کورونا سے ہلاک ہوئے افراد کو نیویارک ٹائمس کا خراج عقیدت، پہلے صفحے پر شائع کیے نام

تازہ اعدادو شمار کے مطابق دنیا کی سپر پاور امریکہ میں اس انفیکشن نے سب سے زیادہ قہر برسایا ہے۔امریکہ میں وائرس کے 16 لاکھ 66 ہزار 828 معاملے آچکے ہیں اور 98 ہزار 683 لوگوں کی جان جا چکی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

نیویارک: عام طور پر اخباروں کا پہلا صفحہ بری خبروں اور کسی کمپنی کے نئے پروڈکٹ کی اطلاع یا حکومت کی کامیابیوں وغیرہ کی تعریف کرنے والے اشتہار سے بھرا رہتا ہے لیکن عالمی وبا کووڈ- 19 کے بحران میں دنیا کے اہم اخباروں میں ایک امریکہ کے نیویارک ٹائمس نے آج پہلے صفحے پر ملک میں کورونا وائرس سے مرنے والوں کے نام شائع کیے ہوں تو اس انفیکشن کی خطرناک صورت حال سے خوف آنا لازمی ہے۔ نیویارک ٹائمس نے پہلے صفحے پر نہ تو کسی خبر کی لگائی اور نہ ہی کوئی اشتہار چھاپا بلکہ پورے صفحے کو کورونا انفیکشن سے مرنے والوں کے ناموں سے بھر دیا۔

اخبار نے جو موضوع دیا وہ بھی خوف میں مبتلا کرتا ہے، موضوع ہے ’یو ایس ڈیتھ نیئر 100,000، این ان کیلکولیبل لوس‘ (امریکہ میں مرنے والوں کی تعداد تقریباً 100,000، ناقابل تلافی نقصان)۔ اس کے بعد نیچے ہلاک شدگان کو خراج عقیدت پیش کی گئی ہے، ’’دے ور ناٹ سمپلی نیمس ان اے لسٹ، دے ور اس‘ (یہ صرف فہرست میں شامل نام نہیں، یہ ہم تھے)۔


کورونا سے ہلاک ہوئے افراد کو نیویارک ٹائمس کا خراج عقیدت، پہلے صفحے پر شائع کیے نام

تازہ اعدادو شمار کے مطابق دنیا کی سپر پاور امریکہ میں اس انفیکشن نے سب سے زیادہ قہر برسایا ہے۔امریکہ میں وائرس کے 16 لاکھ 66 ہزار 828 معاملے آچکے ہیں اور 98 ہزار 683 لوگوں کی جان جا چکی ہے۔ ملک میں 11 لاکھ 21 ہزار 231 افراد اس وائرس سے ٹھیک ہوچکے ہیں جبکہ چار لاکھ 46 ہزار 914 ابھی اس کی زد میں ہیں اور 17 ہزار 133 زندگی اور موت کے درمیان جھول رہےہیں۔ اخبار کا کہنا ہے کہ وہ ایسا کرکے کسی کو خوفزدہ نہیں کرنا چاہتا بلکہ اس کے ذریعہ ملک میں کورونا کی کیا صورت حال ہے، اس کی سنجیدگی کو سامنے رکھنا چاہتا ہے۔


اخبار نے اس کام کے لئے تعزیتی خبروں اور ہلاک شدگان کے نوٹس جمع کیے جس سے ہلاک شدگان کے نام کی فہرست بنائی گئی۔ صفحہ اول پر وائرس سے مرنے والوں کے نام کیوں شائع کیے، اس پر’’ٹائمس انسائڈر‘‘میں ایک مضمون بھی لکھا ہے۔ اصل میں اخبار کے مدیران نے اس خطرناک صورت حال کو ظاہر کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسسٹنٹ ایڈیٹر گرافکس سیمون لینڈن نے لکھا کہ وہ تعداد کو اس شکل میں سب کے سامنے لانا چاہتی تھیں، جس سے لوگوں کو یہ پتہ چلے کہ کتنی بڑی تعداد میں وائرس نے جان لے لی ہے اور یہ بھی سب کو معلوم ہو کہ کس طبقے کے لوگوں کی جان کا یہ انفیکشن دشمن بنا۔

اخبار کا کہنا ہے کہ سبھی محکمے کے صحافی اس وبا کو رپورٹ کر رہے ہیں۔ سیمون کا کہنا ہے کہ ،’’ہم جانتے تھے کہ ہم میل کا پتھر کھڑا کرنے جارہے ہیں اور یہ سمجھ تھی کہ تعداد کو رکھنے کا کوئی طریقہ ہونا چاہیے۔‘‘انہوں نے کہا کہ ایک لاکھ ڈاٹ یا اسٹک فیگر پیج پر لگانے سے آپ کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ وہ کون لوگ تھے اور وہ ہمارے لئے کیا معنی رکھتے تھے۔ ایک ریسرچر ایلن نے کووڈ-19 سے متاثرین کی تعزیتی خبر اور ڈیتھ نوٹس جمع کیے جو الگ الگ اخبارات میں شائع ہوئے تھے۔ اس کے بعد نیوز روم میں ایڈیٹروں نے صحافت سے حال میں گریجویٹ ہوئے تین طلبہ کے ساتھ بیٹھ کر کام کیا اور فہرست تیار کی۔ چیف کریئٹو افسر ٹام باڈکن نے کہا کہ جدید دور میں یہ یقینی طورپر اپنی طرح کا پہلا کام ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔