ملک کو نفرت کے جہنم میں کیوں جھونکا جا رہا ہے؟... سہیل انجم

اب تو فسادیوں کی تعداد بھی خاصی بڑھ گئی ہے اور ان کے حوصلے بھی۔ وہ مذہب اسلام کی شان میں بھی گستاخیاں کر رہے ہیں اور پیغمبر اسلام کی شان میں بھی۔ لیکن حکومت پہلے بھی خاموش تھی اور اب بھی خاموش ہے۔

Getty Images
Getty Images
user

سہیل انجم

اس وقت ملک میں سماجی و مذہبی تانا بانا جس طرح منتشر ہوا ہے اور اسے جس طرح مزید تباہ و برباد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کی مثال ملک کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ خواہ وہ ماضی قریب کی تاریخ ہو یا ماضی بعید کی۔ یہاں تک کہ برطانوی راج میں بھی نہیں اور مغلوں کے دور حکومت میں بھی نہیں اور اس سے قبل دوسرے فرماں رواؤں کی حکومتوں میں بھی نہیں۔ کیا کبھی کسی نے یہ سوچا تھا کہ ایک وقت وہ آنے والا ہے جب ہر مسلمان مشکوک اور ہر مسجد مندر سمجھی جانے لگے گی۔ یہاں تک کہ کسی ہندو کو مسلمان ہونے کی شک میں مار دیا جائے گا۔ یا کوئی پولیس والا کسی باریش ہندو کو مسلمان سمجھ کر زدوکوب کرنے لگے گا۔ کیا کسی نے سوچا تھا کہ دہلی کی جامع مسجد سمیت ملک کی بیشتر مساجد کی کھدائی کرنے کا مطالبہ ہوگا، تاکہ یہ پتہ لگایا جا سکے کہ اس کے نیچے کوئی مندر تو نہیں تھا۔ اس شرپسندی کا سرا تمام مذاہب کے پیروؤں کے لیے مرجع خلائق خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ تک پہنچ جائے گا اور کیا پتہ کل کو دہلی میں واقع حضرت نظام الدین اولیا کی درگاہ کو بھی ہندو مندر ہونے کا دعویٰ کر دیا جائے۔ بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عید گاہ پر تو مقدمات کی سماعت ہو رہی ہے۔

یہ سب تو جاری ہی تھا اور اس کی آڑ میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ بی جے پی کی ایک ترجمان نوپور شرما نے تہذیب و شائستگی کی تمام حدیں پار کر دیں اور اخلاقیات کی تمام دیواریں توڑ دیں۔ انھوں نے معراج کے واقعہ کا مذاق اڑانے کے ساتھ ساتھ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ کلمات ادا کیے، جس پر پورا ملک سراپا احتجاج ہے۔ دراصل ایسے نفرتی عناصر کو حکومت کی جانب سے شہ مل رہی ہے۔ یوپی اسمبلی کے انتخابی نتائج آنے کے بعد جس طرح ان شرپسندوں کو حوصلہ ملا ہے وہ ملک میں سماجی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو کہاں تک نقصان پہنچائے گا کہنا مشکل ہے۔


اس سے قبل بھی اس قسم کی شرانگیزیاں ہوئی ہیں اور پہلے بھی ایسے لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ بلکہ اس قماش کے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی رہی ہے۔ حکومت کی خاموشی سے بھی ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور بی جے پی بھی ان لوگوں کو اعزاز و اکرام سے نوازتی رہی ہے۔ جب بھی کسی نے مسلمانوں یا آر ایس ایس نظریات کے مخالفین پر حملے کیے اور ان کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا تو اس کو پارٹی کے اندر عہدہ دے کر اس کی عزت افزائی کی گئی۔ ایسے ہر شخص کی ایک طرف عزت افزائی کی جاتی ہے اور دوسری طرف یہ دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

لیکن اب تو فسادیوں کی تعداد بھی خاصی بڑھ گئی ہے اور ان کے حوصلے بھی۔ یہاں تک کہ وہ مذہب اسلام کی شان میں بھی گستاخیاں کر رہے ہیں اور پیغمبر اسلام کی شان میں بھی۔ لیکن حکومت پہلے بھی خاموش تھی اور اب بھی خاموش ہے۔ یہ ناانصافی نہیں تو اور کیا ہے کہ اگر کسی سنگھی نے کسی معمولی بات پر پولیس میں جا کر رپورٹ درج کرا دی تو جس کے خلاف شکایت کی گئی اسے فوراً گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ اس پر خطرناک دفعات بھی لگا دی جاتی ہیں۔ لیکن جب کسی سنگھی کی بدمعاشی پر کسی نے پولیس میں رپورٹ درج کرانا چاہی تو پولیس نے رپورٹ درج نہیں کی۔ اگر کئی دنوں کی بھاگ دوڑ کے بعد رپورٹ درج بھی ہو گئی تو کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔


مبصروں اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت خود چاہتی ہے کہ ملک میں اس قسم کا ماحول بنے۔ ذرا یاد کیجیے 2014 کے پارلیمانی انتخابات کے بعد پارلیمنٹ میں وزیر اعظم نریندر مودی کی ایک تقریر کو جس میں انھوں نے ہندوستان کو بارہ سو سال تک غلام بتایا تھا۔ انھوں نے صدر کے خطبہ پر شکریہ کی تحریک پر بحث کے جواب میں کہا تھا کہ ہندوستان بارہ سو سال کی غلامی سے آزاد ہوا ہے۔ حالانکہ ہندوستان کی غلامی کی مدت دو سو سال مانی جاتی ہے۔ یعنی انگریزوں کی غلامی کی مدت۔ لیکن مودی اینڈ کمپنی مغلوں کی حکومت کو بھی غیر ملکیوں کی حکومت مانتی ہے۔ اسی لیے انھوں نے کہا تھا کہ ملک بارہ سو سال کے بعد آزاد ہوا ہے۔ ان کا یہ جملہ دراصل موجودہ تخریبی سرگرمیوں کی بنیاد بن گیا۔

اگر انھوں نے ہندوستان کی تاریخ کو آر ایس ایس کے نظریے کی مانند مسخ کرنے کی کوشش نہ کی ہوتی اور اپنی تقریر کے بین السطور میں مسلم مخالف جذبات کی آمیزش نہ کی ہوتی تو ممکن ہے کہ آج صورت حال کچھ اور ہوتی۔ اس کے بعد مسلمانوں کے خلاف ہر قسم کا جرم انجام دیئے جانے لگے۔ چاہے وہ موب لنچنگ ہو یا گؤ کشی کے نام پر مسلمانوں پر حملے ہوں۔ بیف کے نام پر ان کے کاروبار کو تباہ کرنا ہو یا پھر ان کی معاشی و سماجی بائیکاٹ کی اپیلیں ہوں۔ حکومت و پولیس انتظامیہ کی جانب سے اس قسم کے لوگوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ یہاں تک کہ اگر مسلمانوں کی نسل کشی کی کال دی جاتی ہے تب بھی کہا جاتا ہے کہ ہر کسی کو اپنے خیالات کے اظہار کی آزادی ہے۔


لیکن اگر اس فارمولے کے تحت مسلمانوں یا دیگر اقلیتوں کی جانب سے کوئی بات سامنے آتی ہے تو پھر بھاؤنائیں آہت ہو جاتی ہیں۔ فوری طور پر تھانے میں رپورٹ درج کرا دی جاتی ہے اور پولیس ایکشن میں آکر کارروائی کرنے لگتی ہے۔ تب مذہبی جذبات کی پامالی کا فارمولہ پسِ پشت چلا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی جانب سے ہندوؤں کے مذہبی پیشواؤں کے خلاف کوئی نازیبا بات نہیں کی جاتی۔ کبھی بھی کسی مسلمان نے ہندوؤں کے جذبات بھڑکانے کی کوشش نہیں کی۔ اور اگر کسی نے کی بھی ہے تو خود مسلمانوں کی جانب سے اس کے خلاف مذمتی بیانات دیئے گئے ہیں۔

لیکن جب کسی سنگھی کی جانب سے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے والے بیانات دیئے جاتے ہیں تو سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ نوپور شرما نے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں پیش پیش انگریزی نیوز چینل ٹائمس ناؤ کی ایک ڈبیٹ میں پیغمبر اسلامؐ کی شان میں گستاخی کی تو سب خاموش ہو گئے اور یہاں تک کہ جب معاملہ کافی آگے بڑھا تو مذکورہ چینل نے خو کو اس بیان سے الگ کر لیا۔ ادھر نوپور شرما نے سنگھیوں کی چالاکیوں کی مانند اس معاملے کو دوسرا رنگ دینے کی کوشش کر دی۔ انھوں نے ہائے توبہ مچانی شروع کر دی کہ انھیں قتل اور ریپ کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور اگر ان کے ساتھ کچھ برا ہوا تو اس کے ذمہ دار محمد زبیر ہوں گے۔


محمد زبیر جھوٹی اور فیک خبروں کی حقیقت عوام کے سامنے بے نقاب کرنے والی ایک ویب سائٹ آلٹ نیوز کے شریک مدیر ہیں۔ انھوں نے نوپور کی ڈبیٹ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر دی، جس پر پورے ملک میں ان کے خلاف ہنگامہ ہو رہا ہے اور انھیں گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اب اس شرپسند خاتون نے اس پورے معاملے کو دوسرا رنگ دینا شروع کر دیا ہے اور یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ ان کی زندگی خطرے میں ہے۔ اگر تمھاری زندگی خطرے میں ہے تو اس کی ذمہ دار تم خود ہو۔ تم نے بڑے طمطراق کے ساتھ گستاخانہ کلمات ادا کیے تھے۔ اب اگر تمھارے خلاف آواز اٹھ رہی ہے تو تم اپنی زندگی کو خطرے میں بتانے لگی ہو۔

یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کی ذمہ دار حکومت ہے۔ حکومتوں کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ ملک میں انارکی پیدا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کریں اور اگر کوئی شخص دو فرقوں یا دو مذاہب کے ماننے والوں میں نفرت اور دشمنی پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو پولیس اس کے خلاف قانون کی روشنی میں ایکشن لے۔ کیا حکومت اور پولیس محکمہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کے لیے اور اس ملک کو ایک پرامن ملک بنانے کے لیے تیار ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔