے کیا کریں سوچ نہیں پا رہے ہیں۔ لیکن اب وہ سوچنے پر مجبور ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔