پوری قوم کو ترقی کے لیے ثنا اور ثانیہ جیسا جنون چاہیے... ظفر آغا

ثنا اور ثانیہ کی کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں لیکن اگر آپ میں ترقی کا جنون و جذبہ ہے تو آپ کو بی جے پی یا سنگھ نہیں روک سکتی ہے

<div class="paragraphs"><p>فائٹر پائلٹ ثانیہ مرزا (دائیں) اور اسرو سائنسدان ثنا علی / سوشل میڈیا</p></div>

فائٹر پائلٹ ثانیہ مرزا (دائیں) اور اسرو سائنسدان ثنا علی / سوشل میڈیا

user

ظفر آغا

ثنا علی (اِسرو سائنٹسٹ)، ثانیہ مرزا (پہلی مسلم فائٹر پائلٹ)، بشریٰ ارشد (دو بچوں کی ماں آئی پی ایس افسر)، فلک ناز (نیشنل وومن کرکٹ ٹیم کھلاڑی)، یہ ہیں اکیسویں صدی کی ابھرتی مسلم خواتین۔ جی ہاں، ان چاروں نوجوان مسلم لڑکیوں نے پچھلے ایک سال میں مسلم خواتین کی برسوں پرانی امیج توڑ دی۔ ابھی حال تک بلکہ اب بھی حجاب، چہار دیواری میں قید اور طرح طرح کی سماجی زنجیروں میں جکڑی! یہ تھی مسلم خواتین کی امیج جو تین طلاق سے پریشان گھٹ گھٹ کر جینا اپنا مقدر سمجھتی تھیں لیکن اب وہ نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑی ہونے کے لیے تیار ہیں بلکہ وہ ہندوستان کے سب سے اہم شعبوں میں اپنی جگہ بنا رہی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اوپر جن چار لڑکیوں کا ذکر کیا گیا وہ سب غریب اور معمولی گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ مثلاً ثنا علی مدھیہ پردیش کے ایک چھوٹے سے شہر میں رہنے والے ایک ٹی وی میکینک کی بیٹی ہے۔ اسی طرح ثانیہ مرزا اتر پردیش کے چھوٹے سے شہر مرزا پور کے ایک غریب باپ کی بیٹی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلم معاشرہ ایک کروٹ لے رہا ہے کیونکہ اس تبدیلی کی لہر غریب گھرانوں تک پہنچ چکی ہے۔

بابری مسجد انہدام کے بعد سے اب تک یہ مسلم معاشرے کی سب سے اہم خبر ہے۔ کیونکہ پچھلی تقریباً تین دہائیاں ہندوستانی مسلمانوں کے لیے آزاد ہندوستان کا سب سے سخت دور رہا ہے۔ بٹوارے کے وقت جو فرقہ واریت کا سیلاب تھا وہ گاندھی جی اور پنڈت نہرو نے روک لیا تھا۔ لیکن سنہ 1986 میں بابری مسجد کا تالا کھلنے کے بعد سے اب تک سنگھ اور بی جے پی نے جو نفرت کا سیلاب بپا کیا وہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان دنوں ہندوستانی مسلمان کا عرصہ حیات تنگ ہو چکا ہے۔ وہ خوف کی زندگی جی رہا ہے۔ اسے یہ علم نہیں کہ وہ کب موب لنچنگ کا شکار ہو جائے یا کب اس کا مکان بلڈوزر کی نذر ہو جائے! ان حالات کے بیچ سنگھ کے مکھیا کی دھمکی ان کے لیے اور خوفناک بات ہے۔ ایسے ماحول میں کسی بھی قوم کے لیے کوئی اہم قدم اٹھا پانا تقریباً ناممکن سی بات لگتی ہے۔ لیکن کبھی کبھی قوموں پر پڑنے والی مصیبتیں اس کے لیے نئے راستے کھول دیتی ہے۔ مثلاً ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد ہندوستانی مسلمان بے سر و سامانی کے عالم میں پہنچ گیا تھا۔ ان سخت حالات میں ہی قوم نے ایک سر سید پیدا کیا جس نے قوم کو ایک نیا راستہ سجھایا۔ سر سید کا پیغام یہی تھا کہ بیتے ہوئے دور پر آنسو بہانا کافی نہیں بلکہ مشکلات میں کھڑے ہو اور انگریزی تعلیم و نئے دور کی سائنس و ٹیکنالوجی کو اپنا کر خود اپنے پیروں پر کھڑے ہو۔ سر سید کے اس پیغام نے اس وقت ہندوستانی مسلمان کی دنیا بدل دی۔


حالات آج بھی کچھ ویسے ہی ہیں۔ ہندوستانی مسلمان کا نہ تو ووٹ کارگر رہا اور نہ ہی سماج میں اس کی وقعت رہی۔ اس بے کسی کے عالم میں محض آنسو بہانے یا پھر سنگھ و بی جے پی کو ہر وقت برا بھلا کہنے سے کام نہیں چلنے والا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندوستانی مسلمان خود اپنا محاسبہ کرے اور سمجھے کہ آخر اس سے کیا غلطی ہوئی کہ وہ غلامی کے دہانے پر پہنچ گیا! کیونکہ اس ہندوستان میں کم از کم 800 برس اس نے بادشاہت بھی کی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلم قوم کا اقلیت میں ہونا محض اس کی بدقسمتی کا سبب نہیں ہو سکتا ہے۔ کیونکہ جب وہ شاہی دور میں تھا تو اس کی تعداد آج سے بھی کم تھی۔ غلطی اگر کوئی ہوئی ہے تو محض وہی جس کی نشاندہی سر سید نے کی تھی۔ یعنی مسلم قوم تعلیم میں پیچھے رہ گئی اور دوسرے آگے نکل گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بابری مسجد بحران کے دور میں ہندوستانی مسلمان کو اس بات کا احساس تو ہوا کہ وہ تعلیم میں پیچھے رہ گیا۔ آج ایک غریب ماں باپ بھی اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے لیے کوشاں ہے۔ وہ ثنا علی کی کامیابی ہو یا ثانیہ مرزا کی کامیابی، یہ ان کے ماں باپ کی ہی لگن اور تربیت تھی جس نے ان بچیوں کی قسمت بدل دی۔ لہٰذا یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کا ہندوستانی مسلم معاشرہ تعلیم حاصل کرنے کو بے چین ہے۔ بس یہی ایک اہم بات ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کیسی اور کون سی تعلیم حاصل کرے! سر سید نے مسلمان کو یہ بتایا تھا کہ جدید دور میں انگریزی اور سائنس و ٹیکنالوجی پر مہارت حاصل کیے بنا ترقی ممکن نہیں ہے۔ یہ بات اپنی جگہ آج بھی سہی ہے۔ لیکن زمانہ کبھی ٹھہرا نہیں رہتا ہے۔ آج کا دور سر سید کے دور سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ آج محض انگریزی اور سائنس کی چھوٹی موٹی ڈگری کام نہیں دینے جا رہی ہے۔ اکیسویں صدی ’ڈیجیٹل سنچری‘ ہے۔ اس دور میں آپ اگر کمپیوٹر پر دسترس نہیں رکھتے تو آپ کی بازار میں کوئی ویلیو نہیں ہے۔ اس لیے آج ترقی کے لیے انگریزی و سائنس کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر اور آئی ٹی سیکٹر میں مہارت ہونی چاہیے۔ اس لیے چاہے وہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں، سب کو محض اسمارٹ فون چلانا ہی نہیں بلکہ آئی ٹی سیکٹر کا ہنر سیکھنا لازمی ہے۔ یہ ہنر کا دور ہے۔ اس دور میں ایک ہنر مند انسان ایک ایم اے اور بی اے کی ڈگری رکھنے والے انسان سے کہیں زیادہ کامیاب ہوتا ہے۔ ہندوستانی مسلم معاشرے میں ہنر مندوں کی کمی نہیں، لیکن ان کے پاس اپنے ہنر کی ڈگری نہیں۔ اس لیے انگریزی اور سائنس کے ساتھ ساتھ کسی ہنر کی ڈگری بھی حاصل کیجیے اور پھر دیکھیے کہ آئی ٹی کی سمجھ کے ساتھ آپ کیا کچھ نہیں حاصل کر سکتے۔ دوسرا راستہ وہ ہے جو ثنا علی اور ثانیہ مرزا نے اپنایا۔ یعنی زندگی کے جس شعبے میں آپ جانا چاہتے ہیں، آپ میں سخت لگن اور محنت سے ہر حال میں اس کو حاصل کرنے کا جنون ہونا چاہیے۔ پھر دیکھیے وہ سائنس کا میدان ہو یا پھر ہوا میں اڑنے کی خواہش، یا پھر کھیل اور سرکاری بڑی سے بڑی نوکری سب آپ کے قدم چومے گی۔ ثنا، ثانیہ جیسوں کے ساتھ یہی تو ہوا اور وہ اس مودی کے دور میں بھی ترقی کی بلندیوں تک پہنچ گئیں۔


ثنا اور ثانیہ کی کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں لیکن اگر آپ میں ترقی کا جنون و جذبہ ہے تو آپ کو بی جے پی یا سنگھ نہیں روک سکتی ہے، اس لیے سب کچھ بھول کر پوری قوم کو ترقی کے لیے ثنا و ثانیہ جیسا جنون پیدا کرنا ہوگا اور پھر کوئی بھی آپ کو ترقی سے روک نہیں پائے گا۔ یعنی اپنے حالات پر محض آنسو نہ بہائیں بلکہ تعلیم کے جنون میں ڈوب جائیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 22 Jan 2023, 10:11 AM