'خبردار جو رمضان میں میری دوکان میں کھڑے ہو کر پانی پیا’

ہمارا دین عورت کو مکمل بااختیار بناتا ہے، مگر ہمارا معاشرہ لاعلمی کی وجہ سے عورت پر قدغنیں لگاتا ہے۔

'خبردار جو رمضان میں میری دوکان میں کھڑے ہو کر پانی پیا’
'خبردار جو رمضان میں میری دوکان میں کھڑے ہو کر پانی پیا’
user

Dw

پاکستان میں ڈاکٹر کے مشورے پر روزے ترک کرنے والی حاملہ خواتین کو، معاشرے میں بہت سے منفی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ طبی وجوہات کی بنا پر بھی کسی کے سامنے کھانا پینا، ان کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔"خبردار جو رمضان میں یہاں کھڑی ہو کر پانی پیا، بے شرم عورت باہر نکلو میری دکان سے،" یہ الفاظ دو سال گزر جانے کے باوجود آج بھی نگہت (فرضی نام) کی یاداشت میں نہ صرف نقش ہیں بلکے یاد آتے ہی ندامت کے مارے، اس کے رخسار بھیگ جاتے ہیں۔

آج سے دو سال قبل نگہت جو پہلی بار ماں بن رہی تھی، ان کا آخری مہینہ چل رہا تھا اور وہ ڈاکٹر کے مشورے سے آخری عشرے کے روزے چھوڑنے پر مجبور تھیں۔ جب وہ اسلام آباد میں واقع کراچی کمپنی بازار میں کسی ضروری کام سے گئی تھیں اور طبیعت بگڑنے پر ایک بیکری سے پانی لے کر پینے لگی تھیں کہ باریش دوکاندار نے جھڑک کر بہت سے لوگوں کے سامنے ہی انہیں دوکان سے باہر نکال دیا۔ ہاتھ میں پانی کی بوتل تھامے، نگہت چپ چاپ باہر نکل آئیں پر ندامت اور بے بسی کا احساس کئی روز تک اس کا چہرہ بھگوتا رہا۔


ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے، آج بھی اس کی آنکھیں نم تھیں اور ہونٹوں پر ایک سوال کہ ہم مسلمان ہیں اور اسلام ہمیں اجازت دیتا ہے کہ حمل میں روزوں کی سکت نہ ہو تو ان کی قضا باقی دنوں میں پوری کر لیں، و پھر یہ معاشرہ ہم پر کیوں اپنی بنائی ہوئی قدغنیں لگاتا ہے۔ کیا دل آزاری گناہوں کی صف میں نہیں آتی ہے؟

پاکستان میں حاملہ عورتین جو ڈاکٹر کے مشورے سےروزے چھوڑتی ہیں وہ معاشرے میں بہت سے منفی رویوں کا سامنا کرتی ہیں۔ کبھی سسرال کی جانب سے روزہ چھوڑنے پر طعنے سننے کو ملتے ہیں، تو کبھی معاشرے کے دیگو حلقوں کی جانب سے۔ وہ طبیعت خراب ہونے کے باوجود بھی کسی کے سامنے کھا پی نہیں سکیتں۔ حمل میں روزہ ترک کرنے کی اجازت دین بھی دیتا ہے مگر یہ معاشرہ انکو یہ چھوٹ دینے کو کسی طور پر تیار نہیں ہے۔


ایسی ہی ایک خاتون ثناء قریشی بھی ہیں، جن کے حمل کا ابھی تیسرا مہینہ شروع ہوا ہے اور متلی کی وجہ سے وہ کچھ کھا پی نہیں سکتیں۔ کمزوری کی وجہ سے ڈاکٹر نے انہیں روزے چھوڑنے کا مشورہ دیا ہے۔ مگر ان کی ساس کو یہ بات پسند نہیں آئی، جس کی وجہ سے ثناء اپنے گھر میں ہی مجرم بن گئیں۔ انہوں نے ساس کے طعنوں سے بچنے کے لیے روزے شروع کیے تو دوسرے دن بےہوش ہو کر ہسپتال پہنچ گئیں، جہاں ڈاکٹر نے بتایا کہ اسکا بی پی خطرناک حد تک کم تھا۔

ثناء نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ ساس کے سامنے کچھ بھی کھا پی نہیں سکتیں اور اگر قے کریں تو انہیں کو لعن طعن کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ اور روزے چھوڑو، اللہ پاک ناراض نہیں ہو گا تو اور کیا ہوگا۔ ثنا کہتی ہیں، "میری ساس مجھے کہتی ہیں کہ میں نے سات بچے پیدا کیے کچھ رمضان میں بھی ہوئے مگر مجال ہے کبھی روزہ چھوڑا ہو۔ آج کل کی لڑکیاں بہت نازک مزاج ہوتی ہیں بات بات پر روزہ چھوڑنا ان کے لیے معمولی بات ہے۔"


ڈاکٹر مہوش لاکھانی، جو اسلام آباد میں گاءیناکالوجسٹ ہیں، نے ڈی ڈبلیو کر بتایا کہ وہ حاملہ خواتین جو حمل کے ابتدائی یا آخری مراحل سے گزر رہی ہوتیں ہیں، ان کو رمضان میں ڈی ہائیڈریشن کا مسئلہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ہم ان کو روزہ چھوڑنے کا مشورہ دیتے ہیں اور خاص طور پر یہ خواتین اگر کسی اور بیماری جیسے کہ بلڈ پریشر، شوگر یا تھائی ریڈ میں مبتلا ہوں، تو لازما ایسا کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے بتایا، "میں جب خواتین کو روزہ چھوڑنے کو کہتی ہوں تو وہ خود اس کے لیے تیار نہیں ہوتیں کہ ہم روزہ نہیں چھوڑ سکتے، کیونکہ ہم نے کبھی زندگی میں روزہ نہیں چھوڑا ۔ بہت قائل کرنے پر ہی وہ اس کے لیے تیار ہوتیں ہیں۔ ہم سب کو ان کا خیال رکھنا چاہیے، کیونکہ وہ یہ سب مجبوری میں کرتیں ہیں اور ہمارا دین بھی ان کو اس کی اجازت دیتا ہے۔"


مذہبی اسکالر عبید الرحمن، جو ایف ایٹ میں واقع مسجد رحمت اللالمین کے سربراہ ہیں، نے اسی حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حاملہ خواتین کے روزے کے بارے میں تین مختلف موقف ہیں، پہلا کہ وہ روزہ چھوڑ کر باقی دنوں میں اس کی قضا کریں۔ دوسرا کہ فدیہ دیں رمضان میں اور بعد میں ممکن ہو توقضاء بھی کریں اور تیسرا یہ کہ خواتین فدیہ دینے کے بعد قضاء نہ پورا کریں۔ تینوں موقفوں کے اپنے دلائل ہیں۔

وہ کہتے ہیں، "ان تینوں موقفوں میں سے کون سا بہتر ہے اور کس کے زیادہ دلائل ہیں، اس سے ہٹ کے میری نظر میں ان حاملہ خواتین پر اللہ کی طرف سے رحمت کا پہلو ہے۔ بچوں والی خواتین اور خاص طور پر جن کے ہاں ایک سے زیادہ اولادیں ہوتیں ہیں، ان کو صحت کے مسائل کا سامنا عام خواتین سے زیادہ کرنا پڑتا ہے۔ جیسے کہ ایک خاتون کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی ایک سال حمل کی وجہ سے روزے چھوٹ گئے اور پھر آگے دو سال دودھ پلانے کی وجہ سے وہ قضاء پورا نہیں کر سکیں۔ اور پھر چو تھے سال دوبارہ حمل ہو گیا، تو ان خواتیں کے لیے روزے کی قضاء کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔"


ان کا مزید کہنا تھا کہ اسی وجہ سے رحمت کا پہلو یہی ہے کہ وہ خاتون خلوص نیت کے ساتھ کوشش کرے کہ روزوں کی قضاء کرے اور اگر قضاء نہیں دے سکتی تو اسکا فدیہ بروقت ادا کرے۔ اگر وہ سمجھتی ہے کہ میرا معاملہ ڈاواں ڈول رہے گا تو وقتی فدیہ ادا کر دے اور بعد میں قضاء بھی پوری کردے۔ لیکن اگر آگے بھی اس کو صحت اور بچوں کی وجہ سے مہلت نہیں ملتی تو فدیہ ادا کر دے، یہی فدیہ اس کے لیے کافی ہے۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مڈیکل سائنس اور دین اسلام تو عورت کو یہ حق دیتا ہے مگر ہمارے معاشرے میں عورت کو جائز کام کرنے کے لیے بھی معاشرے کے اصولوں اور گھر کے بااختیار افراد کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ انھوں نےنام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے میں تبدیلی ایسی خواتین کی حالت میں بہتری لا سکتا ہے کیونہ ہمارا دین عورت کو مکمل بااختیار بناتا ہے، مگر ہمارا معاشرہ لاعلمی کی وجہ سے عورت پر قدغنیں لگاتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔