’وقف ترمیمی بل 2024‘ جمہوری اور سیکولر تانے بانے کے خلاف: رکن پارلیمنٹ سید نصیر حسین

ملک میں ہندو بندوبستی بورڈ، مندر ٹرسٹ وغیرہ کے کاموں کو کنٹرول کرنے والے قوانین میں واضح تذکرہ ہے کہ صرف ہندو ہی گورننگ بورڈ یا ٹرسٹ کا رکن ہو سکتا ہے، پھر وقف بورڈ کے لیے الگ پیمانہ کیوں؟

<div class="paragraphs"><p>کانگریس رکن پارلیمنٹ سید نصیر حسین، تصویر&nbsp;<a href="https://x.com/NasirHussainINC">@NasirHussainINC</a></p></div>

کانگریس رکن پارلیمنٹ سید نصیر حسین، تصویر@NasirHussainINC

user

قومی آواز بیورو

سید نصیر حسین کرناٹک سے کانگریس کے راجیہ سبھا رکن ہیں۔ یہ ان کی دوسری مدت کار ہے۔ ’وقف (ترمیمی) بل 2024‘ پر تشکیل جے پی سی (جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی) کا وہ حصہ رہے ہیں۔ وکھر احمد سعید کے ساتھ بات چیت میں انھوں نے اس بل پر اپنے اعتراضات کے بارے میں کھل کر بات کی اور بتایا کہ انھیں بی جے پی کے ارادوں پر شبہ کیوں ہے۔ پیش ہیں بات چیت کے اہم اقتباسات:

مختلف ریاستی وقف بورڈ ملک بھر میں 9.4 لاکھ ایکڑ میں پھیلی 8.7 لاکھ ملکیتوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ تعداد حیران کرنے والی ہے اور اس بات پر قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ وقف بورڈس کے پاس اتنی زمین کیسے آ گئی۔

یہ صاف کرنا ضروری ہے کہ مرکزی وقف کونسل ی اریاستی وقف بورڈ کے پاس ایک انچ بھی ملکیت نہیں ہے۔ وقف بورڈ صرف اوقاف کی دیکھ ریکھ کرتے ہیں، جو کبھی بطور عطیہ دیے گئے۔ صدیوں کے دوران مختلف مذاہب کے بادشاہوں کے ذریعہ مساجد، درگاہوں، قبرستانوں، عیدگاہوں اور مذہبی امور کے لیے ’انعام‘ کی شکل میں بڑی مقدار میں زمینیں دی گئیں اور یہی وقف ملکیتوں کا بڑا حصہ ہے۔

8.7 لاکھ جائیداد ایک نظر میں حیران کرنے والی لگتی ہے، لیکن اگر کوئی دیگر طبقات کی ملکیت والی یا ان کی مذہبی سرگرمیوں سے جڑی زمینوں کا موازنہ کر کے دیکھے تو یہ نمبر آبادی کے تناسب میں ہی ہوگا۔ مثال کے طور پر صرف تلنگانہ، تمل ناڈو اور کرناٹک میں ہندو مذہبی بندوبستی بورڈ مجموعی طور پر تقریباً 11 لاکھ ایکڑ زمین کا مینجمنٹ کرتے ہیں۔ ملک بھر میں 6.5 لاکھ سے زیادہ گاؤں ہیں اور ان میں سے کم از کم 85-80 فیصد میں مسلمان ہیں۔ ہر بستی میں کم از کم ایک مسجد، ایک قبرستان، ایک عیدگاہ اور کئی درگاہیں ہوں گی۔ عیدگاہ خود کم از کم ایک ایکڑ میں ہوگی۔

وقف ترمیمی بل کا ایک اعلانیہ مقصد تو وقف جائیدادوں سے متعلق بدتر مینجمنٹ کو روکنے کے لیے شفافیت لانا ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ وہ وقف بورڈس کے ذریعہ پابندی والی ملکیتوں کی جانکاری کو ڈیجیٹائز کر کے زیادہ شفافیت لانا چاہتی ہے، لیکن یہ تو پہلے ہی ہو چکا ہے۔ اقلیتی امور کی وزارت نے اس تعلق سے ایک بیان بھی جاری کیا ہے۔ ریاستی حکومتوں کے ذریعہ مقرر وقف کے سروے کمشنرز کے ذریعہ سروے کے بعد حاصل سارا ڈاٹا ریاستی حکومتوں نے گزٹ میں بھی ڈالا۔ اسی کام کے لیے ایک اور پورٹل شروع کرنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ کیا مرکزی حکومت کو بی جے پی حکمراں ریاستوں سمیت ریاستی حکومتوں پر یقین نہیں ہے کہ انھوں نے درست ڈاٹا دیا ہوگا؟

وقف ملکیتوں کے مینجمنٹ میں بدعنوانی اور متولیوں کے ذریعہ قبضہ کے الزامات لگے ہیں، لیکن بی جے پی حکومت نے ان تجاوزات یعنی قبضہ کو ہٹانے کے لیے کیا کیا ہے؟ کیا کسی کو قصوروار ٹھہرایا گیا ہے یا کوئی ایف آئی آر درج کی گئی ہے؟ یہ بھی حیران کرنے والا معاملہ ہے کہ نئے بل میں قبضہ کرنے والے کی سزا کو 2 سال سے گھٹا کر ایک سال کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ 3 سالوں سے سنٹرل وقف کونسل زیر غور ہے۔ جن ریاستوں میں بی جے پی برسراقتدار ہے، وہاں 2013 کے قانون کے بعد اس سے جڑے اصول نہیں بنائے گئے۔


بل کے کچھ التزامات متنازعہ ہو گئے ہیں۔ مثال کے لیے ہر وقف بورڈ میں 2 خواتین کی لازمی تقرری، سنٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی تقرری، وقف ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کی سہولت، اور وقف بورڈ کے اراکین کی شکل میں دیگر اقلیتوں کو شامل کرنا۔ آپ ان التزامات سے متفق کیوں نہیں ہیں؟

ان سبھی التزامات میں سب سے عجیب ہے خواتین کو شامل کرنا، کیونکہ 2013 کے ایکٹ میں پہلے سے ہی اس سلسلے میں التزام ہے، اور سبھی وقف بورڈ میں 2 خاتون اراکین بھی ہیں۔ واضح ہے، اقلیتی امور کے وزیر (کرن رجیجو) نے 2013 کے ایکٹ کو نہیں پڑھا ہے۔

ایک سیکولر ملک میں کسی بھی شعبہ میں کسی بھی مذہب کے منتظم کی تقرری کی جا سکتی ہے۔ مجھے ذاتی طور پر اس سے کوئی دقت نہیں ہے، لیکن ملک بھر کی ریاستوں میں ہندو بندوبستی بورڈ، مندر ٹرسٹ وغیرہ کے کام کو کنٹرول کرنے والے قوانین میں واضح طور سے تذکرہ کیا گیا ہے کہ صرف ہندو ہی گورننگ بورڈ یا ٹرسٹ کا رکن ہو سکتا ہے۔ جب ایسا ہے تو وقف بورڈ کا کام دیکھنے کے لیے الگ پیمانہ کیوں استعمال کیا جا رہا ہے؟

اس کے علاوہ وقف یا ہندو بندوبستی بورڈ ایک خاص مذہب کی مذہبی سرگرمیوں سے منسلک ہوتے ہیں۔ ایک الگ مذہب کا شخص دوسرے مذہب کے رسوم و رواج، روایات اور مذہبی اعمال کو بھلا کس طرح سمجھے گا؟ غیر مسلموں کی تقرری سے وقف بورڈ کے کام میں کوئی بہتری نہیں ہوگی۔ (مجوزہ قانون) ایک طرح سے یہ بتاتا ہے کہ حکومت کو مسلمانوں پر بھروسہ نہیں۔

ایک اور متنازعہ التزام یہ ہے کہ صرف وہی شخص وقف کا اعلان کر سکتا ہے جو کم از کم 5 سال سے اسلام پر عمل کر رہا ہو۔ اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟

یہ ہمارے ملک کی سیکولر اور لبرل روایات کے خلاف ہے۔ کسی بھی شہری کو کسی بھی شخص کو عطیہ دینے، کسی بھی مذہب کی مذہبی سرگرمی یا ادارہ کی حمایت کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔ ہماری تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں ہیں۔ بادشاہ اور ان کی بیگمات، نوابوں اور سلطانوں نے سبھی مذاہب کے لوگوں کو عطیہ دیا ہے۔ اس کے علاوہ کون اتھارٹی کسی کی مذہبی ساکھ کو سرٹیفائی کرے گا؟


اس مجوزہ بل سے حکومت کی منشا کیا ہے؟

بی جے پی کا ایجنڈہ بالکل صاف ہے۔ وہ ووٹرس کو پولرائز کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا کرنے کے لیے ان کے پاس ایک تجربہ شدہ طریقہ ہے۔ اس کی شروعات سوشل میڈیا پر کسی ایشو کو لے کر ہونے والی زبردست تشہیر سے ہوتی ہے۔ پھر بڑے پیمانے پر فرضی خبریں آتی ہیں، اس کے بعد تشہیر کو بی جے پی لیڈران ہوا دیتے ہیں، وہ جھوٹے دعووں کو درست ٹھہرانے کے لیے گمراہ کن دلیلیں پیش کرتے ہیں۔ اس کے بعد آخر میں قانونی اقدام کیے جاتے ہیں۔ بی جے پی ایسی پارٹی کی شکل میں نظر آنا چاہتی ہے جو مسلمانوں کو ان کی ’جگہ‘ دکھا رہی ہے اور انھیں دوسرے درجہ کا شہری بنا رہی ہے۔ اس کے ذریعہ ان کا مقصد ایسا سماجی طبقہ بنانا ہے جو ہمیشہ ان کے لیے ووٹ کرے۔

اگر یہ بل پارلیمنٹ میں پاس ہو جاتا ہے تو آپ کو کیا لگتا ہے، تاریخی اسلامی مقامات پر ہندو رائٹ ونگ گروپوں کے ذریعہ کیے جانے والے دعوے بڑھ جائیں گے؟

اگر یہ بل قانون بن جاتا ہے تو اس میں ملک کے ہر گاؤں میں مذہبی تقسیم بھڑکانے کی طاقت ہوگی۔ کوئی بھی شخص ڈپٹی کمشنر کے پاس جا سکتا ہے اور تاریخی یادگاروں اور زمین کے نام کے بارے میں شبہ پیدا کر سکتا ہے، جس سے بڑے فرقہ وارانہ تنازعات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس سے فرقہ وارانہ بنیاد پر مقدمہ بازی کو فروغ ملے گا جس کا استعمال (لوگوں کو) پولرائز کرنے کے لیے کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بل ملک کے جمہوری و سیکولر تانے بانے کے لیے خطرناک ہے۔


ملک بھر میں بڑی تعداد میں کسانوں نے شکایت کی ہے کہ انھیں ضلع وقف بورڈس سے ان کی کھیتی کی زمین پر دعویٰ کرنے والے نوٹس ملے ہیں۔ اس پر آپ کا کیا کہنا ہے؟

میں اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا، کیونکہ میں مختلف معاملوں کی سچائی سے اچھی طرح واقف نہیں ہوں۔ لیکن موٹے طور پر جو ہو رہا ہے، وہ مختلف اراضی قوانین کے درمیان خامی کو ظاہر کرتا ہے۔ کئی ریاستوں میں انعام کے خاتمہ، اراضی سیلنگ اور اراضی اصلاح ایکٹ پاس کیے گئے۔ اس کے تحت زمین کو واپس اسے جوتنے والے کو دیا گیا ہے، لیکن ایسے قوانین کو قانونی طور پر چیلنج پیش کیا گیا۔ پھر سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ وقف کی زمین کو الگ نہیں کیا جا سکتا (فیصلے میں ایک جگہ کہا گیا ہے: ایک بار وقف، ہمیشہ وقف)۔

اس سے ایسے حالات پیدا ہوئے ہیں جہاں وقف بورڈس کو لگا کہ انھیں ان زمینوں پر دعویٰ کرنے کا حق ہے جو ان سے چھین لی گئی ہیں۔ ایسے معاملوں میں ریاستی حکومتوں کو مداخلت کرنا چاہیے اور مسئلہ کا حل تلاش کرنا چاہیے تاکہ متاثرہ کسانوں اور وقف کو کوئی نقصان نہ ہو اور انھیں مناسب معاوضہ ملے۔

کیا بی جے پی اپنے ساتھیوں پر دباؤ ڈال کر بل پاس نہیں کروا سکتی تھی؟ اس نے اسے جے پی سی کے پاس کیوں بھیجا؟

یہ بل غلط منشا سے سامنے لایا گیا ہے، اس کا مسودہ گھٹیا طریقے سے تیار کیا گیا ہے اور اس میں قانونی دلائل نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اسے جلدبازی میں پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا۔ اسے تیار کرنے میں کسی بھی فریق سے مشورہ نہیں لیا گیا۔ ان سب کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ وقف ایکٹ 1995 اور 2013 میں کی گئی ترامیم کو لے کر نہ تو کوئی سنجیدہ شکایت تھی اور نہ ہی کوئی عدالتی مشورہ۔

یہ بل سیاسی تنازعہ کو فروغ دینے کے لیے لایا گیا۔ سبھی اپوزیشن پارٹیوں نے اسے پیش کرنے کی مخالفت کی، یہاں تک کہ تیلگو دیشم پارٹی جیسی کچھ بی جے پی حامیوں نے بھی مشورہ دیا کہ اسے جے پی سی کے پاس بھیجا جانا چاہیے۔ یہ محسوس کرتے ہوئے کہ بل کو پارلیمنٹ کی منظوری نہیں مل پائے گی، انھوں نے اسے آگے صلاح و مشورہ کے لیے جے پی سی کے پاس بھیج دیا۔

(یہ انٹرویو طویل صورت میں سب سے پہلے ’فرنٹ لائن‘ میں شائع ہوا)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔