افغانستان: زچہ و بچہ وارڈ پر حملہ میں ہلاکتوں کی تعداد 24 ہوئی

ننگرہار میں ہوئے خود کش حملہ کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے لیکن تاحل یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ دشت برچی اسپتال میں ہونے والے حملہ میں کس کا ہاتھ ہے۔ طالبان نے اس حملہ میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

کابل: افغانستان کے دارالحکومت کابل کے زچہ و بچہ اسپتال پر ہونے والے حملے میں جان بحق ہونے والے افراد کی تعداد بڑھ کر 24 ہو گئی ہے۔ وزارت صحت کے مطابق جان گنوانے والوں میں زچگی کے لئے آنے والی خواتین، نوزائدہ بچے اور وہ نرسیں شامل ہیں جو دیکھ بھال کے لئے وہاں موجود تھیں۔

اس حملے کے نتیجہ میں کم از کم 16 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ یہ حملہ منگل کے روز کیا گیا تھا، تاہم ابھی تک کسی انتہا پسند تنظیم نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ اس حملہ کی چہار سو سے سخت الفاظ میں مذمت کی جا رہی ہے۔ وہیں، منگل کے ہی روز افغانستان کے ہی ننگرہار میں پولیس کمانڈر کے جنازے پر خود کش حملے کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں 32 افراد ہلاک ہوئے تھے۔


ننگرہار میں ہونے والے خود کش حملہ کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے لیکن تاحل یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ کابل میں دشت برچی اسپتال میں ہونے والے حملہ میں کس کا ہاتھ ہے۔ طالبان نے اس حملہ میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اسپتال میں ہوئے حملہ کے بعد 19 بچوں کو شہر کے ایک دوسرے اسپتال میں لے جایا گیا ہے لیکن بہت سی ماؤں کو خدشہ ہے کہ ان کے بچوں کی موت ہو چکی ہے۔ اطلاعات کے مطابق منگل کے روز الگ الگ ہونے والے حملوں میں کم از کم 100 افراد کی موت ہوئی ہے۔ یہ حملے جہاں قیام امن کی کوششوں کی کمزوری ظاہر کرتے ہیں ساتھ ہی دہائیوں سے ہو رہی قتل و غارت گری کے ختم ہونے کی امید کو بھی زک پہنچاتے ہیں۔


واضح رہے کہ امریکہ اور طالبان کے مابین فروری کے مہینے میں ایک تفصیلی امن معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے۔ اس کے بعد حکومت افغانستان اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلہ پر اتفاق نہیں ہو پایا اور تبھی سے تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ امن معاہدے نے یہ امید جگائی تھی کہ 18 سال سے افغانستان میں چل رہا خونیں تصادم ختم ہو جائے گا۔ تشدد میں تقریباً 10 ہزار لوگ اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ ہلاک شدگان میں بیشتر عام شہری شامل ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے ہیں اور سینکڑوں افراد کو اپنا گھر بار چھوڑ کر ملک بدر ہونا پڑا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 14 May 2020, 4:40 PM