منموہن سنگھ فیلوشپ: پیشہ ور افراد کے لیے سیاست کے نئے دروازے کھولتی ایک پہل

منموہن سنگھ فیلوشپ کا مقصد مختلف شعبوں کے تجربہ کار پروفیشنلز کو سیاست میں لانا ہے۔ یہ روایتی نظام سے ہٹ کر عوامی خدمت کے جذبے سے جڑنے کا ایک ادارہ جاتی پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے

<div class="paragraphs"><p>پروین چکرورتی</p></div>

پروین چکرورتی

user

ہرجندر

سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ فیلوشپ پروگرام کے لیے آل انڈیا پروفیشنل کانگریس کے پاس بڑی تعداد میں درخواستیں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں سیاست میں نئے لوگوں کے داخلے کے لیے کوئی ادارہ جاتی نظام موجود نہیں، وہاں اس طرح کی پہل سے کئی امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ اس فیلوشپ کا خاکہ کیا ہے، اور کانگریس پارٹی اس میں کیا امکانات دیکھ رہی ہے؟ اس حوالے سے ’ہرجندر‘ نے آل انڈیا پروفیشنل کانگریس کے چیئرمین ’پروین چکرورتی‘ سے بات کی۔ پیش ہیں گفتگو کے اقتباسات:

سوال: منموہن سنگھ فیلوشپ کا خیال کیسے آیا؟

جواب: میرا ڈاکٹر منموہن سنگھ جی سے گہرا تعلق رہا ہے۔ وہ میرے مینٹور تھے۔ دس برس سے زیادہ ان کے ساتھ کام کیا۔ 2018 میں راہل جی مجھے پارٹی میں لائے۔ اس سے پہلے میں نہ سیاست میں سرگرم تھا اور نہ ہی کسی سیاسی خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ میں نے بیس سال نجی شعبے میں کام کیا۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ کانگریس جیسی پارٹی میں اہم ذمے داری سنبھالوں گا۔ میں نے سوچا کہ منموہن سنگھ بھی اسی طرح سیاست میں آئے تھے، تو کیوں نہ ان کے نام پر ایک ایسا پلیٹ فارم بنایا جائے جس سے میرے جیسے لوگ سیاست میں آ سکیں۔ مختلف شعبوں کے پیشہ ور افراد اسی طرح لیٹرل انٹری کے ذریعے سیاست میں آ سکتے ہیں۔

سب سے پہلے مجھے منموہن سنگھ جی کا نام استعمال کرنے کی اجازت درکار تھی۔ میں ان کے اہل خانہ سے ملا، ان کی اہلیہ اور دونوں بیٹیوں سے بات کی۔ انہوں نے اس خیال کو سراہا اور اجازت بھی دی۔

کیا کانگریس پارٹی اس کے لیے تیار تھی یا آپ کو انہیں راضی کرنا پڑا؟

میں نے جا کر انہیں پوری اسکیم سمجھائی، منصوبہ ان کے سامنے رکھا۔ کانگریس ایک ’امبریلا پارٹی‘ ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ پارٹی کو ہر طرح کے لوگوں کو خود سے جوڑنے کا موقع دینا چاہیے۔ پارٹی نے اس منصوبے کو مکمل حمایت دی۔


کیا آپ کسی مخصوص شعبے کے پروفیشنلز کو راغب کرنا چاہتے ہیں یا کوئی بھی آ سکتا ہے؟

یہ کوئی ابتدائی سطح کا پروگرام نہیں ہے کہ جو ابھی کالج سے فارغ ہوا وہ آ جائے۔ پروفیشنل کسی بھی شعبے سے ہو سکتا ہے، کھلاڑی، نجی شعبے سے، یا سابق آئی اے ایس۔ جو عوامی زندگی میں آنا چاہتا ہے اور کچھ سنجیدگی سے کرنا چاہتا ہے، یہ ان کے لیے ہے۔ مڈ-کیرئیر پروفیشنلز، جنہوں نے 10-15 سال کام کر لیا ہو اور اب پختہ ارادہ رکھتے ہوں کہ عوامی خدمت کرنی ہے۔ یہ صرف ایک یا دو سال کی انٹرن شپ نہیں، بلکہ پوری زندگی کا عزم ہے۔ اس میں کسی تعلیمی قابلیت کی شرط نہیں۔ اگر آپ سیاست کے ذریعے ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، اور سماجی انصاف، سیکولرزم اور شمولیت کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں، تو آپ کا خیر مقدم ہے۔

کیا امیدواروں کا انتخاب صرف قابلیت کی بنیاد پر ہوگا یا سماجی تنوع بھی مدنظر رکھا جائے گا؟

ہماری پریس کانفرنس میں تین لوگ بیٹھے تھے – کے راجو، جو آئی اے ایس رہے ہیں اور ہمارے دلت ونگ کے چیئرمین ہیں؛ پون کھیڑا، جو شمال سے ہیں؛ اور میں خود جنوب سے۔ ہم نے وہیں تنوع دکھایا۔ آپ ہمارے مینٹرز کی فہرست دیکھیں، ہر طرح کے لوگ شامل ہیں۔ کانگریس ایک شمولیتی پارٹی ہے، اس لیے سب کو شامل کیا جائے گا۔

ہماری پریس کانفرنس میں تین لوگ بیٹھے تھے – کے راجو، جو آئی اے ایس رہے ہیں اور ہمارے دلت ونگ کے چیئرمین ہیں؛ پون کھیڑا، جو شمال سے ہیں؛ اور میں خود جنوب سے۔ ہم نے وہیں تنوع دکھایا۔ آپ ہمارے مینٹرز کی فہرست دیکھیں، ہر طرح کے لوگ شامل ہیں۔ کانگریس ایک شمولیتی پارٹی ہے، اس لیے سب کو شامل کیا جائے گا۔فیلوشپ میں آنے والوں کی ترقی کا راستہ کیا ہوگا؟


فیلوشپ میں آنے والوں کی ترقی کا راستہ کیا ہوگا؟

یہ پوری زندگی کا ایک عزم ہے۔ پہلے سال تربیت ہوگی اور وہ کسی سینئر سے منسلک ہوں گے۔ جیسے اگر کوئی میرے ساتھ جڑے گا تو پروفیشنل کانگریس میں کام کرے گا۔ اگر کے راجو سے جڑتا ہے، تو جھارکھنڈ جا کر وہاں پارٹی کے کام میں لگے گا۔ پون کھیڑا کے ساتھ ہو تو میڈیا و مواصلات میں کام کرے گا۔

کیا یہ لوگ سینئر لیڈروں کے ساتھ بھی کام کریں گے؟

بالکل، کیوں نہیں کریں گے۔

کیا آپ کوئی ایسا ادارہ جاتی نظام بنانا چاہتے ہیں جس سے سیاست میں نئے لوگوں کا آنا ممکن ہو؟

جی ہاں، میرا ذاتی تجربہ یہی کہتا ہے۔ منموہن سنگھ جی بھی کہتے تھے کہ ہمارے لیے یہ مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہم دوسرے نظاموں سے آتے ہیں۔ میں خوش قسمت تھا کہ راہل گاندھی نے مجھے موقع دیا، مگر ایسے کتنے لوگ آ سکتے ہیں؟ اسی لیے میں نے سوچا کہ یہ کسی ایک شخص پر منحصر نہیں ہونا چاہیے، بلکہ مکمل ادارہ جاتی نظام ہونا چاہیے۔


کیا آپ نے ان افراد کی کامیابی کو ماپنے کا کوئی طریقہ بنایا ہے؟

پارٹی کی کامیابی ہی ان کی کامیابی ہوگی۔ علاوہ ازیں مینٹرز اور دوسرے پارٹی ممبران کا فیڈبیک ہوگا۔ یہ ایک نئی ثقافت ہوگی، جہاں مکمل جوابدہی اور ذمے داری ہوگی۔ ایسا نہیں ہوگا کہ یہ فلاں لیڈر کا چہیتا ہے۔

سیاست میں کئی پریشر گروپس اور دھڑے ہوتے ہیں۔ کیا یہ لوگ بھی آخر میں کسی دھڑے کا حصہ بن جائیں گے؟

نہیں، اسی لیے میں چاہتا ہوں کہ ہم الگ کلچر بنائیں۔ اگر یہ تجربہ کامیاب رہا تو امید ہے کہ پوری پارٹی اسے اپنائے گی۔


پروفیشنل سے سیاسی کیریئر میں آنا ایک بڑا چیلنج ہو سکتا ہے۔ آپ کو کیا چیلنجز لگتے ہیں؟

سب سے بڑی ثقافتی چیلنج ہے۔ میں نے 20-25 سال بڑے بینکوں میں ایم ڈی کے طور پر کام کیا۔ پھر سیاست میں آیا تو دیکھا کہ یہاں ٹیم ورک کی وہ بات نہیں، جو کارپوریٹ میں ہوتی ہے۔ شروع میں سوچتا تھا، میں تو اچھا کام کر رہا ہوں، لوگ مخالفت کیوں کرتے ہیں؟ پھر سمجھ آیا کہ یہاں تین لوگ ایک سیٹ کے امیدوار ہوتے ہیں، ایک کو ٹکٹ ملا تو باقی دو اسے ہرانے میں لگ جاتے ہیں۔ سیاست میں جوابدہی کا وہ تصور نہیں جو کارپوریٹ میں ہوتا ہے۔

کیا آپ کو لگتا ہے کہ مستقبل کا قیادت اسی طریقہ سے آئے گی یا یہ متوازی راستہ ہوگا؟

نہیں، میں یہ نہیں کہتا کہ صرف اسی طریقے سے آئے گی۔ یہ ایک متبادل راستہ ہے۔ اس میں بھی میرٹ ہے۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ پروفیشنلزم سب پر حاوی ہے، لیکن اس میں کئی مثبت پہلو ہیں۔ مستقبل کی قیادت میں پیشہ ور افراد کو بھی موقع ملنا چاہیے۔


پروفیشنل پہلے بھی سیاست میں آئے ہیں، جیسے منموہن سنگھ یا راجیش پائلٹ۔ یہ فیلوشپ ان سے مختلف کیسے ہے؟

جی ہاں، منموہن سنگھ ایک بڑی مثال ہیں، اسی لیے یہ فیلوشپ ان کے نام پر ہے۔ کچھ اور مثالیں بھی ہیں، مگر وہ انفرادی تھیں۔

دیگر کئی فیلوشپس بھی ہیں، جیسے اشوکا یونیورسٹی یا انکلو سیو مائنڈ کی نہرو فیلوشپ۔ آپ کی فیلوشپ ان سے مختلف کیسے ہے؟

وہاں طالب علم آتے ہیں، ایک سال تربیت لیتے ہیں، اسٹائپینڈ ملتا ہے، اور سند لے کر چلے جاتے ہیں۔ یہ فیلوشپ سنجیدہ پروفیشنلز کے لیے ہے، جو عوامی زندگی میں واقعی سنجیدہ ہیں۔ یہ کسی سند یا سال بھر کے تجربے کے لیے نہیں ہے۔


تو یہ ایک طرح سے کیریئر میں تبدیلی ہے؟

جی بالکل، جیسے میں نے کیا۔ میں ماہر معاشیات اور بینکر تھا، پھر سیاستدان بن گیا۔ کوئی کھلاڑی سیاستدان بن سکتا ہے، آئی اے ایس افسر بھی بن سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا ہی تبدیلی کا عمل ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔