اوپن ہائیمر: جاپانی فلم بینوں کا جذباتی ردعمل

فلم کا مقصد ایٹم بم کی تیاری یا اس کا استعمال نہیں، بلکہ اوپین ہائیمر کے اندر جاری نفسیاتی کشمکش کو ظاہر کرنا ہے کیونکہ وہ ایٹم بم تیار کرنے کے انتہائی خفیہ پروگرام کی رہنمائی کر رہے تھے

<div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div>

تصویر سوشل میڈیا

user

مدیحہ فصیح

اوپن ہائیمر کا آخر کار 29 مارچ کو جاپان میں پریمیئر ہوا،بین الاقو امی ریلیز کے آٹھ ماہ بعد، اس خدشات کے ساتھ کہ اس کے جوہری تھیم کو ایٹم بم حملوں کا شکار ہونے والے دنیا کےواحد ملک میں کیسا ردعمل سامنے آئے گا۔ امریکہ کےجوہری دھماکوں نے دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر جاپان کے دو شہروں ـ ہیروشیما اور ناگاساکی کو تباہ کر دیا تھا، جس میں 2 لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔ موضوع کی حساسیت کی وجہ سے جاپان میں فلم کی ریلیز کولے کر ڈسٹری بیوٹرگھبراہٹ کا شکار تھے۔ جوہری ہتھیاروں کی ایجاد کرنے والے امریکی سائنسدان کی زندگی پر مبنی اس فلم کو جاپانی فلم بینوں کی جانب سے ملا جلا اور انتہائی جذباتی ردعمل ملا۔

کرسٹوفر نولان کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم نے اس سال سات آسکر ایوارڈز جیتے ہیں۔ یہ فلم امریکی طبیعیات دان جے رابرٹ اوپن ہائیمر کے بارے میں ہے، جو ایٹم بم تیار کرنے کے ایک انتہائی خفیہ پروگرام ’مین ہٹن پروجیکٹ ‘کے سربراہ تھے۔ یہ فلم تیزی سے ایک عالمی ہٹ بن گئی اور اس نے تقریباً ایک ارب ڈالر کمائے۔ لیکن ہالی ووڈ فلموں کی ایک بڑی مارکیٹ ہونے کے باوجود اس فلم کوجاپان میں اب تک ریلیز نہیں کیا گیا تھا۔ جاپان میں فلم کی نمائش میں تاخیر اس وجہ سے بھی ہوئی کیونکہ گزشتہ جولائی میں دنیا بھر میں نمائش 6 اور 9 اگست 1945 کو ہیروشیما اور ناگاساکی میں ہونے والے ایٹم بم دھماکوں کی برسی سے چند ہفتے قبل تھی۔ فلم کو بالآخر ایک جاپانی ڈسٹری بیوٹر نے آسکر ایوارڈز کی تقریب کے بعد29 مارچ کو ریلیز کر دیا ۔ اوپن ہائیمر جاپان میں باکس آفس پر چوتھے نمبر پر رہی، ریلیز کے بعد پہلے تین دنوں میں فلم نے 38 لاکھ ین یا 25 لاکھ ڈالر کمائے۔

جاپان میں ناظرین کی مختلف آرا سامنے آئیں جس میں ایک نمایاں رائے یہ ہے کہ فلم نے اوپین ہائیمرکی شخصیت پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کی ہے اور جاپانی نقطہ نظر پر نہیں ہے جو فلم سے مکمل طور پر غائب ہے۔ ناقدین کے مطابق، ابتدا سے ہی فلم کا مقصد ایٹم بم کی تیاری یا اس کا استعمال نہیں، بلکہ اوپین ہائیمر کے اندر جاری نفسیاتی کشمکش کا تھا کیونکہ وہ ’مین ہٹن پروجیکٹ‘ کی رہنمائی کرر ہے تھے۔ فلم اس بات کی عکاسی نہیں کرتی کہ زمین پر کیا ہوا جب ہیروشیما اور ناگاساکی پر بم گرائے گئے، اس کے بجائے فلم ایک شخص کے طور پر اوپین ہائیمر اور اس کے اندرونی تنازعات پر مرکوز ہے۔ تاہم، جاپانی عوام کا جزوی طور پر منفی ردعمل مکمل طور پر قابل فہم ہے، اورفلم کسی شدیدردعمل کے بغیر آسانی سے ریلیز ہوئی ہے۔

جاپان ٹائمز کے مطابق ،ٹوکیو کے شنجوکو ضلع میں فلم کی ریلیز زیادہ شاندارطریقہ سے نہیں ہوئی۔ جب اسے پہلی بار امریکہ میں ریلیز کیا گیا تو بڑے شہروں میں بل بورڈز دیکھے گئےتھے، لیکن جاپان میں ریلیز سے قبل ایسی کوئی دھوم دھام نہیں تھی۔ فلم کے ہدایت کار نولان کے ایک پرستار، 47 سالہ کینٹا انوبے نے کہا کہ فلم کی پیچیدگی کی وجہ سے، وہ سوچتے ہیں کہ کیا نولان کے ارادوں کو پوری طرح سے سمجھا جائے گا، خاص طور پر ایک ایسے ملک میں جو براہ راست متاثرہوا۔ انہوں نے پوچھا کیا اس فلم میں بم گرائے جانے کے بعد جو کچھ ہوا اسے شامل کیا جا سکتا تھا۔

لیکن ایٹم بم دھماکوں سے بچ جانے والوں کے لیے، جنہیں ’ہیباکوشا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، اس فلم نے ان کے جذبات اور ماضی کی یادکو تازہ کر دیا۔ 91 سالہ ترومی تاناکا کی عمر 13 سال تھی جب ناگاساکی پر بم گرایا گیا۔ انہوں نے اپنی کہانی سنائی اور اپنا تجربہ نوجوان نسل تک پہنچایاہے۔ انہیں یاد ہے کہ جب بم پھٹا تو وہ ایک چمکدار سفید روشنی کی لپیٹ میں آ گئے تھے، جو پھر نیلے، نارنجی اور کرمسن میں تبدیل ہو گئی۔ انہیں یہ بھی یاد کیا کہ کس طرح انہوں نے اپنی خالہ کی ہڈیوں کو دیکھا اور آخری رسوم ادا کئے جب کہ ان کی ماں خاموش کھڑی رہیں۔

تاناکا کے مطابق یہ فلم لوگوں کو یہ سمجھنے میں مدد دے گی کہ جوہری ہتھیار رکھنے کا کیا مطلب ہے۔ ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو گئے ہیں جہاں لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ حقیقت میں یہ ہتھیار کس طرح لوگوں کو متاثر کر سکتے ہیں، کیونکہ اس بات کو تقریباً 80 سال ہو چکے ہیں۔ جوہری ہتھیار انسانیت کی تباہی کا باعث بن سکتے ہیں لیکن کافی لوگ نہیں سمجھتے آج کی سیاست میں جوہری ہتھیار کیا کردار ادا کرتے ہیں۔دوسری جانب 79 سالہ کونیہیکو ساکوما نے کہا کہ فلم میں بم گرائے جانے کے بعد جو کچھ ہوا اسے شامل نہیں کیا گیا، تاہم یہ ان لوگوں کے لیے سیکھنے کا موقع ہو سکتا ہے جو صرف سطحی معلومات رکھتے ہیں کہ کیا ہوا۔ جب ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا گیا تو ساکوما کی عمر صرف 9 ماہ تھی۔ وہ اور ان کی ماں ایک پناہ گاہ کی طرف بھاگتے ہوئے ایٹمی تابکاری میں پھنس گئے تھے۔

توشیوکی میماکی ہیروشیما پر بمباری سے بچ گئے تھے۔اس وقت وہ 3 سال کے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جے رابرٹ اوپین ہائیمر کی کہانی نے انہیں متوجہ کیا ہے۔ اب وہ بم متاثرین کے ایک گروپ کے چیئرپرسن ہیں جسے ’جاپان کنفیڈریشن آف اے- اور ایچ-بم سفررز آرگنائزیشن‘ کہا جاتا ہے۔ انہوں نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ فلم دیکھتے ہوئے وہ انتظار کرتے رہے کہ اب ہیروشیما بمباری کا منظر آئےگا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ہیروشیما کے سابق میئر تاکاشی ہیراوکا اس بات کی زیادہ تنقید کرتے ہیں جو فلم میں نہیں دکھایا گیا ۔ انہوں نے جاپانی میڈیا کو بتایا کہ جوہری ہتھیاروں کی ہولناکی کو خاطر خواہ طور پر پیش نہیں کیا گیا۔ یہ فلم اس نتیجے کی توثیق کے لیے بنائی گئی ہے کہ ایٹم بم امریکیوں کی جان بچانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔

امریکی سیاست میں مہارت رکھنے والے صوفیہ یونیورسٹی کے پروفیسر کازوہیرو میشیما نے اس فلم کو ’امریکی ضمیر‘ کا اظہار قرار دیا۔ جو لوگ جنگ مخالف فلم کی توقع رکھتے ہیں وہ مایوس ہو سکتے ہیں۔ لیکن ہالی ووڈ کی فلم میں اوپن ہائیمر کی کہانی دکھانا کئی دہائیوں پہلے ناقابل تصور تھا، تب جوہری ہتھیاروں کا جواز امریکی جذبات پر حاوی تھا۔ فلم میں ایک ایسا امریکہ دکھایا گیا ہے جو ڈرامائی طور پر بدل گیا ہے۔ دیگر افراد نے مشورہ دیا کہ اس فلم پر جاپانی ردعمل کے لیے دنیا تیارر ہے۔ ’گوڈزیلا مائنس ون‘ کے ڈائریکٹر تاکاشی یامازاکی، جنہوں نے ویژول ایفیکٹس کے لیے آسکر ایوارڈ جیتا ہے اورجو جوہری تباہی پر اپنے طریقے سے ایک طاقتور بیان ہے، نے تجویز پیش کی کہ وہ یہ کام سرانجام دےسکتے ہیں۔ اوپن ہائیمر کے ڈائریکٹر کرسٹوفر نولان کے ساتھ ایک آن لائن مکالمے میں، یامازاکی نے کہا کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ جاپان سے اوپن ہائیمر فلم کو جواب دینے کی ضرورت ہےاور کسی دن وہ ایسی فلم بنانا چاہیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔