کبھی کوچ بنائے جانے پر اٹھا تھا سوال، اب اصل زندگی کے ’کبیر خان‘ ثابت ہوئے ہندوستانی خاتون کرکٹ ٹیم کے کوچ امول مجومدار

اکتوبر 2023 میں جب امول مجومدار کو ہندوستانی خاتون کرکٹ ٹیم کا کوچ مقرر کیا گیا تھا تو کئی لوگوں نے سوال اٹھایا تھا کہ جس نے ہندوستان کے لیے کبھی نہیں کھیلا، وہ کوچ کیسے بنے گا؟

<div class="paragraphs"><p>امول مجومدار،تصویر سوشل میڈیا، بشکریہ&nbsp;@M_Raj03</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

امول مجومدار کی کہانی صرف ایک کوچ کی نہیں ہے، بلکہ یہ اس کھلاڑی کی کہانی ہے جس نے کبھی ہندوستانی ٹیم کی جرسی نہیں پہنی، لیکن اس نے وہ کر دکھایا جو شاید ہندوستان کے لیے کھیلنے والے بھی نہ کر پائے۔ انہوں نے خود میدان پر موقع نہیں پایا، لیکن دوسروں کو یہ موقع فراہم کیا اور اسی سے ہندوستان کو عالمی کپ کے فائنل تک پہنچا دیا۔ ہندوستان کی خاتون کرکٹ ٹیم 2005 اور 2017 کے بعد صرف تیسری بار ونڈے عالمی کپ کے فائنل میں پہنچ پائی ہے، اور اس بار اس کے عالمی چمپئن بننے کے امکانات پہلے سے زیادہ روشن ہیں۔

خواتین عالمی کپ 2025 کا فائنل مقابلہ 2 نومبر (اتوار) کو ہندوستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان نوی ممبئی کے ڈی وائی پاٹل اسٹیڈیم میں کھیلا جانا ہے۔ ہندوستانی ٹیم نے سیمی فائنل میں ایک ایسی آسٹریلیائی ٹیم کو ہرایا، جسے شکست دینا ناممکن مانا جاتا تھا۔ امول مجومدار کے لیے اس ناممکن کو ممکن بنانا آسان نہیں تھا۔ اس کے لیے انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ نہ صرف بطور کوچ، بلکہ اپنے کھیلنے کے ایام میں بھی۔ آئیے ان کی جدوجہد کی کہانی جانتے ہیں۔


بچپن اور انتظار کی شروعات

امول مجومدار کی زندگی کا آغاز ایک انتظار سے ہوا۔ 1988 میں جب وہ 13 سال کے تھے تب اسکول کرکٹ کے ٹورنامنٹ میں ہیرس شیلڈ کے دوران نیٹس میں اپنی بلے بازی کی باری آنے کا انتظار کر رہے تھے۔ اسی روز امول کی ٹیم سے ہی کھیل رہے سچن تندولکر اور ونود کامبلی نے 664 رنوں کی تاریخی شراکت داری کی۔ دن ختم ہو گیا، اننگ ڈکلیئر کر دی گئی، لیکن مجومدار کو بلے بازی کا موقع نہیں ملا۔ یہ واقعہ ان کی زندگی کی علامت بن گیا، بلے بازی کی باری ہمیشہ ان سے کچھ دور ہی رہی۔ 5 سال بعد 1993 میں جب انہوں نے بامبے (اب ممبئی) کے لیے اپنا فرسٹ کلاس ڈیبیو کیا، تو پہلے ہی میچ میں 260 رنوں کی تاریخی اننگ کھیل ڈالی۔ یہ تب دنیا میں کسی بھی کھلاڑی کی ڈیبیو اننگ میں سب سے بڑا اسکور تھا۔ لوگ کہنے لگے کہ یہ اگلا سچن تندولکر بنے گا، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ 2 دہائی سے بھی طویل کیریئر میں انہوں نے 11000 سے زائد رن بنائے، 30 سنچری اسکور کی، لیکن کبھی بھی ہندوستان کے لیے ایک میچ نہیں کھیل سکے۔ وہ ایک سنہری دور کے کھلاڑی تھے، جب ٹیم میں سچن تندولکر، راہل دراوڑ، سورو گانگولی اور لکشمن جیسے ستارے تھے۔ مجومدار ان کے سائے میں کھو گئے۔

زندگی میں کبھی ہار نہیں مانی: والد کی ایک بات نے سب کچھ بدل دیا

2002 تک انہوں نے تقریباً ہار مان لی تھی، کیونکہ سلیکٹرز انہیں بار بار نظر انداز کرتے رہے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ ’’میں ایک خول میں چلا گیا تھا، سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اگلی اننگ کہاں سے نکلے گی۔‘‘ تبھی ان کے والد انل مجومدار نے کہا کہ ’’کھیل چھوڑنا نہیں، تیرے اندر اب بھی کرکٹ باقی ہے۔‘‘ یہ ایک جملہ جس سے ان کی زندگی بدل گئی، انہوں نے واپسی کی اور 2006 میں ممبئی کو رنجی ٹرافی جتائی۔ اسی دوران انہوں نے ایک نوجوان کھلاڑی روہت شرما کو پہلی بار فرسٹ کلاس میں موقع دیا۔ پھر بھی 2 دہائیوں میں 171 میچ، 11167 فرسٹ کلاس رن، 30 سنچری کے باوجود انہوں نے ہندوستان کے لیے ایک بھی میچ نہیں کھیلا۔


کوچ بننے کی نئی راہ

سچن تندولکر نے 2014 میں امول مجومدار کی ریٹائرمنٹ کے وقت کہا تھا کہ ’’مجومدار صحیح معنوں میں کھیل کے خادم ہیں۔‘‘ لیکن امول کے دل میں ایک خالی پن رہ گیا تھا اور وہ بتاتے ہیں کہ ’’میں نے ہندوستان کے لیے کبھی نہیں کھیلا، یہی ایک کمی رہ گئی۔‘‘ 2014 میں کرکٹ کو الوداع کہنے کے بعد انہوں نے کوچنگ کا راستہ اختیار کیا۔ انہوں نے نیدرلینڈ، جنوبی افریقہ اور راجستھان رائلس جیسی ٹیموں کے ساتھ کام کیا۔ ان کی شناخت ایک ایسے کوچ کے طور پر سامنے آئی جو کم بولتا ہے لیکن بہت گہرائی سے ہر چیز کو سمجھتا ہے۔ اکتوبر 2023 میں جب انہیں ہندوستانی خواتین کرکٹ ٹیم کا کوچ مقرر کیا گیا تو کئی لوگوں نے سوال اٹھایا تھا کہ جس نے ہندوستان کے لیے کبھی نہیں کھیلا، وہ کوچ کیسے بنے گا؟ لیکن 2 سال بعد وہی لوگ ان کی تعریف کرتے نہیں تھک رہے ہیں۔

کبیر خان کی طرح ٹیم کو بدلا

2025 خواتین ونڈے عالمی کپ کے گروپ اسٹیج میں ہندوستان کی کارکردگی کافی خراب رہی۔ انگلینڈ، جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا سے ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سوشل میڈیا پر میمز بن رہے تھے، تنقید اپنے عروج پر تھی۔ تبھی مجومدار نے ٹیم کے سامنے سخت الفاظ میں ردعمل کا اظہار کیا۔ ہندوستانی ٹیم کی کپتان ہرمنپریت کور بعد میں بولیں کہ ’’میں نے انگلینڈ میچ کے بعد ایک لفظ بھی نہیں بولا۔ سر نے کہا آپ لوگوں کو یہ میچ آسانی سے ختم کرنا چاہیے تھا۔ ہم سب نے ان کی بات کو صحیح جذبے سے لیا، کیونکہ امول سر جی جو بھی کہتے ہیں دل سے کہتے ہیں۔‘‘ امول مجومدار نے اس وقت کہا کہ ’’وہ باتیں جذبات پر مبنی تھیں، لیکن مقصد ٹیم کو آگے لے جانا تھا۔‘‘ یہی وہ لمحہ تھا جس نے پوری ٹیم کی سوچ بدل کر رکھ دی۔ اس ایک بات چیت نے آپ کو اس آدمی کے بارے میں سب کچھ بتا دیا، جس نے فلم ’چک دے انڈیا‘ میں شاہ رخ خان کے کبیر خان کی طرح ذاتی عدم قبولیت کو اجتماعی جیت میں تبدیل کر دیا۔


سیمی فائنل: بس ایک رن زیادہ چاہیے

آسٹریلیا کے خلاف سیمی فائنل سے قبل انہوں نے ڈریسنگ روم کے وائٹ بورڈ پر صرف ایک لائن لکھی تھی ’’ہمیں فائنل میں پہنچنے کے لیے بس ان سے ایک رن زیادہ چاہیے، بس اتنا۔‘‘ ایک سادہ جملہ، لیکن گہری سوچ۔ پھر ایک معجزہ ہوا، جمیمہ روڈریگس نے نمبر 3 پر بلے بازی کی، جیسا کہ مجومدار نے طے کیا تھا، انہوں نے 127 رنوں کی شاندار ناٹ آؤٹ اننگ کھیل کر ہندوستان کو فائنل میں پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے علاہ ٹیم کی کپتان ہرمنپریت کور نے بھی شاندار 89 رن کی اننگ کھیلی۔ دونوں کی شاندار اننگ کے بدولت ہی ہندوستانی ٹیم 339 رنوں کے پہاڑ جیسے اسکور کو حاصل کر آسٹریلیا کو شکست دینے میں کامیاب ہو پائی۔ ٹیم انڈیا نے خواتین کی ون ڈے تاریخ کا سب سے کامیاب رنوں کا ہدف آسانی سے حاصل کر لیا۔ ٹیم خوشی سے اچھل پڑی، لیکن امول مجمدرا خاموش کھڑے رہے۔ ان کی آنکھوں میں نمی تھی اور چہرے پر سکون تھا۔ انہوں نے کوئی جشن نہیں منایا، ان کے لیے یہ صرف ایک جیت نہیں تھی، بلکہ ایک ادھوری کہانی کا خاتمہ تھا۔ کہانی یہ کہ جس نے کبھی ہندوستان کی جرسی نہیں پہنی، اس نے کوچ بن کر ہندوستانی ٹیم کو عالمی کپ کے فائنل تک پہنچا دیا۔

اصل زندگی کے ’کبیر خان‘

مماثلتیں خود بخود لکھی جاتی ہیں۔ فلم چک دے انڈیا کے کبیر خان کی طرح ہی امول مجومدار نے بھی نظر انداز کیے جانے اور غلط سمجھے جانے کے زخم اپنے اندر برداشت کیے۔ کبیر کی طرح انہوں نے ابھی ایک ایسی ٹیم کو سنبھالا جسے اکثر غیر مستحکم اور متضاد کہہ کر تنقید کی جاتی تھی۔ لیکن امول نے ان کھلاڑیوں کو پر اعتماد بنایا۔ لیکن فرق اتنا ہے کہ مجومدار کی کہانی کسی اسکرپٹ رائٹر نے نہیں لکھی، بلکہ زندگی کے اپنے قلم سے لکھی گئی ہے۔ ان کے اسباق کسی کتاب سے نہیں آئے، بلکہ وہ آئے ہیں سالوں کے انتظار سے، خاموشی سے جدوجہد کرنے اور اس جذبہ سے جو صرف وہی محسوس کر سکتا ہے، جس نے خود کبھی بھلائے جانے کا درد برداشت کیا ہو۔ آل راؤنڈر اسنیہا رانا نے کہا کیہ ’’وہ ہمارے اب تک کے سب سے ملنسار کوچ ہیں۔ وہ کبھی چلاتے نہیں، بس سنتے ہیں اور جب بولتے ہیں تو آپ بہتر کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ مجومدار نے ٹیم کو صرف تکنیک نہیں سکھائی، بلکہ انہوں نے یقین کرنا سکھایا۔ انہوں نے کھلاڑیوں کو محسوس کرایا کہ وہ کسی بھی صورتحال میں میچ جیت سکتے ہیں۔


امول مجومدار: ایک علامت بن چکے ہیں

فائنل مقابلہ میں ہندوستانی خواتین ٹیم کو فائنل میں جیت حاصل ہو یا شکست کا سامنا کرنا پڑے، لیکن مجومدار کی ادھوری کہانی مکمل ہو چکی ہے۔ جس بچہ کو 13 سال کی عمر میں بلے بازی کا موقع نہیں ملا تھا، آج وہی کوچ بن کر پوری ٹیم کو چمپئن بننے کا موقع فراہم کر رہا ہے۔ کبھی جو انتظار ان کا سب سے بڑا درد تھا، وہی اب ان کی پہچان بنا گیا ہے۔ انہوں نے یہ دکھا دیا کہ کرکٹ صرف میدان پر کھیلنے والوں کا کھیل نہیں، بلکہ ان لوگوں کا بھی ہے جو دل سے کھیلتے ہیں۔ کبھی کبھی کھیل انہیں یاد نہیں رکھتا جنہوں نے کھیلا، بلکہ انہیں یاد رکھتا ہے جنہوں نے اسے بدل دیا اور امول مجومدار نے واقعی میں اسے بدل دیا ہے۔ جسے کبھی بلے بازی کی باری نہیں ملی، اس نے پوری ٹیم کو جیت کی باری دے دی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔