کورونا ویکسین: بہت مشکل ہے ڈگر پنگھٹ کی

عالمی صحت ادارہ کئی بار کہہ چکا ہے کہ بغیر اثردار ویکسین یا دوا کے کورونا وائرس پر قابو پانا مشکل ہے۔ اقوام متحدہ کا بھی کہنا ہے کہ زندگی معمول پر لوٹنے کے لیے ویکسین ہی واحد متبادل ہے۔

کورونا ویکسین
کورونا ویکسین
user

قومی آوازبیورو

مہلک کورونا وائرس نے گزشتہ چھ مہینوں میں پوری دنیا میں تباہی مچا رکھی ہے۔ اس وبا کی زد میں اب تک تقریباً 1.31 کروڑ لوگ آ چکے ہیں جب کہ تقریباً پونے چھ لاکھ لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ اس وقت سبھی کی نگاہیں کورونا کی ویکسین پر مرکوز ہیں کہ جلد کورونا کا ویکسین سامنے آئے تاکہ اس وبا سے چھٹکارا مل سکے۔ لیکن اب تک اس وبا کی روک تھام کے لیے ویکسین نہیں بن پائی ہے۔

فی الحال دنیا بھر میں 120 جگہوں پر کورونا کا ویکسین بنانے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ کچھ ممالک نے تو ویکسین کا انسانوں پر تجربہ بھی شروع کر دیا ہے اور کچھ نے تو ویکسین تیار کر لینے کا دعویٰ بھی کر دیا ہے۔ روس کی سیچینوو یونیورسٹی نے دنیا کا پہلا کورونا ویکسین تیار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس کے مطابق اس ویکسین کے سبھی تجربات کامیاب رہے ہیں اور اس سال کے وسط اگست تک دنیا بھر کے لوگوں کے لیے ویکسین بازار میں دستیاب ہو سکتا ہے۔ لیکن غور کرنے والی بات یہ ہے کہ کورونا ویکسین کی ڈگر کیا اتنی آسان ہے؟


دراصل کسی بھی ویکسین کے ہیومن ٹیسٹ اور بازار میں آنے کے دوران کا وقفہ کافی طویل ہوتا ہے۔ لیکن روس نے جس طرح کا دعویٰ کیا ہے اس سے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے وہ پہلے سے ہی تیاریاں کر رہا تھا اور اب ہیومن ٹیسٹ میں کورونا ویکسین کے کامیاب ہونے کے بعد جلد بازار میں لے آئے گا۔ لیکن کسی بھی طرح کے دعویٰ پر یقین کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ ویکسین مریضوں پر کتنا اثر کرتا ہے، یہ بات تبھی پتہ چل سکے گی جب ویکسین کا استعمال شروع ہو جائے۔

اس درمیان ہندوستان کے حیدر آباد واقع بھارت بایوٹیک نے بھی ویکسین تیار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ حالانکہ ابھی اس کے ہیومن ٹیسٹ کا عمل مکمل نہیں ہوا ہے۔ بھارت بایوٹیک کے علاوہ مزید کچھ ہندوستانی کمپنیوں نے بھی کورونا ویکسین تیار کر لینے کی بات کہی ہے۔ ان ہندوستانی فارما کمپنیوں میں جیڈیس کیڈلا، پنسیا بایوٹیک اور سیرم انسٹی ٹیوٹ شامل ہیں۔ ان سبھی ہندوستانی فارما کمپنیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کا تجربہ کامیاب رہا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ اور بھارت بایو ٹیک مل کر اس سال 15 اگست کو کووڈ-19 کا ویکسین لانچ کریں گے۔


جہاں تک ماہرین صحت کی بات ہے، تو وہ ویکسین کے بازار میں آنے کے تعلق سے کچھ سوال اٹھا رہے ہیں۔ ان کا سوال ہے کہ ویکسین تیار کرنے کے لیے جتنی مدت کی ضرورت ہوتی ہے اور جن عمل سے گزرنا ہوتا ہے، کیا ان پر عمل کیا گیا ہے۔ دراصل ویکسین بنانے کا عمل کئی مراحل سے ہو کر گزرتا ہے اور ہر مرحلہ میں ویکسین کے کامیاب ہونے کی شرح سب سے زیادہ رہتی ہے۔ ابھی تک کا سب سے جلدی تیار کیا گیا ویکسین 4 سال میں بنا ہے۔ زیادہ تر ویکسین کو بازار تک پہنچنے میں 5 سے 15 سال تک کا وقت لگ جاتا ہے۔ ایسے میں کورونا ویکسین کے جلد آنے کی امید کرنا بے معنی معلوم ہوتی ہے۔

حالانکہ عالمی ادارہ صحت کئی بار کہہ چکا ہے کہ بغیر اثردار ویکسین یا دوا کے کورونا وائرس پر قابو پانا مشکل ہے۔ اقوام متحدہ کا بھی کہنا ہے کہ معمول کی زندگی میں لوٹنے کے لیے ویکسین ہی واحد متبادل ہے۔ اس کے لیے دنیا کو ویکسین بنانے میں ساتھ آنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی اس کی فنڈنگ کے لیے بھی متحد ہونے کی ضرورت ہے۔


خیر، کووڈ-19 ویکسین کو تیار کرنے کے لیے سبھی قابل ممالک کے ذریعہ ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے، لیکن اب بھی اس سمت میں کافی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا اس لیے کیونکہ ویکسین تیار ہونے کے بعد سب سے پہلا کام ہوگا یہ پتہ لگانا کہ وہ ویکسین کتنا کارگر اور محفوظ ہے۔ ایسا نہ ہو کہ انسان پر کسی طرح کا غلط اثر پڑ جائے۔ لیکن امید کرتے ہیں کہ ویکسین پوری طرح کامیاب رہے اور جلد سے جلد لوگوں کو کورونا کے خوف سے نجات دلائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 15 Jul 2020, 2:11 PM
/* */