ندائے حق: جرمنی کی فوجی نشاۃ ثانیہ... اسد مرزا

’’یوکرین میں حالیہ روسی جارحیت کو مسلسل نظر انداز کرنے کے بعد، اب جرمنی نے نئے فوجی منصوبوں کا اعلان کیا ہے، جو علاقائی اور عالمی جغرافیائی سیاست کو ایک بار پھر تبدیل کر سکتا ہے۔‘‘

Getty Images
Getty Images
user

اسد مرزا

جرمن پارلیمان کے سامنے ایک تاریخی اعلان میں، جرمن چانسلر اولاف شولز نے اتوار 27 فروری کو جرمنی کی مسلح افواج کی جدید کاری کے لیے € 100bn (£85bn) کی اضافی فنڈنگ کا اعلان کیا، اس کے علاوہ انھوں نے آنے والے سالوں میں جرمنی کے دفاعی اخراجات میں مسلسل اضافہ کیے جانے کا بھی اعلان کیا۔ یہاں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جرمنی وہ ملک ہے جو کہ یوکرائن اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات میں ایک مرکزی کردار ادا کر رہا تھا اور اب اس کے اپنی فوجی طاقت بڑھانے کے تازہ ترین اعلان نے عالمی برادری کو حیران کر دیا ہے۔ کیونکہ یہ جنگ اور فوجی صلاحیت پر گزشتہ تقریباً 70 سالوں کے جرمن پالیسیوں کے مکمل طور پر برخلاف ہے۔

جرمنی روس اور یوکرین کے درمیان بھڑک اٹھے تنازعہ کے مرکز میں تھا کیونکہ روس سے جرمنی تک نارڈ اسٹریم 2 گیس پائپ لائن نے یوکرین کو نظرانداز کرتے ہوئے دونوں جانب کے جذبات کو بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ پہلے تو یہ کہ یہ یوکرین کے لیے محصولات کے نقصان کا ذمہ دار تھا اور دوسرا یہ کہ یہ مغربی اور خاص طور پر امریکی سیاسی، دفاعی اور عسکری ماہرین اور مشیروں کی راتوں کی نیند حرام کیے ہوئے تھا، کیونکہ انھیں صاف طور پر نظر آرہا تھا کہ جس طریقے سے مغربی یوروپین ممالک اور خاص طور سے جرمنی کا روسی گیس کے اوپر انحصار بڑھتا جارہا ہے اس سے آنے والے وقتوں میں ان ملکوں کے ساتھ روس کے تعلقات بہت زیادہ حد تک روس نواز ہوسکتے ہیں۔ اور اس کا خمیازہ امریکہ کو معاشی، دفاعی اور عسکری طور پر اپنے کم ہوتے ہوئے اثر و رسوخ کے طور پر سامنے آسکتا ہے۔


درحقیقت پوتن کی توسیع پسندانہ پالیسیوں نے غیر ارادی طور پر وہ کر دکھایا ہے جس کے لیے مغربی اتحادی طویل عرصے سے جدوجہد کر رہے تھے، کیونکہ وہ جنگِ عظیم دوم کے ختم ہونے کے تقریباً بیس سالوں کے بعد جرمنی سے متواتر یہ مطالبہ کرتے آرہے تھے کہ وہ اگر جنگی طور پر نہیں تو بھی خارجی و سفارتی طور پر مغربی ممالک کے ساتھ مل کر ان کی ترجیحی بنیادوں پر کام کرے۔ لیکن جرمنی جو کہ فی الوقت یوروپ کی سب سے بڑی معیشت ہے، وہ ایک ناوابستہ طریقے سے آگے بڑھتا چلا جا رہا تھا اور اپنی فوجی صلاحیت میں بھی کوئی اضافہ نہیں کر رہا تھا۔

نئے جرمن منصوبے

جرمن چانسلر اولاف شولز کا جرمنی کے رکن پارلیمان نے ان کی تقریر کے بعد کھڑے ہو کر تالیاں بجاتے ہوئے ان کے اعلانات کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے اتوار کو یوکرین پر روسی حملے کے بعد جرمنی کے فوجی اخراجات میں ڈرامائی اضافے کا اعلان کیا۔ اس تقریر کو ایک تاریخی تقریر کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے کیونکہ یہ جرمن خارجہ اور دفاعی پالیسی میں ایک نمایاں تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔Scholz نے کہا کہ جرمنی اب سے اپنے دفاع پر اپنی اقتصادی پیداوار کا 2 فی صد سے زیادہ خرچ کرے گا جو کہ اس وقت تقریباً 1.5 فی صد ہے۔ برسوں سے نیٹو اتحادیوں کی جانب سے ایسا کرنے کی درخواستوں کو مسترد کرنے کے بعد اب 100 بلین یورو ($112 بلین) کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ اور اس نئے فنڈ کو فوج کی جدید کاری کے لیے استعمال کیا جائے گا۔


مزید اہم بات یہ ہے کہ امریکی خواہشات کے مطابق، جرمنی نے اپنی گیس کی ضروریات کے لیے روس پر انحصار کم کرنے کے منصوبوں کا خاکہ بھی پیش کیا ہے، اس طرح یہ امیدیں بڑھ رہی ہیں کہ اب برلن اپنے تمام تجارتی تعلقات میں بھی جیو اسٹریٹجک خدشات پر زیادہ غور کرنے کے بعد تجارتی فیصلے کرے گا۔ شولز نے موجودہ تنازعہ کو ’’پوتن کی جنگ‘‘ کے طور پر بیان کیا اور مزید کہا کہ ’’ضرورت اس بات کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ کوششیں سفارت کاری کے ذریعے کی جائیں۔‘‘ انہوں نے یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ مستقبل میں برلن اپنے مشرقی نیٹو کے پڑوسیوں کی حمایت کرے گا اور بغیر کسی حیل و حجت کے اتحاد کی ذمہ داریوں پر قائم رہے گا اور انھیں پورا کرے گا۔‘‘

جرمن فوج کی نشاۃ ثانیہ

جرمنی کے تازہ ترین اقدامات کو جرمن فوجی نشاۃ ثانیہ سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے کیونکہ اسے کئی دہائیوں سے یورپ کی سب سے بڑی معیشت کے طور پر اپنے حجم کے مطابق عالمی سطح پر زیادہ غالب کردار ادا کرنے کے مطالبات کا سامنا تھا۔ لیکن موجودہ صورتِ حال کے پیشِ نظر جرمن سیاست دانوں کو اپنی پرانی پالیسیوں کا جائزہ لینا پڑا اور یوکرینی بحران کی شروعات کے بعد ان کی نظرثانی کی گئی، اور ساتھ ہی ان خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی گئی جو اس کے مغربی اتحادی خصوصی طور پر امریکہ کے دفاعی ماہرین کے مطالبات میں شامل تھے۔ اور جن کے بقول موجودہ جرمنی نیٹو اتحاد کی سب سے کمزور کڑی ثابت ہو رہا تھا۔


اس تنازعے کی شروعات میں جرمنی تذبذب کا شکار تھا اور وہ روس کے خلاف کسی بھی اقدام کے حق میں نہیں تھا۔ کیونکہ اس کا منفی اثر جرمن معیشت پر رونما ہوسکتا تھا۔ نارڈ اسٹریم 2 بالٹک پائپ لائن روس سے جرمنی تک مغربی اتحادیوں کے ان خدشات کے باوجود کہ اس سے روایتی ٹرانزٹ ملک یوکرین کی سلامتی کو نقصان پہنچے گا اس کی حمایت متواتر جرمن حکومتوں نے کی۔ ابھی حال ہی میں، اس نے مغربی پابندیوں کے پیکج کے حصے کے طور پر روس کو SWIFT عالمی ادائیگیوں کے نظام کو ختم کرنے کے مطالبات کی مزاحمت کی، یہ کہتے ہوئے کہ وہ روسی گیس کی ادائیگی کس طرح کرے گا۔

تاہم، اچانک اپنا رخ بدلتے ہوئے جرمن چانسلر شولز نے 22 فروری کو Nord Stream 2 کے معاہدے کو معطل کر دیا اور 26 فروری کو روس کو SWIFT سے الگ کرنے پر اپنی رضامندی ظاہر کی اور کہا کہ مستقبل میں جرمنی اپنے کوئلے اور گیس کے ذخائر کو مزید قوی بنائے گا اور طویل عرصے سے تعطل کا شکار ان منصوبوں کو تیز کرنے کی کوشش کرے گا جس سے کہ جرمنی اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرسکے۔ ماضی میں جرمنی کے فوجی جرنیلوں نے طویل عرصے سے مزید سازوسامان کے لیے کئی مرتبہ درخواستیں کی تھیں اور موجودہ آرمی چیف نے 24 فروری کو روس کے یوکرین پر حملہ کرنے کے چند گھنٹے بعد LinkedIn پر فوجی تیاریوں کو طویل عرصے سے نظر انداز کرنے پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔


سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جرمن افواج میں بڑی حد تک تخفیف کی گئی تھی۔ جنگی ٹینکوں کی تعداد 1980 کی دہائی میں 3,500 سے کم ہو کر 2015 میں صرف 225 رہ گئی تھی۔ ساتھ ہی جرمن افواج کو بنیادی طور پر خصوصی مشنز کے لیے تربیت دی جا رہی تھی نہ کہ دست بدست لڑائی لڑنے کی۔ جیسا کہ حال ہی میں افغانستان میں جہاں مخالف کمزور تھا اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس مسلح فورس ان کے خلاف لام بند تھی۔ شولز نے یہ بھی کہا کہ اضافی فنڈز جرمنی کو نیٹو اتحاد میں ’’مناسب‘‘ کردار ادا کرنے کے ساتھ ایک ’’قابل اعتماد پارٹنر‘‘ کے طور پر قائم ہونے میں بھی مدد کریں گے۔ صرف انتہائی دائیں بازو کی جماعت für Deutschland Alliance(AfD) نے شولز پر حملہ کیا، پارٹی کے رہنما ٹینو کروپالا نے شولز سے کہا: ’’افسوس کی بات ہے کہ آپ نے اپنی تقریر کے ذریعے سرد جنگ کو دوبارہ متحرک کر دیا ہے۔‘‘

مجموعی طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ تنازعہ کی جڑیں معاشی ہونے کے ساتھ ساتھ امریکی اثر و رسوخ کو فروغ دینے اور عالمی طور پر اس کی بالا دستی ثابت کرنا بھی ہے۔ امریکہ کبھی یہ نہیں تسلیم کرسکتا کہ کسی بھی طریقے سے روس اس سے آگے رہے یا کوئی بھی ملک زیادہ عرصے تک روس نواز بن کر آگے چلتے رہے۔ وہ یا تو وہاں پر ایسے حالات پیدا کر دے گا جس سے کہ اس کے مقاصد حاصل ہوسکیں اور بالا دستی میں کوئی کمی نہ آسکے۔ جیسا کہ ایک مبصر کا کہنا ہے کہ حالیہ حالات نے ثابت کر دیا ہے کہ اس تنازعے کے ذریعے امریکہ ایک تیر سے دو شکار حاصل کرنے میں کامیاب رہے گا۔ اول تو روس کو علاقائی اور عالمی طور پر شکست دینا اور دوم جرمنی کو ایک نئی عالمی فوجی طاقت بنا کر پیش کرنا جیسا کہ وہ ماضی میں تھا۔ اور اس کے ذریعے اپنی استعماری پالیسیوں کو فروغ دینا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔