یورپ میں مہاجر بچوں کی بڑھتی گمشدگی

گزشتہ 2 سالوں میں یورپ میں 5000 سے زیادہ تارکین وطن یا مہاجر بچے لاپتہ ہوئے۔ کچھ نابالغ انسانی اسمگلنگ اور غلامی کا شکار ہوئے۔ لاپتہ ہونے والے 3 میں سے ایک نابالغ بچے کی پیدائش کا ملک افغانستان تھا

<div class="paragraphs"><p>Getty Images</p></div>

Getty Images

user

مدیحہ فصیح

لوسٹ ان یورپ (یورپ میں گمشدہ) کراس بارڈر جرنلزم (سرحد پار صحافت) کا ایک غیر منافع بخش منصوبہ ہے جو یورپ میں تارکین وطن بچوں کی گمشدگی کی تحقیقات کرتا ہے۔ لوسٹ ان یورپ کی نئی تحقیق کے مطابق، اپنا وطن چھوڑنے اور یورپ میں آمد کے بعد ہر روز تقریباً 47 بچے لاپتہ ہو جاتے ہیں اور پچھلے 3 سالوں میں 50000 سے زائد بچے لاپتہ ہو چکے ہیں۔ آسٹریا، جرمنی اور اٹلی سمیت 31 یورپی ممالک سے حاصل شدہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2021 سے 2023 کے آخر تک کم از کم 51433 بے سہارا پناہ گزین نابالغوں کو لاپتہ کے طور پر رجسٹر کیا گیا۔ بچوں کی اصل تعداد زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ کچھ ممالک ایسے بچوں کے بارے میں بالکل بھی ڈیٹا اکٹھا نہیں کر رہے ہیں۔ یہ تحقیق 2021 میں جاری کردہ نتائج پر مبنی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جنوری 2018 سے دسمبر 2020 تک کے تین سالوں میں کم از کم 18000 بچے یورپ پہنچنے کے بعد غائب ہو گئے۔

براعظم یورپ کی تنظیموں کی ایک فیڈریشن، مسنگ چلڈرن یورپ کے سکریٹری جنرل آگجے ائیون کے مطابق تحقیق کے ذریعے سامنے آنے والے رپورٹ شدہ کیسوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ان بہت سے واقعات کی جانب اشارہ کرتی ہے جن کا ابھی پردہ فاش ہونا باقی ہے۔ رابطہ کیے گئے 31 ممالک میں سے، 'لوسٹ ان یورپ' کو 20 ممالک سے جوابات موصول ہوئے، جن میں سات میں مطلوبہ ڈیٹا کی کمی تھی اورباقی 11 ممالک نے جواب نہیں دیا – اٹلی اور سلوواکیہ ان ممالک میں شامل تھے لیکن لوسٹ ان یورپ ان دو ممالک کا ڈیٹا تلاش کرنے میں کامیاب رہی۔


لاپتہ نابالغ بچوں کی رجسٹریشن میں اٹلی اور آسٹریا بالترتیب 22,899 اور 20,077 کیسز کے ساتھ سرفہرست ہیں۔ ان کے بعد بیلجیم، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ کا نمبر آتا ہے جہاں تقریباً 2,200 اور 1,200 کے درمیان کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ ائیون کے مطابق اٹلی اور آسٹریا میں زیادہ تعداد ضروری طور پر زیادہ کیسز کی نشاندہی نہیں کرتی،بلکہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہاں ڈیٹا اکٹھا کرنے کے زیادہ موثر نظام موجود ہیں ۔ انہوں نے سی این این کو بتایا کہ تمام ممالک کو زیادہ مستعدی سے کیسز رپورٹ کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اگر بچے سسٹم میں درج ہوں گے تو ان کی بہتر حفاظت کی جا سکتی ہے۔

ائیون کے مطابق لاپتہ مہاجر بچوں کی قسمت تشویشناک ہے۔ انہیں اسمگلروں کی طرف سے نشانہ بنائے جانے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے، اگر اسمگلروں نے قرض کے عوض پہلے ہی ان کا استحصال نہیں کیا ہو، یا ان کے پیاروں یاخود ان کے اپنے پاسپورٹ اسمگلروں کے قبضہ میں ہوں ۔ علاوہ ازیں مہاجر بچوں کی گمشدگی میں متعدد عوامل کارفرما ہیں۔ ایسے خدشات ہیں کہ شاید کچھ انسانی اسمگلروں کا شکار ہو گئے ہوں یا جنسی صنعت میں استحصال کا نشانہ بن گئے۔ دوسری صورت میں بچے رضاکارانہ طور پر غائب ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ حکام پر بھروسہ نہیں کرتے ۔ بہت سے رجسٹر کیے بغیر رشتہ داروں یا دوستوں کے ساتھ دوسرے ممالک چلے جاتے ہیں۔ ائیون نے نشاندہی کی کہ نابالغوں کے لیے مواقع کی کمی انہیں استحصال کا شکار بناتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ یورپ پہنچنے سے پہلے وہ بے شمار صدمات برداشت کرتے ہیں۔ 2022 کی گینٹ یونیورسٹی کے ایک مطالعے سے پتا چلا ہے کہ 84 فیصد بچوں نے یورپ کی طرف ہجرت کے دوران جسمانی تشدد کا سامنا کیا ۔ اقوام متحدہ کے مطابق، دنیا کے بے گھر ہونے والوں میں سے تقریباً 40 فیصد بچے ہیں۔ جنگوں اور تنازعات سے بھاگتے ہوئے، ہزاروں بچے اپنے آپ کو اپنے خاندانوں اور رشتہ داروں سے الگ پاتے ہیں، جبکہ دوسرے تنہا سفر کرتے ہیں جنہیں ان کے والدین اپنی بقا کو یقینی بنانے کے لیے بیرون ملک بھیجتے ہیں۔


سال2021 اور 2023 کے درمیان یورپ میں لاپتہ ہونے والے تین میں سے کم از کم ایک نابالغ بچےکی پیدائش کا ملک افغانستان تھا۔ اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد یورپ پہنچنے والے افغان بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ لوسٹ ان یورپ کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق دیگر اہم ممالک میں شام، تیونس، مصر اور مراکش شامل ہیں۔ بچوں کے حقوق کی تنظیم ECPAT UK کی چیف ایگزیکٹیو پیٹریشیا ڈور نے زور دیا کہ یہ صورت حال بچوں کے تحفظ کے بحران کی نشاندہی کرتی ہے، جو کہ سزا دینے والی سرحدی پالیسیوں اور یورپ میں رکن ممالک کے درمیان محفوظ اور قانونی راستوں کی کمی کی وجہ سے بڑھ گیاہے۔ جیسا کہ یورپی یونین کے فنڈ سے چلنے والے یورپی مائیگریشن نیٹ ورک کی 2020 کی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے، زیادہ تر یورپی یونین کے رکن ممالک 24 گھنٹوں کے اندر گمشدہ بچوں کی رپورٹ اور رجسٹر کرنے کے پابندہیں، لیکن یہ ضرورت اکثر پوری نہیں ہوتی۔

پیٹریسیا ڈور نے یورپی یونین کے نئے ’پیکٹ آن مائیگریشن اینڈ اسائلم‘، جسے یورپی پارلیمنٹ نے اپریل 2024 میں منظور کیا تھا، کے اثرات کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا جو ایسے بچوں پر پڑیں گے۔ انہوں نے کہا، اسکریننگ کے مقاصد کے لیے زیر حراست بچوں کو شامل کرنے جیسے اقدامات بین الاقوامی قانون کے تحت ان کے حقوق کی واضح خلاف ورزی ہیں اور ان کے لاپتہ ہونے، بدسلوکی اور اسمگلنگ کے خطرے میں اضافہ کریں گے۔ ائیون کے مطابق، مہاجر بچوں کی رجسٹریشن اور ان کے حقوق کو تسلیم کرنا، بشمول تعلیم تک رسائی، ان کی حفاظت کے لیے بہت ضروری ہے۔ جو چیز انہیں محفوظ رکھے گی وہ یہ سمجھنا ہے کہ ان کا مستقبل نظام کے اندر ہے اس سے باہر نہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔