خوفزدہ لاک ڈاؤن کی جگہ عوام میں اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت: راجیو بجاج

راہل گاندھی کے ایک سوال کے جواب میں صنعت کار راجیو بجاج نے کہا کہ ان کو کسی نے مشورہ دیا تھا کہ وہ راہل گاندھی سے بات نہ کریں کیونکہ اس کا انہیں نقصان ہو سکتا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

کانگریس رہنما راہل گاندھی نے ملک کے معروف صنعت کار راجیو بجاج سے ویڈیو کانفرسنگ کے ذریعہ کورونا اور لاک ڈاؤن پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا۔ راہل گاندھی نے راجیو بجاج سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ لاک ڈاؤن کا معیشت پر کیا اثر پڑا اور اب آگے کا کیا راستہ ہے۔ پیش خدمت ہے اس تبادلہ خیال کے اہم اقتباسات:

راہل گاندھی: کورونا وائرس کے دوران آپ کے یہاں کیا حالات ہیں؟

راجیو بجاج: سبھی کے لئے یہ نیا ماحول ہے، ہم سب اس میں ڈھلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جو لوگ اسے برداشت کر سکتے ہیں وہ کوشش کر رہے ہیں لیکن اس درمیان کاروبار کے ساتھ کافی کچھ ہو رہا ہے۔

راہل گاندی: کسی نے سوچا نہیں ہوگا کہ دنیا اس طرح لاک ہوجائے گی عاملی جنگ کے دوران بھی ایسا نہیں ہوا تھا۔

راجیو بجاج: جاپان، سنگاپور ہمارے دوست ہیں اس کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک سے بات ہوئی ہے۔ ہندوستان میں ایک طرح سے بہت خوفناک قسم کا لاک ڈاؤن ہوا ہے ایسا لاک ڈاؤن کہیں پر بھی نہیں ہوا۔ دنیا کے کئی ممالک میں باہر نکلنے کی اجازت تھی لیکن ہمارے یہاں حالات الگ رہے۔


راہل گاندھی: ہندوستان میں ایک طبقہ ہے جو اس لاک ڈاؤن کو برداشت کر سکتا تھا لیکن کروڑوں مزدوروں کو مشکل جھیلنی پڑی۔

راجیو بجاج: ہندوستان نے مشرق کی طرف نہیں بلکہ مغرب کی جانب دیکھا، حالانکہ مشرقی ممالک میں اس کے خلاف بہتر کام ہوا ہے۔ مشرقی ممالک میں ٹیمپریچر اور طبی سہولیات سمیت کئی طرح کی دشواریاں تھیں لیکن اس کے باوجود اچھا کام ہوا ہے۔ ایسی کوئی بھی طبی خدمات نہیں ہے جو اس سے نمٹ سکے۔ ہم نے لوگوں کو اس بیماری کے بارے میں اس طرح بتایا کہ اگر یہ بیماری ہوگئی تو جیسے موت واقع ہوگئی۔یعنی کینسر سے بھی زیادہ سخت بیماری ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں کی سوچ بدلی جائے اور ان میں اعتماد پیدا کیا جائے تاکہ زندگی کو واپس پٹری پر لایا جا سکے، ظاہر ہے اس میں ایک لمبا وقت لگے گا۔

راہل گاندھی: میں نے کئی ماہرین سے بات کی ہے، ان لوگوں سے سے لاک ڈاؤن کی ابتدا میں بات ہوئی تھی، انہوں نے کہا تھا کہ جیسے ہی لاک ڈاؤن نافذ کیا جاتا ہے، بیماری کا طریقہ بدل جاتا ہے۔

راجیو بجاج: ٹی بی، ڈائیریا جیسی بیماری کے بجائے ایسا کچھ پہلی بار ہوا ہے، اس بیماری نے ترقی یافتہ ممالک کو ضرب لگائی ہے، کیونکہ جب امیر بیمار ہوتے ہیں تو ہیڈ لائن بنتی ہے لیکن افریقہ میں غریب بچے خوراک کی کمی کی وجہ سے مر جائیں توکوئی ذکر بھی نہیں کرتا۔ اب چونکہ اس بیماری سے ترقی یافتہ ممالک اور امیر اشخاص متاثر ہو رہے ہیں تو اس کا شور زیادہ ہے۔

عام آدمی کے نظریہ سے لاک ڈاؤن کافی مشکل ہے کیونکہ ہندوستان میں جس طرح کا لاک ڈاؤن نافذ ہوا، اس طرح کا کہیں بھی نہیں ہوا۔ ہر کوئی شخص آج درمیان کا راستہ نکالنا چاہتا ہے۔ کمزور لاک ڈاؤن سے وائرس رہتا ہے اور سخت لاک ڈاؤن سے معیشت بگڑتی ہے۔


راہل گاندھی: ہمارے یہاں مزدور، کامگار ہیں، غریب و متوسط طبقہ ہے، ہم نے اس کا حل اپنے اندر رہ کر کیوں تلاش نہیں کیا، ہم کیوں مغرب کی جانب د یکھتے رہے۔

راجیو بجاج: اگر مارچ میں جائیں تو آپ تنہا پہلے کیا سوچتے ہیں؟

راہل گاندھی: ہمارا اس پر تبادلہ خیال ہوا تھا کہ ریاستوں کو طاقت دینی چاہیے اور مرکز کو اس مشکل وقت میں ریاستوں کی پوری مدد کرنی چاہیے۔ مرکز کو ریل اور جہاز پر توجہ دینی چاہیے تھی اور وزیر اعلی و ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو زمین پر لڑائی لڑنی چاہیے تھی۔ میرے حساب سے لاک ڈاؤن ناکام رہا ہے اور اب کیس بڑھ رہے ہیں۔ اب مرکزی حکومت پیچھے ہٹ رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ ریاست سنبھال لیں۔ ہندوستان نے دو ماہ کا پاز بٹن دبایا اور اب وہ قدم اٹھا رہی ہے جو پہلے دن لینا چاہیے تھا۔

راجیو بجاج: ہندستان میں جب کوئی ہیلمیٹ نہیں پہنتا تو اس کا کچھ نہیں ہوتا، لیکن اب اگر کوئی ماسک نہیں پہن رہا ہے تو اسے سڑک پر بے عزت کیا جا رہا ہے، جوکہ غلط ہے۔ ہمیں لوگوں کی دشواریوں کو سمجھتے ہوئے اپنے رویہ میں رحم دلی لانی چاہیے۔ آ ج دنیا کی حکومتیں عام لوگوں کی سیدھے مدد کر رہی ہیں، جبکہ ہندوستان میں لوگوں کے ہاتھ میں سیدھا پیسہ نہیں دیا گیا۔


راہل گاندھی: گزشتہ کچھ سالوں میں جو کہنا ہے وہ کہہ دو والا سین کم ہو گیا ہے۔ آج لوگ کہتے ہیں کہ بجاج میں دم ہے۔

راجیو بجاج: میں نے کچھ باتیں ایسی ضرور کہیں ہیں کہ جس پر تنازعہ ہوا ہے۔ کچھ لوگوں نے مجھے بات کرنے سے پہلے ہوشیار کیا تھا، لیکن مجھے اس میں کچھ غلط نہیں لگا۔ آج ملک میں 100 لوگ بولنے سے ڈرتے ہیں، 90 کے پاس چھپانے کو کچھ ہے لیکن آج بہت سارے کنکال (انسانی ڈھانچے) الماری سے باہر آگئے ہیں، کیونکہ لوگ نہیں بولنا چاہتے، لیکن میرے والد بولتے ہیں وہ بھی بے خوف ہو کر بولتے ہیں۔

ابھی اَن لاک کرنے کی سمت میں کوئی ٹھوس کام نہیں ہوا ہے اور لوگوں میں اعتماد کی کمی ہے۔ ہر کوئی الگ الگ بول رہا ہے، جو کہ غلط ہے، تال میل کی ضرورت ہے، آپس میں ربطہ کی ضرورت ہے۔ لوگوں میں خوف ہے کہ کورونا سے موت ہو رہی ہے ایکن یہ سچائی نہیں ہے۔ لوگوں کے دماغوں سے ڈر نکالنے کی ضرورت ہے اور وزیر اعظم مودی کو آج ملک سے کہنا چاہیے کہ اس وائرس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 04 Jun 2020, 12:40 PM