فیڈرل ریزرو میں ٹرمپ کی مداخلت کو عدالت نے کیا رد، لیزا کک کا عہدہ محفوظ
امریکی اپیلیٹ کورٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو لیزا کک کو برطرف کرنے کی اجازت دینے سے انکار کیا۔ کک اب فیڈ کی پالیسی میٹنگ میں شریک ہوں گی۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی صدر نے فیڈ گورنر کو ہٹانے کی کوشش کی

واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو فیڈرل ریزرو کی گورنر لیزا کک کو برطرف کرنے کی کوشش میں بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ واشنگٹن ڈی سی کی اپیلیٹ کورٹ نے پیر کے روز اپنے فیصلے میں ٹرمپ انتظامیہ کی اپیل کو مسترد کر دیا، جس میں کک کو فوری طور پر عہدے سے ہٹانے کی اجازت مانگی گئی تھی۔ اس فیصلے کے بعد کک منگل اور بدھ کو ہونے والی فیڈرل ریزرو کی اہم پالیسی میٹنگ میں حصہ لے سکیں گی، جس میں امریکی شرحِ سود میں کمی کی توقع کی جا رہی ہے۔
یہ پہلا موقع ہے جب کسی امریکی صدر نے 1913 میں قائم ہونے والے فیڈرل ریزرو کے کسی گورنر کو برطرف کرنے کی کوشش کی ہو۔ عدالت نے 2-1 کے تناسب سے فیصلہ سنایا۔ جج برڈلی گارسیا اور جے مشیل چائلڈز، جنہیں سابق صدر جو بائیڈن نے نامزد کیا تھا، نے ٹرمپ کے خلاف فیصلہ دیا، جبکہ ٹرمپ کے مقرر کردہ جج گریگری کیٹساس نے اختلافی رائے دی۔
قانونی پہلوؤں کے اعتبار سے یہ معاملہ غیر معمولی ہے۔ فیڈرل ریزرو کے قیام کے وقت کانگریس نے واضح کیا تھا کہ گورنروں کو سیاسی اثرات سے محفوظ رکھا جائے۔ قانون کے مطابق صدر صرف ’جواز‘ بنیاد پر ہی کسی گورنر کو برطرف کر سکتے ہیں۔ تاہم اس ’جواز‘ کی تعریف اور طریقہ کار پر کبھی عدالت میں بحث نہیں ہوئی۔
ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف تھا کہ صدر کو فیڈ گورنر کو ہٹانے کا وسیع اختیار حاصل ہے اور عدالتوں کو اس میں مداخلت کا اختیار نہیں۔ دوسری جانب کک کے وکلاء نے دلیل دی کہ ان کی برطرفی فیڈ کی ساکھ کو نقصان پہنچائے گی اور عالمی و امریکی مالیاتی منڈیوں میں منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
ٹرمپ اور ان کے مقرر کردہ ولیم پلٹے نے الزام لگایا کہ کک نے رہن کے درخواست فارموں میں تین جائیدادوں سے متعلق غلط بیانات دیے تاکہ کم شرح سود اور ٹیکس کریڈٹ حاصل کیے جا سکیں۔ تاہم کک کا کہنا ہے کہ یہ الزامات ان کے منصب سنبھالنے سے پہلے کے ہیں اور اصل مقصد ان کی مالیاتی پالیسی سے اختلاف کو بنیاد بنانا ہے۔
لیزا کک فیڈرل ریزرو کی پہلی افریقی نژاد خاتون گورنر ہیں۔ وہ مئی 2022 سے اس عہدے پر کام کر رہی ہیں اور معاشی امور کی ممتاز ماہر سمجھی جاتی ہیں۔ جارجیا میں پیدا ہونے والی کک نے 1986 میں اسپیل مین کالج سے فزکس اور فلسفہ میں گریجویشن کیا۔ بعد ازاں وہ ٹرومین اسکالر اور مارشل اسکالر رہیں، آکسفورڈ یونیورسٹی سے فلسفہ، سیاست اور معیشت میں دوسری ڈگری حاصل کی اور پھر یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے سے معاشیات میں ڈاکٹریٹ مکمل کی۔
یہ قانونی جنگ اب امریکی سپریم کورٹ تک جا سکتی ہے کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اپیلیٹ کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرے گی۔ ماہرین کے مطابق یہ معاملہ امریکی عدالتی اور مالیاتی تاریخ میں ایک سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ پہلی بار کسی صدر اور فیڈرل ریزرو کے درمیان براہِ راست ٹکراؤ سامنے آیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔