نائجیریا میں ’بچے پیدا کرنے والی فیکٹریوں‘ کا کاروبار گرم

یہ فیکٹریاں عام طور پر چھوٹی ہوتی ہیں اور یہاں غیر قانونی سہولیات میسر ہوتی ہیں اور یہ پرائیوٹ میڈیکل کلینیکس کے طور پر کام کرتی ہیں۔

نائجیریا میں ’بچے پیدا کرنے والی فیکٹریوں‘ کا کاروبار گرم
نائجیریا میں ’بچے پیدا کرنے والی فیکٹریوں‘ کا کاروبار گرم
user

Dw

انسانی اسمگلرز اکثر لڑکیوں اور نوجوان خواتین کو اغوا کرتے ہیں، انہیں الگ تھلگ جگہوں پر لے جاتے ہیں اور ان کو زبردستی حاملہ کر دیتے ہیں۔ جب وہ بچے کو جنم دیتی ہیں تو ان کے بچوں کو بے اولاد جوڑوں کے ہاتھوں بیچ دیا جاتا ہے۔نائجیریا میں نام نہاد ''بچے بنانے کے کارخانے‘‘ میں ایسی سہولیات موجود ہیں جہاں لڑکیوں اور نوجوان خواتین کو کوئی نا کوئی لالچ دلا کر انہیں حاملہ کر کے اُس وقت تک رکھا جاتا ہے جب تک وہ بچے کو جنم نہیں دیتیں۔ ایسا ان کی مرضی کے بغیر کیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ نائیجیریا میں برسوں سے جاری ہے۔

یہ فیکٹریاں عام طور پر چھوٹی ہوتی ہیں اور یہاں غیر قانونی سہولیات میسر ہوتی ہیں اور یہ پرائیوٹ میڈیکل کلینیکس کے طور پر کام کرتی ہیں۔ یہاں حاملہ خواتین رہتی ہیں اور بچے جنم دینے کے بعد اپنے بچوں کو فروخت کے لیے پیش کر دیتی ہیں۔ اکثر کیسز میں ان نوجوان خواتین کو ان کی مرضی کے خلاف رکھا جاتا ہے اور ان کے بچوں کو بلیک مارکیٹ میں فروخت کرنے سے پہلے ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی ہے۔ نائجیریا میں یہ رواج جنوب مشرقی ریاستوں ابیا، لاگوس، انامبرا، ایبونی، اینوگو اور امو میں بڑے پیمانے پر رائج ہے۔


خوفناک اعداد و شمار

نائیجیریا کے سکیورٹی اداروں کے مطابق، گزشتہ پانچ سالوں میں تقریباً 200 زیر زمین بچوں کے کارخانے بند ہو چکے ہیں، تاہم بند فیکٹریوں کو تبدیل کرنے کے لیے نئی سہولیات کھولی گئی ہیں۔ رواں ماہ کے شروع میں، پولیس افسران نے ابیا میں ایک ٹھکانے پر حملہ کیا جہاں انہوں نے 16 حاملہ لڑکیوں اور آٹھ کمسن بچوں کو بچایا۔

پولیس کی ایک ترجمان مورین چناکا نے انکشاف کیا کہ بازیاب کرائی جانے والی لڑکیوں کی عمریں 17 سے 27 سال کے درمیان تھیں اور انہیں بتایا گیا تھا کہ انہیں بچوں کے کارخانے چھوڑنے کے لیے رقم دی جائے گی۔ گزشتہ جون میں 22 حاملہ نوجوان لڑکیوں اور دو بچوں کو اسی ریاست میں ایک سہولت سے بچایا گیا تھا، جہاں انہیں یرغمال بنا کر رکھا گیا تھا۔


یہ فیکٹریاں کیوں موجود ہیں؟

نائجیریا میں ایسے جوڑوں میں ان ' بچوں کی فیکٹریوں‘ پر انحصار بہت زیادہ پایا جاتا ہے جو اولاد کی دیرینہ خواہش رکھتے ہیں اور اولاد کے حصول کے لیے ممکنہ کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ ایسے جوڑے فی بچہ ایک سے دو ملین ''نائیرا‘‘ یا 576 ڈالر تک دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کی مانگ کہیں زیادہ ہے۔ اس وجہ سے لڑکیوں کی قیمت کے مقابلے میں لڑکوں کی قیمت کہیں زیادہ ادا کی جاتی ہے۔ نائجیریا کی ایک ماہر تعلیم اور سماجی کارکن کلیئر اوہانایو نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا،''معاشرے میں جب تک بچوں کی مانگ رہے گی بچوں کی فیکٹریوں کا رواج غالب رہے گا۔‘‘

نائجیریا کی یہ سماجی کارکن اس کا ذمہ دار غربت کی بلند سطح اور نائیجیریا میں بے اولاد جوڑے کو سماج میں ایک بدنما داغ کے طور پر دیکھے جانے کے منفی رجحان کو ٹھہراتی ہیں۔ اوہونائیو کے مطابق، ان سہولیات جہاں لڑکیوں کو رکھا جاتا ہے، کے مالک اور وہ مرد جو ان لڑکیوں کو حاملہ کرتے ہیں اور خود لڑکیاں سب ''غربت کی وجہ سے اس دلدل میں دھنسے چلے جاتے ہیں۔‘‘


بچوں کی فیکٹریوں کے کاروبار کا خاتمہ

نائجیریا کے دارالحکومت ابوجا میں قائم ڈس ایبلٹی رائٹس ایڈووکیٹ سینٹر کی وکیل فلورنس مارکس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس خطرے سے نمٹنے میں مدد کے لیے قوانین موجود ہیں۔ انہوں نے کہا، ''بچوں کی فیکٹریوں کا یہ مسئلہ متاثرین کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، خاص طور پر ان نوجوان خواتین کی جنہیں اکثر بغیر اجازت کے ان سہولیات میں لے جایا جاتا ہے۔‘‘

افراد کے خلاف تشدد پر ''پروہیبیشن ایکٹ‘‘ موجود ہے جو کسی بھی فرد کے خلاف ہر قسم کے تشدد کی ممانعت کرتا ہے، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے خلاف۔ یہ قانون متاثرین کے لیے زیادہ سے زیادہ تحفظ اور موثر علاج فراہم کرتا ہے اور اس میں مجرموں کے لیے سزا بھی موجود ہے۔‘‘ قومی ادارہ برائے انسداد انسانی اسمگلنگ کے ایک سرکاری ادارے کے ترجمان زکریا داؤدا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ تنظیم گرفتاریاں جاری رکھے گی اور اس بات کو یقینی بنائے گی کہ اسمگلنگ کرنے والوں کو سزا دی جائے۔


ان کے بقول، ''ہم 'بچے بنانے والی فیکٹری‘ کے معاملے کو جانتے ہیں اور یہ بھی کہ زیادہ تر اس کا شکار نوجوان لڑکیاں ہوتی ہیں۔ ہم لوگوں کو اس طرح کی برائیوں کے خطرات سے خبردار کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا،''اس عمل میں ملوث مشتبہ افراد کو پکڑ لیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو یہ بھی معلوم ہو جائے کہ بچوں کی فروخت کے نام سے کیا جانے والا یہ عمل ایک جرم ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔