پاکستانی انتخابات کا پھیکا پن اور بھارت

2019ء کے بعد جس طرح ایک دم عوامی رابطے بھی منقطع ہوگئے، صحافیوں کے رابطے بھی لگتا ہے ختم ہوگئے ہیں۔ کسی بھی سطح پر بھارت میں پاکستان کے الیکشن کے چرچے نہیں ہیں۔

پاکستانی انتخابات کا پھیکا پن اور بھارت
پاکستانی انتخابات کا پھیکا پن اور بھارت
user

Dw

پاکستان اس وقت بھارتی صحافیوں کی ترجیحات کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔ ہاں ان کی ٹی آر پی، بی جے پی کے سینئر رہنماؤں کی ان تقریروں سے بڑھتی ہے، جن میں وہ بھارت میں رونما ہونے والی ہر برائی کو پاکستان کے ساتھ جوڑتے ہیں۔مجھے یاد ہے کہ پاکستان کے انتخابات پر گہما گہمی نئی دہلی میں خاص طور پر صحافتی برادری میں ایسی ہوتی تھی، جیسے بھارت میں ہی انتخابات ہو رہے ہوں۔ پریس کلب یا فارن کارسپانڈنٹس کلب میں مذاکرے ہوتے تھے۔ پاکستانی سیاست کے ماہرین اپنی آراء سے سامعین کو آگاہ کرتے تھے۔

مجھے دو دہائی قبل کا ایک الیکشن یاد ہے، جب بھارت کے چھوٹے سے چھوٹے علاقائی اخباروں کے رپورٹر پاکستان انتخابات کور کرنے پہنچے تھے۔ واپسی پر وہ پاکستان کی یادیں اور رابطے بھی ساتھ لاتے تھے، جن سے پھر ابھی تک رشتے نبھا رہے ہیں۔ ہر انتخاب سے قبل پاکستانی ہائی کمیشن کے باہر صحافی ویزا کے حصول کیلئے لائن لگاتے تھے۔ ہائی کمیشن کے پریس آفیسر کی ویلیو اس دوران بہت بڑھ جاتی تھی۔ ہر کوئی اس کی خاطر و مدارت کرتا نظر آتا تھا۔


مگر 2019ء کے بعد جس طرح ایک دم عوامی رابطے بھی منقطع ہوگئے، صحافیوں کے رابطے بھی لگتا ہے ختم ہوگئے ہیں۔ کسی بھی سطح پر بھارت میں پاکستان کے الیکشن کے چرچے نہیں ہیں، جو ایک اچھا شگن نہیں ہے۔ پچھلے ہفتے پریس کلب میں پاکستانی امور کے ماہر ایک صحافی سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے پوچھا، ”سر آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ آپ کو تو اسلام آباد میں ہونا چاہیے تھا؟ لگتا ہے کہ آپ کے دوست میاں نواز شریف واپس اقتدار میں آرہے ہیں۔" انہوں نے مسکراتے ہوئے بات کو ٹالتے ہوئے کہا، ''وہ دن گئے جب بھارتی صحافی انتخابات کو کور کرنے کے لیے پاکستان جایا کرتے تھے۔‘‘

ان معمر صحافی کا کہنا تھا کہ بھارت کے صحافی اس وقت ایودھیا میں بھگوان رام کے ساتھ مصروف ہیں۔ انہیں اب حکمران جماعت کے ایجنڈے کو چلانے اور اقتدار میں حکومت کے بجائے اپوزیشن سے سوال کرنے سے ہی فرصت نہیں ملتی ہے، تو کیسے پڑوسی کا حال دریافت کرنے پہنچ جائیں گے۔


پاکستان اس وقت بھارتی صحافیوں کی ترجیحات کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔ ہاں ان کی ٹی آر پی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سینئر رہنماؤں کی ان تقریروں سے بڑھتی ہے، جن میں وہ بھارت میں رونما ہونے والی ہر برائی کو پاکستان کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ لیکن ماضی میں ایسا نہیں تھا۔ چاہے بے نظیر بھٹو کا اقتدار میں آنا ہو یا نواز شریف کا تختہ پلٹنا یا پھر پرویز مشرف کا صدر کا عہدہ سنبھالنا ہو، بھارتی سامعین میں ان واقعات کے تئیں خاصی دلچسپی ہوتی تھی۔

2019ء میں جب وزیراعظم نریندر مودی عام انتخابات کی مہم چلا رہے تھے تو انہوں نے اپنی تقریروں میں 15 بار پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے اسے بھارت میں بدامنی پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا۔ صرف وزیر اعظم ہی نہیں، ان کی پارٹی کے دیگر لیڈروں نے بھی بھارت میں قوم پرستی کے جذبات کوبر انگیختہ کرنے کے لیے پاکستان پر تنقید کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ ایک بار تو ایسا بھی لگنے لگا جیسے بھارت پاکستان کے خلاف الیکشن لڑ رہا ہے اور ملک کے تمام داخلی مسائل حل ہو گئے ہیں۔ بھارتی ووٹر کو لگا کہ پاکستان کے ساتھ آر یا پار کی لڑائی کرنے کے لیے صرف مودی میں ہمت ہے۔ یعنی 2019ء کے انتخابات پاکستان کے موضوع پر لڑ کر بی جے پی نے ایک واضح اکثریت حاصل کی۔ اس صورت حال میں اب پاکستان کا امیج ایک جڑواں بھائی کے بجائے ایک ایسے دشمن ملک کا ہے، جہاں ہر کوئی بندوق تانے بیٹھا ہے۔ ان پانچ سالوں میں پاکستان کے ساتھ ہر قسم کے رابط چاہے تجارتی ہوں یا ٹریک ٹو، سبھی روک دیے گئے ہیں۔


اگرچہ نواز شریف اپنی انتخابی تقریروں میں بھارت کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی بحالی کی بات کرتے آرہے ہیں لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ سب کچھ ان کو اقتدار میں لانے والوں پر اور پھر بھارت کی اگلی حکومت کے رویہ پر منحصر ہے۔

ڈاکٹر رشی گپتا ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹیٹیوٹ، نئی دہلی کے سینئر ریسرچ فیلو ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان غیر مستحکم تعلقات ایسے سیاسی گروہوں کی مدد کرتے ہیں جو قوم پرستی کو ہوا دے کر اور زیادہ دفاعی اخراجات کو جواز بنا کر، ملک کے اصل اندرونی مشکلات سے توجہ ہٹاتے ہیں۔ کشیدگی کی عوامی حمایت بڑھانے اور فوجی اور پاپولسٹ لیڈروں کے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے سیاسی حربے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاریخی اختلاف، جیسے کشمیر کا سوال، ان سب میں مزید پیچیدگیاں لاتا ہے۔


آج دونوں ملکوں کے لوگوں کے درمیان میل جول اور رابطوں کا مکمل فقدان ہے۔ وہ نسل جس نے تقسیم کا مشاہدہ کیا تھا اور حالات کو بدلتے ہوئے دیکھنے کی امید رکھی تھی وہ دنیا سے تقریباً رخصت ہو گئی ہے۔ اب ہماری نسل دونوں ممالک کو جڑواں بھائیوں کی طرح کم سے کم ایک دوسرے سے آنکھیں ملاتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہے۔ ہم تو بس یہی مشورہ دے سکتے ہیں۔

بے جھجھک آکے ملو، ہنس کے ملاؤ آنکھیں

آو ہم تم کو سکھاتے ہیں، ملانا دل کا

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔