مذہبی قائد کب اپنا کردار ادا کریں گے؟... سید خرم رضا

تعلیم اور پیسوں کی کمی کی وجہ سے مسلمانوں کا بڑا طبقہ صحیح سمت سے محروم رہ جاتا ہے اور وہ جرائم کے گڈھے میں گر جاتا ہے جہاں سے اس کو نکالنے والا کوئی نہیں ہوتا۔

علامتی، تصویر آئی اے این ایس
علامتی، تصویر آئی اے این ایس
user

سید خرم رضا

کرکٹ میں اظہرالدین ہوں یا عرفان پٹھان، ٹینس میں ثانیہ مرزا ہوں یا فلموں میں سلمان خان یا ہما قریشی، ہندوستانی مسلمان ان ناموں کو لے تھوڑا فخر محسوس کرتا ہے کیونکہ اس کو لگتا ہے کہ اس کے جیسے نام والے لوگ بھی نام کما رہے ہیں اور یہ ایک فطری بات ہے۔ خاندان میں کوئی آئی اے ایس یا میڈیکل کا اگزام پاس کر لیتا ہے تو پورا خاندان خوشی کا اظہار کرتا ہے اور ایسا ظاہر کرتا ہے جیسے اس نے خود یہ کارنامہ انجام دیا ہو۔ وہ بتاتا ہے کہ فلاں بچہ یا بچی ہماری رشتہ دار ہے۔ ایسے ہی جب کوئی نام سے مسلمان لگتا ہے اور کامیابی حاصل کرتا ہے تو ہندوستانی مسلمان بطور ہندوستانی تو خوش ہوتے ہی ہیں ساتھ میں کامیاب ہونے والے شخص کا مسلمان ہونے پر بھی اس کی جو خوشی علیحدہ سے ہوتی ہے وہ تنخواہ کے ساتھ بونس ملنے والی خوشی جیسی ہوتی ہے۔

ویسے تو فرقہ اور طبقہ کی حدود سے اوپر ہو کر سوچنا چاہئے لیکن، یہ انسان ہے اور ایسا ہونا فطری بات ہے۔ اس کا تعلق خوشی تک محدود نہیں ہے بلکہ اگر کوئی برائی بھی ہوتی ہے تو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ ویسے تو بہت سارے مسائل ہیں لیکن اگر جیلوں میں سزا کاٹنے والے قیدیوں کی تعداد کو دیکھا جائے تو اس میں جو تعداد مسلمانوں کی ہے وہ بھی ذہن کو کافی پریشان کرنے والی ہے۔


ہندوستان میں اگر سرکاری اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو ہندو طبقہ کی کل آبادی 80 فیصد ہے اور مسلمانوں کی آبادی 15 فیصد ہے۔ باقی دیگر سماجی طبقے آبادی کا حصہ ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے اعداد و شمار کے مطابق جیلوں میں جو قیدی بند ہیں ان میں مسلمانوں کی تعداد 18 فیصد ہے، یعنی اگر ملک میں ان کی آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو قیدیوں کی تعداد اس سے تقریبا تین فیصد زیادہ ہے۔ اس کے برعکس ملک میں ہندو ؤں کی آبادی 80 فیصد ہے اور جیلوں میں بند ہندو قیدیوں کی تعداد تقریبا 67 فیصد ہے۔ یعنی ملک میں ہندوؤں کی مجموعی آبادی سے 13 فیصد کم۔

جیلوں میں بند قیدیوں کی جو تعداد ہے وہ اس بات کا عکاس ہے کہ طبقوں میں کیا رجحانات ہیں اور ان کے کیا مسائل ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کے بہت سارے مسائل ہیں لیکن سب سے بڑا مسئلہ تعلیم کی کمی ہے اور تعلیم کی کمی کے ساتھ معاشی طور پر کمزور ہونا بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ تعلیم کی کمی کی وجہ سے جہاں نوجوان طبقہ میں مایوسی اور اعتماد کی کمی آتی ہے وہیں اس کے سرپرستوں میں اس کو لے کر غصہ بڑھتا ہے کیونکہ نوجوان کو ایک لمبے وقت تک بے روزگاری کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ پہلی نسل کی تعلیم کی کمی کی وجہ سے وہ نہ تو اپنی اولاد کی صحیح پرورش کر پاتے ہیں اور نہ ہی اس کو صحیح طور پر گائیڈ کر سکتے ہیں۔ دھیرے دھیرے پورا خاندان آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے ہوتا چلا جاتا ہے اور مزید غریب ہوتا چلا جاتا ہے جس کی وجہ سے خاندان کے کچھ افراد جرائم میں بھی ملوث ہو جاتے ہیں۔ اقتصادی طور پر کمزوری کی وجہ سے نہ تو وہ اپنا کیس صحیح طرح پیش کر پاتے ہیں اور نہ ہی آگے کی زندگی کو واپس پٹری پر لا پاتے ہیں۔


تعلیم اور پیسوں کی کمی کی وجہ سے مسلمانوں کا بڑا طبقہ صحیح سمت سے محروم رہ جاتا ہے اور وہ جرائم کے گڈھے میں گر جاتا ہے جہاں سے اس کو نکالنے والا کوئی نہیں ہوتا جبکہ سماج کے دوسرے طبقوں کے پاس وسائل بھی ہیں اور ان کو گڈھے سے نکالنے کے ذرائع بھی ہیں۔ یہاں سماجی اور مذہبی قیادت کا کردار سامنے آ تا ہے۔ سماجی قائد کو جہاں حصول تعلیم اور حصول معاش پر نوجوانوں کی رہنمائی کرنی چاہئے وہیں مذہبی قیادت کو مذہبی قصوں اور جنت کے خوابوں کے علاوہ جدید تعلیم اور اقتصادی وسائل کے بارے میں نوجوانوں کو بتانا چاہئے۔

ہمارے کتنے امام ہیں جو علاقہ کے بچوں سے یا ان کے والدین سے بچوں کی اسکولی تعلیم کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں، کتنے امام ہیں جو بچوں کی اسکولی تعلیم کے تئیں فکر کا اظہار کرتے ہیں یا امتحانات کے وقت گھر والوں کو بچوں کی تعلیم پر زور دینے کے لئے مشورہ دیتے ہیں۔ شائد ہی کوئی ہو۔ یہی حال سماجی رہنماؤں کا ہے۔ تھوڑا بہت کچھ غیر سرکاری تنظیمیں اور ادارے اپنے طور پر کام کر رہے ہیں جس کی وجہ سے کچھ مدد مل جاتی ہے لیکن وہ ناکافی ہے کیونکہ مرض بڑا ہے۔ اگر ہم نے اپنی سوچ نہیں بدلی تو یہ آبادی کے مقابلہ قیدیوں کی تعداد میں جو رجحان ہے اس میں اضافہ ہی ہو سکتا ہے، کمی نہی۔ دیگر مسائل سے بھی ہم جبھی لڑ سکتے ہیں جب ہم اس محاذ پر مضبو ط ہو جائیں۔ مذہبی اور سماجی رہنماؤں کو حصول معاش اور حصول تعلیم کو اپنا مقصد بنانا چاہئے۔ ایسا کرنے سے ہی اقلیتیں منفی سوچ سے باہر آ سکتی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 16 Oct 2021, 2:11 PM