اویسی نے مغربی بنگال اسمبلی انتخاب سے پہلے ہی کیوں ڈال دیے ہتھیار؟

سیاسی تجزیہ نگار ایمان کلیان کا ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ بنگال میں مسلم طبقہ کے 94 فیصد لوگ بنگالی میں بات کرتے ہیں، اس لیے اسدالدین اویسی بنگال میں کوئی بڑا فیکٹر نہیں ہیں۔

اسدالدین اویسی، تصویر آئی اے این ایس
اسدالدین اویسی، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز تجزیہ

مغربی بنگال اسمبلی انتخاب میں اے آئی ایم آئی ایم (آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین) کے سربراہ اسدالدین اویسی نے انتہائی جوش کے ساتھ میدان میں اترنے کا اعلان کیا تھا، لیکن اب جب ووٹنگ کے دن قریب آ رہے ہیں، ایسا لگ رہا ہے جیسے اویسی نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ بہار اسمبلی انتخاب میں بہترین کارکردگی سے حیران کرنے والے اویسی نے جب مغربی بنگال میں امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کیا تھا تو سبھی یہ اندازہ لگا رہے تھے کہ مسلم ووٹ پر اس کا گہرا اثر پڑے گا۔ گزشتہ کچھ مہینوں میں اویسی نے دو بار مغربی بنگال کا دورہ بھی کیا اور کہا جانے لگا کہ یقیناً ترنمول کانگریس کے مسلم ووٹ میں سیندھ لگائیں گے، لیکن اب حالات کافی بدلے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

میڈیا ذرائع سے موصول ہو رہی خبروں اور سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ مغربی بنگال میں اس بار اویسی کی پارٹی اے آئی ایم آئی ایم بہار جیسا کوئی جادو نہیں دکھانے والی۔ کہا جا رہا ہے کہ بنگال میں اے آئی ایم آئی ایم کو آگے بڑھانے میں اہم کردار نبھانے والے ضمیرالحسن اب اویسی کو چھوڑ کر خود بنگال میں انڈین نیشنل لیگ کا نیا چیپٹر شروع کرنے جا رہے ہیں اور ایسی بھی خبریں سامنے آئی ہیں کہ وہ ترنمول کانگریس کی حمایت کریں گے۔ اس کے علاوہ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اے آئی ایم آئی ایم بنگال کے کئی لیڈران عباس صدیقی کے ساتھ اسدالدین اویسی کی دوستی سے ناراض چل رہے تھے۔ ویسے بھی عباس صدیقی کی پارٹی انڈین سیکولر فرنٹ نے لیفٹ اور کانگریس اتحاد کے ساتھ ہاتھ ملا لیا ہے۔


سیاسی تجزیہ نگار ایمان کلیان لاہری کا ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ بنگال میں مسلم طبقہ کے 94 فیصد لوگ بنگالی زبان میں بات کرتے ہیں، اسی لیے اسدالدین اویسی بنگال میں کوئی بڑا فیکٹر نہیں ہیں۔ اس کو جانتے اور مانتے ہوئے اسدالدین اویسی نے شاید عباس صدیقی سے بات کی تھی۔ لیکن بنگال اے آئی ایم آئی ایم کے لیڈروں کو یہ ناپسند تھا۔ اسی لیے اویسی کو اس بار الیکشن سے پہلے ہی ہتھیار ڈالنا پڑا۔

بہر حال، اس وقت جو سیاسی صورت حال مغربی بنگال میں دیکھنے کو مل رہا ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اویسی کی پارٹی کوئی بڑا فیکٹر نہیں بننے والی ہے، اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ ترنمول کانگریس کو، جب کہ سب سے زیادہ نقصان بی جے پی کو ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی مغربی بنگال زیادہ سے زیادہ پولرائزیشن کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور ہندوتوا لہر پر سوار ہو کر انتخاب میں جیت کا پرچم لہرانے کی اس کی جدوجہد جاری ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔