’ہم ایک نئی کانگریس تشکیل دے رہے ہیں‘، خصوصی انٹرویو میں ملکارجن کھڑگے کا اظہارِ خیال

کانگریس صدر کھڑگے کا کہنا ہے کہ پارٹی کے سرکردہ لیڈران نے لوگوں سے ملنے اور ان کی بات سننے کا فیصلہ کیا ہے، یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہم کس طرح دوسروں سے مختلف ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>ملکارجن کھڑگے / آئی اے این ایس</p></div>

ملکارجن کھڑگے / آئی اے این ایس

user

وشو دیپک

ہندوستان کی سب سے قدیم پارٹی کانگریس خود کو نئے سرے سے مضبوط بنا رہی ہے۔ گزشتہ دہائی میں پارٹی نے اپنی 138 سالہ تاریخ کے سب سے اہم چیلنجز کا سامنا کیا ہے۔ آر ایس ایس کنبہ نے تحریک آزادی میں پارٹی کے کردار اور آزاد ملک میں اس کے تعاون کو کمتر ظاہر کرنے کے لیے باضابطہ شاطرانہ مہم چلائی۔ پارٹی کے کثرت پسند کردار کو غلط طریقے سے مسلمانوں و دیگر اقلیتوں کی چاپلوسی قرار دینے سے متعلق منظم کوششیں کی گئیں۔ مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو جیسے کانگریس کے سرکردہ لیڈران کو بدنام کیا گیا اور ولبھ بھائی پٹیل و نیتاجی سبھاش چندربوس جیسی دیگر شخصیات پر قبضہ کیا گیا۔ اس بات سے انکار کیا جا رہا ہے کہ ہندوستان اس وقت چوراہے پر کھڑا ہے، اس کے جمہوری ادارے تباہ ہو گئے ہیں۔ خوش قسمتی سے اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو سوچتے ہیں کہ پہیہ کو واپس موڑنا ممکن ہے۔ کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے نے وشودیپک سے پارٹی کی گمشدہ زمین کو واپس حاصل کرنے اور پارٹی، ملک و آئین میں جو کچھ ٹوٹا ہے، اسے اینٹ اینٹ جوڑ کر پھر سے کھڑا کرنے کے عزائم پر بات کی۔ پیش ہیں اس گفتگو کے اہم حصے...

کانگریس کا کنونشن احمد آباد میں کیوں منعقد کیا گیا، اور اس سے کیا حاصل ہوا؟

گجرات وزیر اعظم (نریندر) مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ دونوں کی آبائی ریاست ہے۔ بی جے پی کے کئی اہم عہدیداران کا تعلق بھی گجرات سے ہی ہے۔ ان سبھی نے ساتھ مل کر اصولوں و روایات کو توڑنے کا کام کیا ہے۔ عوام اور عوامی خدمت گاروں دونوں کے ہی حوصلے توڑے گئے ہیں۔ گجرات کے لوگ ان کی منمانی سے حیران تھے۔ ہم نے گزشتہ 3 دہائیوں سے پیدا ہوئے اس خوف کو دور کرنے کے لیے گجرات میں کانگریس کا کنونشن منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے لوگوں سے ملاقات کرنے اور ان کی بات سننے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ ہم کس طرح دوسروں سے مختلف ہیں۔ میرے خیال سے کانگریس کا کوئی دیگر کنونشن ایسے مقاصد کو پیش نظر رکھ کر منعقد نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اجلاس اہم تھا اور ہم اس کے نتائج سے مطمئن ہیں۔

ہم کانگریس کارکنان اور گجرات پی سی سی لیڈران کو یہ یقین بھی دلانا چاہتے تھے کہ ہم ان کے ساتھ ہیں، انھیں ڈرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ انھیں ریاستی حکومت کی دہشت اور ناانصافی کے خلاف مضبوطی کے ساتھ لڑائی جاری رکھنی چاہیے۔ میرا ماننا ہے کہ ہم یہ اشارہ دینے میں کامیاب بھی رہے کہ کانگریس کا مطلب ’کام‘ ہے۔ یہ بی جے پی سے مقابلہ کرنے کے لیے سنجیدہ کوشش ہے اور مفاد عامہ کے ایشوز پر ہم بے خوف انداز اختیار کرتے ہیں، ہمیں ڈرایا نہیں جا سکتا۔

کانگریس کی تشکیل نو کے لیے ایک قرارداد پاس کیا گیا۔ اس کا کیا مطلب ہے؟

ہم نے پارٹی تنظیم کو مضبوط کر کے ایک ’نئی‘ کانگریس تشکیل دینے کا عزم کیا ہے۔ جس طرح کی تنظیم کا ہم تصور کرتے ہیں، اس کا خاکہ تیار ہے اور ہم بوتھ سطح سے لے کر لوک سبھا سطح تک تبدیلی دیکھنے جا رہے ہیں۔ یہ تبدیلی گجرات سے شروع ہوگی۔ ہم ملک بھر میں ضلع کمیٹیاں تشکیل دیں گے اور انھیں مضبوط کریں گے۔ ایک سینئر لیڈر ایک ضلع کی ذمہ داری سنبھالے گا۔ ضلعی صدر صرف تنظیمی امور میں شامل ہوں گے۔ ضلعوں میں سب سے اچھا لیڈر پارٹی کا ضلع صدر بنے گا۔ ایک کمیٹی بھی بنائی جائے گی۔ ضلع کمیٹی بلاک صدر کا انتخاب کرے گی، اور دھیرے دھیرے ہم بوتھ سطح تک جائیں گے۔ ہم خواتین کی شراکت داری کو بھی بڑھانے کی امید کر رہے ہیں۔

ضلع کمیٹیوں کی نگرانی سیدھے طور پر مرکزی قیادت کے ذریعہ کی جائے گی۔ یہ کمیٹیاں تنظیم چلائیں گی اور ٹکٹ کی تقسیم میں ان کی رائے لی جائے گی۔ بہتر کارکردگی پیش کرنے والوں کے لیے انعامات ہوں گے۔ جہاں بھی پارٹی حکومت بنائے گی، وہاں بہتر کارکردگی پیش کرنے والے ضلعوں سے وزیر برائے جائیں گے۔ جو بہتر کام کرنے میں ناکام رہیں گے، انھیں گھر بیٹھنا چاہیے۔


کانگریس کے ناقدین کہتے ہیں کہ وہ انتخابی ناکامیوں کے لیے پارٹی کے بہانوں سے تھک چکے ہیں، پارلیمنٹ سمیت دیگر اداروں پر قبضے سے متعلق باتیں کہی جا رہی ہیں۔ ایسی تنقیدوں پر آپ کا کیا رد عمل ہے؟

صرف ایک مثال پیش کرنا چاہوں گا۔ تمل ناڈو کے گورنر سے متعلق معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو دیکھیں۔ سبھی اپوزیشن حکمراں ریاستوں کے گورنر اسمبلیوں کے ذریعہ پاس قوانین کو روکے بیٹھے رہے ہیں۔ تلنگانہ، کرناٹک، تمل ناڈو، مغربی بنگال، کیرالہ جیسی اپوزیشن حکمراں ریاستوں میں گورنروں کے کردار دیکھیں۔ ایک بھی اپوزیشن حکمراں ریاست اس سے بچ نہیں پایا ہے۔

جب سے دہلی میں بی جے پی برسراقتدار ہوئی ہے، تب سے سبھی رکے ہوئے قوانین حیرت انگیز طریقے سے منظور ہو رہے ہیں۔ مودی اور شاہ کی بی جے پی جمہوری طریقے سے کام کرنا نہیں جانتی۔ وہ ڈرا دھمکا کر کام کروانا جانتے ہیں۔ اگر حریف لیڈران بی جے پی میں شامل نہیں ہوتے ہیں، یا اپنی پارٹی کو توڑ کر بی جے پی سے ہاتھ نہیں ملاتے ہیں تو سی بی آئی، ای ڈی، انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ جیسی مرکزی ایجنسیاں انھیں پریشان کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتی ہیں۔ اگر ڈرانے دھمکانے سے کام نہیں چہتا ہے تو وہ دیگر پریشانیاں کھڑی کرتے ہیں۔ مثلاً قانون کو روکنا، لوک سبھا میں ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب نہ کرنا، منریگا، سبھی کے لیے تعلیم مہم جیسے پروگراموں کے لیے مرکزی فنڈ جاری نہ کرنا، طلبا کے لیے مختص اسکالرشپ روکنا... ایک طویل فہرست ہمارے سامنے ہے۔

کانگریس پر بی جے پی ’ہندو مخالف‘ ہونے کا الزام لگاتے نہیں تھکتی۔ پارٹی نے اس معاملے میں اپنا کوئی رد عمل کیوں نہیں دیا؟

کانگریس ایک سیکولر پارٹی ہے اور مذہب کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کرتی۔ کیا آپ مجھے ایک بھی مثال دے سکتے ہیں کہ کانگریس نے ہندوؤں کے خلاف کوئی قدم اٹھایا ہو؟ ہمارے سبھی فلاحی منصوبے اور پالیسیاں سبھی مذاہب کے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔ دوسری طرف بی جے پی خود اعتراف کرتی ہے کہ وہ پہلے ہندوؤں کی پارٹی ہے، لیکن اس نے ہندوؤں کے لیے بھی کچھ نہیں کیا۔ کیا انھیں ملازمتیں دیں؟ بی جے پی دعویٰ کرتی ہے کہ دلت ہندو ہیں، لیکن ان کے خلاف مظالم کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کرتی۔ کیا یہ ہندو مخالف عمل نہیں ہے؟


ذات پر مبنی مردم شماری سے متعلق سخت رخ کے سبب پارٹی پر نسل پرستی کو فروغ دینے کا الزام لگ رہا ہے...

میں آپ سے پوچھتا ہوں، ہمارے سماج میں پسماندہ لوگوں کی معاشی حالت کیا ہے؟ دلتوں کی حالت کیا ہے؟ ان کے پاس کتنی زمینیں ہیں؟ ان کے پاس کس طرح کی ملازمتیں ہیں؟ ان کی آمدنی کیا ہے؟ ہمیں تو اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم۔ اگر منصوبے بنانے ہیں اور ان کے لیے بجٹ الاٹ کرنا ہے، تو سماجی و معاشی ڈھانچے کی بنیادی سمجھ کے بغیر کوئی قدم کیسے اٹھایا جا سکتا ہے؟ ہر طبقہ کی ترقی ہونی چاہیے، لیکن کچھ کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب ہمارے سامنے تفصیل ہوگی تو بہ آسانی منصوبے بنا سکیں گے۔ پسماندہ کون ہے؟ کوئی بھی پسماندہ ہو سکتا ہے۔ کوئی ذات کی بنیاد پر پسماندہ ہو سکتا ہے اور کوئی معاشی بنیاد پر۔ اعلیٰ ذات کے لوگ بھی غریب ہو سکتے ہیں۔ اگر سروے کرایا جائے تو ہم ان کے لیے بھی منصوبے بنا سکتے ہیں۔ اس لیے ہم ذات پر مبنی مردم شماری پر زور دیتے ہیں۔ مودی حکومت ذات پر مبنی مردم شماری کرانے میں اتنی خوفزدہ کیوں ہے؟ ذات پر مبنی مردم شماری تو چھوڑیے، یہ حکومت 10 سال میں ہونے والی مردم شماری بھی نہیں کرانا چاہتی۔ حکومت نے 2021 میں کورونا وبا کے بہانے اسے روک دیا۔ ہندوستان دنیا کا واحد ایسا ملک ہے جس نے وبا کے سبب 10 سال میں ہونے والی مردم شماری نہیں کرائی۔ یہاں تک کہ 2 عالمی جنگوں کے دوران بھی مردم شماری کرائی گئی اور سروے کے نتائج شائع کیے گئے۔ مردم شماری کی عدم موجودگی میں کروڑوں لوگ سماجی تحفظ کے دائرے سے باہر ہو گئے ہیں۔ بی جے پی کی دلیل ہے کہ اس نے او بی سی کو نمائندگی دی ہے، وزیر اعظم، کئی مرکزی وزراء اور وزرائے اعلیٰ او بی سی ہیں۔ آخر یہ کس طرح کی دلیل ہے؟ اگر کوئی شخص اعلیٰ عہدہ پر فائز ہوتا ہے، یا اسے وزیر بنایا جاتا ہے، تو کیا اس کی ذات اور طبقہ کی پسماندگی دور ہو جاتی ہے؟ کسی شخص کی ترقی کو طبقہ کی ترقی کیسے تصور کیا جا سکتا ہے۔ دونوں میں بہت فرق ہے۔

کانگریس کارکنان میں یہ سوچ ہے کہ سب سے ذاتوں کا سب سے بڑا گروپ ہونے کے باوجود او بی سی کو اب بھی مناسب نمائندگی نہیں ملی ہے۔ آپ انھیں کیا کہیں گے؟

ہمیں پارٹی میں او بی سی کو شامل کرنا ہوگا، لیکن اس سے بھی ضروری ہدف ملک کے سب سے غریب لوگوں کی ترقی ہے، چاہے ان کی ذات کچھ بھی ہو۔ کانگریس میں ہم ذات کو توجہ میں رکھ کر پالیسیاں نہیں بناتے ہیں۔ ہاں، جو لوگ پیچھے رہ گئے ہیں انھیں نمائندگی ملنی چاہیے۔ ایک مثال پیش کرنا چاہوں گا، جب اندرا گاندھی نے اصلاح اراضی کیا، جب انھوں نے بینکوں کا نیشنلائزیشن کیا، تو کیا یہ کسی ایک ذات کے لیے تھا؟ یہ صرف او بی سی، یا صرف اعلیٰ ذاتوں، یا صرف دلتوں کے لیے نہیں تھا۔ سبھی کو اس کا فائدہ ملا۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر ذات کے لوگ آگے بڑھیں، اس لیے ہم پسماندہ اور انتہائی پسماندہ لوگوں کو پارٹی میں شامل کرنے اور انھیں ذمہ داریاں دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔


کیا آپ اس بات سے متفق ہیں کہ کانگریس کے مقابلے بی جے پی نوجوانوں کو زیادہ متاثر کرنے اور انھیں متوجہ کرنے میں کامیاب ہوتی ہے؟

آپ کب تک انھیں (نوجوانوں کو) مذہبی اشتعال کے ذریعہ بھٹکا سکتے ہیں۔ ملازمتیں موجود نہیں ہیں، تعلیم اور صحت خدمات مہنگی ہوتی جا رہی ہیں، مہنگائی سے گھریلو بجٹ متاثر ہو رہا ہے، بچت اب تک کی سب سے نچلی سطح پر ہے۔ یہ نوجوانوں کے لیے مثالی حالات نہیں ہیں۔ اب زیادہ سے زیادہ نوجوان یہی محسوس کر رہے ہیں کہ ان کا استعمال نفرت پھیلانے کے اوزار کی شکل میں کیا جا رہا ہے۔ میں آپ کو یقین دلا سکتا ہوں کہ نوجوان ہمارے ساتھ ہیں۔

راہل گاندھی کی کنیاکماری سے کشمیر تک کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ اور منی پور سے ممبئی تک کی ’بھارت جوڑو نیائے یاترا‘ نے پارٹی کو نوجوانوں سے جوڑا ہے۔ ہمیں پورا بھروسہ ہے کہ وہ ہمارے ساتھ جڑیں گے، کیونکہ وہ دیکھیں گے کہ کس طرح راہل (گاندھی) ان کی سچی آواز بن رہے ہیں۔ یہ نوجوان دیکھ رہے ہیں کہ پارٹی کس طرح سے ان کے ایشوز اٹھا رہی ہے۔

آپ وزیر اعظم مودی کی کارگزاری کو کس طرح دیکھتے ہیں؟

مودی 13 سال سے زیادہ وقت تک گجرات کے وزیر اعلیٰ رہے۔ وہ گزشتہ 11 سالوں سے وزیر اعظم ہیں۔ مجموعی طور پر تقریباً 24 سال انھوں نے کام کیا، لیکن 24 سالوں میں وہ اپنی ریاست (گجرات) کے لیے بھی بہتری نہیں کر پائے۔ سماجی پیمانوں پر گجرات پسماندہ ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، دراندازی کے ذریعہ گجرات سے غیر قانونی طور پر آنے والے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ کوئی بھی اس کی رپورٹ نہیں کرتا، لیکن نشہ خوری اور شراب نوشی (ایسی ریاست میں جہاں شراب ممنوع ہے) سنگین فکر کا موضوع ہے۔ قبائلی علاقوں میں لوگوں کو پینے کے لیے پانی نہیں مل رہا اور بے روزگاری بھی عروج پر ہے۔ دلتوں کا استحصال ہو رہا ہے، لیکن ان کے لیے آواز اٹھانے والا کوئی نہیں۔ اگر وہ (نریندر مودی) اپنی ریاست بھی نہیں سنبھال سکتے، تو ان سے ملک کو سنبھالنے کی امید کیسے کی جا سکتی ہے؟ صرف اشتعال انگیز اور زہریلی تقریروں سے بھوکے لوگوں کا پیٹ نہیں بھرے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔