قرآن نذر آتش کرنے والا عراقی سویڈن کے رویے سے مایوس

قرآن نذر آتش کرنے والا اب ناروے پہنچ چکاہے اور دارالحکومت اوسلو جا رہا ہے۔ اس نے سویڈن کے آزادی اظہار اور انسانی حقوق کے تحفظ کے دعووں کو ''ایک بڑا جھوٹ‘‘ قرار دیا۔

قرآن نذر آتش کرنے والا عراقی سویڈن کے رویے سے مایوس
قرآن نذر آتش کرنے والا عراقی سویڈن کے رویے سے مایوس
user

Dw

اس مسیحی عراقی کا، جس نے اسٹاک ہوم میں قرآن نذر آتش کیا تھا، کہنا ہے کہ سویڈن میں 'آزادی اظہار‘ ایک 'بہت بڑا جھوٹ‘ ہے۔ مسلمانوں کی مقدس کتاب کی بے حرمتی کے اس واقعے نے پوری مسلم دنیا میں شدید غم و غصہ پیدا کر دیا تھا۔سویڈن میں قرآن کو جلا کر دنیا بھر کے میڈیا کی سرخیوں میں آنے والے مسیحی عراقی سلوان مومیکا نے کہا ہے کہ سویڈش حکومت کی جانب سے ان کا رہائشی پرمٹ منسوخ کر دیے جانے کے بعد وہ اب سویڈن چھوڑ کر ناروے پہنچ چکے ہیں۔

قرآن سوزی کے اس واقعے نے دنیا بھر میں مسلمانوں میں غم و غصہ پیدا کر دیا تھا اور سویڈن اور ترکی کے تعلقات بہت کشیدہ ہو گئے تھے۔ سینتیس سالہ مومیکا نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے سویڈن چھوڑ دیا ہے اور ناروے پہنچ گئے ہیں، جہاں ان کا سیاسی پناہ حاصل کرنے کا منصوبہ ہے۔ مومیکا نے ایک بیان میں کہا، ''میں نے سویڈن کو اس لیے چھوڑا کیونکہ مجھے حکومتی اداروں کی جانب سے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔‘‘ سویڈش اخبار 'ایکسپریشن‘ میں بدھ کے روز شائع ہونے والے اور اسی ہفتے دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں مومیکا نے کہا، ''میں ناروے جا رہا ہوں، سویڈن صرف ان دہشت گردوں کو قبول کرتا ہے، جنہیں پناہ دی جاتی ہے اور تحفظ دیا جاتا ہے، جب کہ دانشوروں اور مفکرین کو ملک سے نکال دیا جاتا ہے۔‘‘ مومیکا نے اس اخبار کو بتایا، ''میں ایک ایسے ملک میں جا رہا ہوں، جو میرا خیر مقدم کرتا ہے اور میرا احترام کرتا ہے۔ سویڈن میری عزت نہیں کرتا۔‘‘ وہ اب ناروے پہنچ چکے ہیں اور دارالحکومت اوسلو جا رہے ہیں۔ مومیکا نے سویڈن کے آزادی اظہار اور انسانی حقوق کے تحفظ کے دعووں کو ''ایک بڑا جھوٹ‘‘ قرار دیا۔ ناروے کے حکام نے فوری طورپر اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔


مومیکا نے ایک بڑا تنازعہ کیسے پیدا کر دیا تھا؟

مومیکا نے سویڈن میں مسلمانوں کی مقدس کتاب کو کئی مرتبہ سرعام نذر آتش کیا اور اس کی بے حرمتی کی، جس کی وجہ سے گزشتہ چند سالوں کے دوران دنیا بھر کے مسلمانوں میں غم و غصہ پیدا ہو گیا تھا۔ قرآن سوزی کے ان کے اشتعال انگیز اقدامات کی ویڈیوز منظر عام پر آنے کے بعد متعدد مسلم ممالک میں زبردست مظاہرے کیے گئے تھے، جن سے کئی جگہ پر فسادات ہوئے اور بدامنی پھیل گئی تھی۔

سویڈن کی حکومت نے گو کہ قرآن کی بے حرمتی کی مذمت کی تھی لیکن تقریر اور اجتماع کی آزادی کے ملکی قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے مومیکا کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے گریز کیا تھا۔


سویڈن کے مائیگریشن حکام نے اکتوبر میں مومیکا کے رہائشی پرمٹ کو یہ کہتے ہوئے منسوخ کر دیا تھا کہ اس نے اپنی درخواست میں غلط معلومات فراہم کی تھیں۔ لہٰذا انہیں عراق بھیج دیا جائے گا۔ تاہم سکیورٹی وجوہات کی بنا پر مومیکا کی ملک بدری روک دی گئی۔ مومیکا کا کہنا تھا کہ اگر انہیں اپنے آبائی ملک بھیجا گیا، تو ان کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

قرآن کو نذر آتش کرنے کے واقعات کی وجہ سے سفارتی مسائل بھی پیدا ہوئے تھے۔ مثلاً سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کے حوالے سے بات چیت کے پس منظر میں سویڈن کے وزیر دفاع کو ترکی کا دورہ منسوخ کرنا پڑا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔