انٹرویو... پرینکا کے نام سے بی جے پی میں گھبراہٹ، مودی لہر کا خاتمہ یقینی: ہاردک

بی جے پی کی ناک میں دم کرنے والے اور اب کانگریس میں شامل ہو چکے ہارک پٹیل سے ’قومی آواز‘ کے لئے وشودیپک نے خصوصی گفتگو کی۔ پیش ہیں اہم اقتباسات:

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

وشو دیپک

پاٹیدار امانت آندولن سمیتی کے ذریعے گجرات میں پٹیل طبقہ کے لئے ریزرویشن کا پُرزور مطالبہ کرنے والے 25 سالہ نوجوان ہاردک پٹیل کانگریس میں شامل ہو گئے ہیں۔ بی جے پی کی ناک میں دم کرنے والے ہارک پٹیل سے قومی آواز نے خصوصی گفتگو کی، پیش ہیں اہم اقتباسات:

سوال: آپ نے کانگریس میں شامل ہونے کا فیصلہ کیوں کیا؟

ہاردک پٹیل: میں نے وہی کیا جو میں ملک اور عوام کے لئے مناسب مانتا ہوں۔ ہمارا آئین بھی ہمیں نمائندہ منتخب کرنے اور اظہار رائے کی آزادی کا حق دیتا ہے۔ اگر میں بغیر کسی پارٹی کا رکن بنے بے باکی سے اپنی بات کہہ سکتا ہوں، سماج کے لئے کچھ کر سکتا ہوں تو کسی سیاسی جماعت کا حصہ بننے کے بعد یہ کام میں مزید کامیابی کے ساتھ کر پاؤں گا۔

اب سوال اٹھتا ہے کہ کانگریس ہی کیوں! تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسی پارٹی کے سابقہ رہنماؤں نے ملک کو آزاد کرایا تھا۔ سبھاش چندر بوس سے لر پنڈت نہرو تک اور مہاتما گاندھی سے لے کر مولانا آزاد تک ہر کوئی کانگریس سے تھا۔ متحدہ ہندوستان کے تخلیق کار سردار پٹیل بھی کانگریس سے تھے۔ تو کانگریس نے نہ صرف ملک کو آزاد کرایا بلکہ اسے ترقی کی راہ پر بھی لے کر گئی۔ آزاد کے وقت ملک کے پانچ گاؤں میں بجلی تھی آج پورے ملک میں ہے۔ کانگریس نے بڑے بڑے ڈیمز بنوائے، سڑکیں تعمیر کرائیں، کارخانہ قائم کئے، آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم جیسے اداروں کا قیام کیا، اس لئے میں نے کانگریس میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔

سوال: بی جے پی کا الزام ہے کہ آپ کانگریس کے ایجنٹ تھے، پہلے کانگریس نے آپ کو پروجیکٹ کیا اور اب پارٹی میں شامل کر لیا!

میرے خلاف غداری ملک کے دو مقدمے ہیں۔ گجرات کے ایک ضلع میں گھسنے پر مجھ پر پابندی عائد ہے۔ احمد آباد کے ایک علاقہ میں میں جا نہیں سکتا۔ کیا ایجنٹ ایسے ہوتے ہیں! بی جے پی کی حکومت نے ہمارے خلاف 32 سے زائد مقدمہ درج کرائے۔ گجرات سے چھ مہینے کے لئے مجھے جلا ریاست کر دیا گیا تھا۔ میں 9 مہینے تک جیل میں رہا۔ کیا کسی کو ایسے پروجیکٹ کیا جاتا ہے! اگر کانگریس پارٹی کسی کو ایسے پروجیکٹ کرتی ہے تو میں ہر کسی کو پروجیکٹ کرنے کے لئے تیار ہوں۔


لیکن سوال یہ بنتا ہے کہ آپ نے علیحدہ سیاسی جماعت کیوں نہیں بنائی! جبکہ آپ ایسا کر سکتے تھے۔

بالکل ضروری نہیں کہ علیحدہ پارٹی ہی قائم کی جائے۔ میرا مقصد ملک اور سماج کے لئے بہتر کام کیا جائے۔ مجھے لگتا ہے کہ ملک اور سماج کے لئے کانگریس کا حصہ رہتے ہوئے بہتر کام کر سکتا ہوں۔ اس لئے میں نے علیحدہ پارٹی قائم نہیں کی۔

تاریخ گواہ ہے کہ کانگریس کی حکومتوں نے سب کے لئے کام کیا ہے، کانگریس نے کبھی دو فرقوں کو، دو قوموں کو آپس میں لڑانے کا کام نہیں کیا ہے، کانگریس نے آزادی کے بعد سے ہی نوجوان، دلت، کمزور اور پسماندہ طبقات کے لئے اسکیمیں بنائی ہیں، کروڑوں لوگوں کو غربت کی لکیر سے اوپر اٹھایا ہے۔ چونكہ میں نوجوان ہوں، اسی لئے میں نے طے کیا ہے کہ کانگریس سے نوجوانوں کو جوڑا جائے، ہمارے صدر راہل گاندھی جی کا بھی یہی کہنا ہے کہ پارٹی میں زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو موقع دیا جائے۔

کیا کانگریس میں شامل ہونے کی کوئی شرط تھی؟ آپ نے اپنے لئے کیا ہدف طے کیا تھا؟

دیکھیے ہدف وہ طے کرتا ہے، پارٹی سے مطالبہ وہ کرتا ہے جس کا کوئی وجود نہیں ہوتا، میں کسی پیشگی ایجنڈے کے ساتھ نہیں آیا ہوں، باقی پارٹی جو کام دے گی اسے میں صبر و تحمل اور سنجیدگی سے مکمل کروں گا۔


آپ نے پٹیل طبقہ کے لئے ریزرویشن کی مانگ کے ساتھ اپنی تحریک شروع کی تھی، اب بی جے پی نے اقتصادی طور پر کمزور اعلی ذات طبقے کو 10 فیصد ریزرویشن دے کر کیا آپ کا ایشو ختم نہیں کر دیا؟

یہ تو اچھی بات ہے، ہم لڑے تبھی تو بی جے پی کو ریزرویشن لاگو کرنا پڑا اور صرف پاٹيدار ہی نہیں وہ تمام لوگ جو اقتصادی طور پر کمزور تھے ان سب کو اس کا فائدہ ہوگا، میری لڑائی سے سب کا فائدہ ہوا۔

لیکن بی جے پی کا دعوی ہے کہ اعلی ذات کو ریزرویشن دینے کی سوچ اس کی تھی۔

کہنے کا کیا، مودی جی اور بی جے پی کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، جیسا کہ بالاكوٹ میں فضائیہ نے حملہ کیا، ہمارے جوانوں نے دہشت گردوں کا خاتمہ کیا، لیکن کریڈٹ خود مودی جی لے رہے ہیں، اس کا کیا کر سکتے ہیں۔


آپ جس پٹیل طبقہ سے آتے ہیں، وہ تو بی جے پی کا کور ووٹر ہے، گجرات کے سابق وزیر اعلی مادھو سنگھ سولنکی کے وقت سے پٹیل بی جے پی کے ساتھ چلا گیا، آپ اسے کانگریس میں کس طرح واپس لائیں گے؟

یہ افواہ بی جے پی پھیلا رہی ہے کہ پٹیل اس مووٹر ہے، پٹیل طبقہ نے ایک وقت میں بی جے پی کو ووٹ دیا، لیکن جب سے میں فعال ہوا ہوں بی جے پی کا کیا حال ہوا ہے آپ کو پتہ ہے۔ ایک دور تھا جب بی جے پی میں 50 پٹیل ممبر اسمبلی ہوا کرتے تھے لیکن 2017 کے اسمبلی انتخابات میں گھٹ کر ان کی تعداد 25 رہ گئی، اسی طرح کانگریس کے پاس صرف 8 پٹیل ممبر اسمبلی ہوا کرتے تھے اب یہ بڑھ کر 20 ہو گئے ہیں، یہ اعداد و شمار آپ کو سمجھانے کے لئے کافی ہیں۔

2019 کے لوک سبھا انتخابات میں آپ کن مسائل پر لوگوں سے ووٹ مانگے گیں؟

اگر گجرات کی بات کریں تو یہاں خواتین، کسان، نوجوان اور مزدور ہمارے لئے اہم ایشو ہون گے، بس یہ سمجھ لیجیے کہ دوسری پارٹیوں کی طرح ہمارے مسائل دہلی میں طے نہیں ہوں گے، ہم نوجوانوں اور کسانوں کے مسائل اٹھائیں گے، جب تک ہم نوجوانوں کو اہمیت نہیں دیں گے تب تک ملک کے حالات ایسے ہی رہیں گے، ہمارے ایشو مذہب، ذات کے نام پر نہیں ہوں گے، ہمارا ایشو فوج کا نہیں ہوگا، ہمارا ایشو یہ ہوگا کہ ہماری فوجیں مزید مضبوط ہوں۔


بات ہو رہی ہے کہ آپ جام نگر لوک سبھا سیٹ سے الیکشن لڑیں گے؟

مجھ پر تحریک کے دوران بی جے پی نے غلط مقدمہ بنایا تھا جس میں مجھے دو سال کی سزا ہو چکی ہے، اس مواملے میں مجھے ہائی کورٹ سے ضمانت لینی ہے، اگر ہائی کورٹ منع کرتا ہے تو میں الیکشن نہیں لڑ پاؤں گا اور مجھے اس کا کوئی غم بھی نہیں ہے۔ میں مکمل سنجیدگی کے ساتھ کانگریس کے ساتھ سیاسی زندگی کا آغاز کر رہا ہوں، ایک انتخاب سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ابھی میری عمر محض 25 سال کی ہے۔

پرینکا گاندھی کے سیاست میں آنے کا کانگریس کے حق میں کتنا اثر ہوگا؟

پرینکا جی نے گجرات کی اس سرزمین سے جو مہاتما گاندھی اور پٹیل کی زمین ہے، اس سے اپنے قومی سیاسی زندگی کا آغاز کیا، اس کے لئے میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں، گجرات کی زمین سے پرینکا جی، پنڈت نہرو، مہاتما گاندھی اور سردار پٹیل کے خوابوں کو آگے بڑھانے کا کام کریں گی ایسا میرا ماننا ہے، بی جے پی کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ پرینکا جی کے آنے سے اثر نہیں پڑے گا، تو پھر وہ بار بار پرینکا کا نام کیوں رہے ہیں، ظاہر ہے پرینکا کے نام سے ان لوگوں کو گھبراہٹ ہو رہی ہے، پرینکا گاندھی کی آندھی میں مودی جادو چھو منتر ہو جائے گا۔


بی جے پی اکثر پنڈت نہرو بمقابلہ سردار پٹیل کا ایشو اٹھاتی ہے، بی جے پی کا الزام ہے کہ پٹیل کو وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ مستحق تھے، آپ کا کیا خیال ہے؟

جب سے بی جے پی کا عروج ہوا ہے تبھی سے سردار پٹیل کی توہین کا معاملہ اٹھنے لگا ہے، میں نے اپنے باپ دادا سے کبھی نہیں سنا کہ کانگریس میں نہرو کی وجہ سے پٹیل کی توہین ہوئی یا پھر پٹیل کو مناسب جگہ نہ ملی، بی جے پی ایسی ہی پارٹی ہے جو بنا ایشو کے ایشو بناتی ہے، اگر ان کو لگے گا کہ نہرو کے نام سے ان کی سیاسی دکان چل جائے گی تو وہ نہرو کو بھی اپنا بنا لیں گے۔

ملک میں بی جے پی کے خلاف کانگریس کی قیادت میں ایک مہاگٹھ بندھن بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں، لیکن اس میں بھی رکاوٹیں آرہی ہیں جیسے یوپی میں ایس پی-بی ایس پی نے الگ راہ اختیار کر لی، آپ کی کیا رائے ہے؟

دیکھیے اس وقت ایشو ملک کو بچانے کاہے، 2019 کی لڑائی آئین بچانے کی ہے، اس وقت ساری پارٹیوں کو چاہے وہ ایس پی ہو یا بی ایس پی ہو اپنے اپنے اختلافات بھلا ایک ساتھ آ جانا چاہیے، میں یہ بات سمجھ سکتا ہوں کہ ہر پردیش کی مختلف سیاست اور ہر پارٹی کے الگ الگ فوائد ہوتے ہیں لیکن 2019 کا الیکشن اس لئے اہم ہے کہ اگر اس سال ملک غلط ہاتھوں میں چلا گیا تو پھر کبھی ملک میں انتخابات نہیں ہوں گے۔


آپ ایسا کس طرح کہہ سکتے ہیں؟

آزاد ہندوستان میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ جنتر منتر پر مودی حکومت کی ناک کے نیچے آئین کی کاپیاں جلائی گئی ہیں، امبیڈکر مردہ باد کے نعرے لگائے گئے، ایسا ہندوستان میں پہلی بار ہوا ہے کہ نوجوانوں کے روزگار مانگنے پر ان کے خلاف غداری کے مقدمے لکھے گئے ہیں، آج سی بی آئی پر سوال اٹھ رہے ہیں، آر بی آئی پر سوال اٹھ رہے ہیں، سپریم کورٹ کے جج پہلی بار عوام سے انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں، گائے کے نام پر قتل ہو رہے ہیں، بے روزگاری 45 سال کے ریکارڈ سطح تک پہنچ چکی ہے، یہ تمام واقعات اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ ملک اندر سے تبدیل ہو رہا ہے، ان ساری باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی کے لوگ ہندوستان میں منواسمرتی لاگو کرنا چاہتے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ بالاكوٹ اسٹرائیک کے بعد بی جے پی کارکنان میں کافی جوش آ گیا ہے، کیا پاکستان کے اندر ایئر اسٹرائیک کرنے کا بی جے پی کو سیاسی فائدہ ہوگا؟

دیکھیے بی جے پی کی تو فطرت ہے کہ فوج کی بہادری اور ہمت کو اپنے سیاسی فائدے کے لئے استعمال کرنا، کارگل کے دور میں بھی ایسا ہی ہوا تھا لیکن اس بار الیکشن کمیشن نے ہدایات دے دی ہے۔ الیکشن کمیشن کی ہدایات ایک طریقے سے بی جے پی کو پھٹکار ہے، بی جے پی ہی فوج کا سیاسی استعمال کر رہی ہے، ہمیں ہماری فوج پر فخر ہے لیکن مودی جی کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ وزیر اطلاعات و نشریات کی طرح کام کرنا بند کریں۔


وزیر اعظم مودی اور بی جے پی اکثر گجرات ماڈل کی بات کرتے ہیں، ایک گجراتی ہونے کے ناطے آپ اس سے کتنا اتفاق رکھتے ہیں؟

میں بالکل اتفاق نہیں رکھتا، اگر مودی اور بی جے پی کا گجرات ماڈل اتنا اچھا ہوتا تو کانگریس کے لیڈروں کو پارٹی میں شامل کرنے کے فوراً بعد وزیر بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر بی جے پی کا گجرات ماڈل اتنا ہی اچھا ہوتا تو پھر گجرات کے ایک بڑے علاقے میں خشک سالی نہیں ہوتتی، آج بھی گجرات کے 55 لاکھ نوجوان بے روزگار ہیں، اصل میں مودی جی کا گجرات ماڈل ان کی دوسری چیزوں کی طرح ہی ایک جملہ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 17 Mar 2019, 8:10 PM
/* */