قومی غذائی ہفتہ: نومولود بچوں کی نگہداشت میں ماں کے دودھ، وٹامن ڈی اور غذائی قلت پر اہم رہنما اصول

قومی غذائی ہفتہ کے موقع پر ڈاکٹر راکیش نے نومولود بچوں کی نگہداشت پر زور دیا۔ انہوں نے ماں کے دودھ کی اہمیت، وٹامن ڈی و آئرن کی کمی کے نقصانات اور غذائی قلت بکے ابتدائی اشاروں پر روشنی ڈالی

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر / آئی اے این ایس</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: قومی غذائی ہفتہ (1 سے 7 ستمبر) کے موقع پر نومولود اور بچوں کی صحت کے حوالے سے ماہرین مسلسل آگاہی پھیلا رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں دہلی ایمس کے سابق ریزیڈنٹ اور ماہر اطفال ڈاکٹر راکیش نے نومولود بچوں کی نگہداشت اور ان کی غذا سے متعلق اہم نکات بیان کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بچے کی پیدائش کے ساتھ والدین پر ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں، لہٰذا ابتدا ہی سے صحیح دیکھ بھال بے حد ضروری ہے۔

ڈاکٹر راکیش نے واضح کیا کہ زندگی کے پہلے چھ ماہ تک نومولود کو صرف اور صرف ماں کا دودھ پلانا چاہیے۔ اس عرصے میں پانی، شہد یا کوئی اور مشروب دینا بچے کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کے مطابق چھ ماہ کے بعد بچے کو آہستہ آہستہ دال کا پانی اور دیگر ہلکی غذائیں دینا ممکن ہے، لیکن بنیادی غذا ماں کا دودھ ہی رہنا چاہیے۔

انہوں نے بچوں میں وٹامن ڈی اور آئرن کی کمی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پیدائش سے ایک سال کی عمر تک وٹامن ڈی کی باقاعدہ خوراک ضروری ہے۔ بصورتِ دیگر بچوں میں ہڈیوں کا ٹیڑھاپن، رات کے وقت پیٹ درد یا جسمانی نشوونما میں رکاوٹ جیسے مسائل سامنے آ سکتے ہیں۔ آئرن کی کمی کے اثرات میں بچوں کا چڑچڑا پن، بھوک کی کمی اور جسمانی ترقی میں سست روی شامل ہیں۔


غذائی قلت ب کے ابتدائی آثار پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر راکیش نے کہا کہ بچے کی لمبائی اور وزن کی باقاعدہ جانچ ہونی چاہیے۔ اگر وزن یا قد میں اضافہ نہ ہو، بچہ کمزور لگے یا اس میں چڑچڑاپن اور بھوک کی کمی دکھائی دے تو یہ غذائی قلت ب کی علامت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بعض اوقات دل یا پھیپھڑوں کی پیدائشی بیماریوں میں بھی ایسے ہی علامات ظاہر ہوتے ہیں، اس لیے فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔

انہوں نے بچوں کو جنک فوڈ سے دور رکھنے پر زور دیا اور کہا کہ اس سے موٹاپا، کولیسٹرول میں اضافہ، دل کی بیماریاں اور ہائی بلڈ پریشر کے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ اس کے برعکس موسم کے مطابق تازہ پھل اور سبزیاں بچوں کی غذا میں شامل کرنا زیادہ مفید ہے کیونکہ یہ قدرتی طور پر غذائیت سے بھرپور ہیں۔

ڈاکٹر راکیش نے اینیمیا کے خطرے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیماری خون میں ہیموگلوبن اور آئرن کی کمی سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں بچوں کی پڑھائی پر توجہ کم ہو جاتی ہے اور جسمانی نشوونما بھی رک سکتی ہے۔

انہوں نے اس موقع پر سرکاری اسکیموں کی بھی تعریف کی جو بچوں کے لیے غذائیت کو یقینی بنانے میں معاون ہیں۔ ڈاکٹر راکیش نے کہا کہ آنگن واڑی مراکز چھ سال تک کے بچوں کو روزانہ کی ضروری غذائیت کا نصف حصہ فراہم کرتے ہیں، جو بچوں کی صحت کو بہتر بنانے کی جانب ایک مثبت قدم ہے۔

ڈاکٹر راکیش نے والدین سے اپیل کی کہ وہ اپنے بچوں کی صحت اور غذا پر خاص دھیان دیں اور کسی بھی غیر معمولی علامت پر ماہرین سے مشورہ لینے میں تاخیر نہ کریں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔