ایودھیا کے بعد یو سی سی، ہندو ووٹ حاصل کرنے کی خواہش

اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ کو قانونی شکل دینے کی تیاریوں کے درمیان بڑا سوال یہ ہے کہ مختلف برادریوں کی خواتین اس کے بارے میں کیسا محسوس کرتی ہیں؟

<div class="paragraphs"><p>Getty Images / سوشل میڈیا</p></div>

Getty Images / سوشل میڈیا

user

رشمی سہگل

لوک سبھا کے انتخابات سر پر ہیں اور وزیر اعظم نریندر مودی شاید یہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے تین انتخابی وعدوں آرٹیکل 370 کو ختم کرنا، رام مندر کی تعمیر، اور یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کے نفاذ کو پورا کرنے کی بنا پر عوام کے درمیان جا کر اپنی پیٹھ تھپتھپا سکیں۔

چونکہ شادی، طلاق، گود لینے اور وراثت کے معاملات میں ذاتی قوانین کا ایک مشترکہ سیٹ بنانا ایک پیچیدہ اور متضاد مسئلہ ہے، اس لیے مودی نے یونیفارم سول کوڈ (یو سی سی) کو ایک غیر شفاف طریقے سے نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اسے نافذ کرنے والا پہلا صوبہ اتراکھنڈ ہوگا۔ وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے اعلان کیا ہے کہ بل کو منظور کرنے کے لیے 5 فروری کو خصوصی اسمبلی اجلاس طلب کیا جا رہا ہے۔

دقت یہ ہے کہ ریاستی لا کمیشن نے بھی اس کا درست طریقے سے مطالعہ نہیں کیا ہے۔ سپریم کورٹ کی سابق جج رنجنا پرکاش دیسائی سمیت پانچ رکنی کمیٹی کی سفارشات کو 22 دسمبر، 2023 کو دھامی کی صدارت میں ریاستی کابینہ نے منظور کیا تھا۔ مگر بل کا مسودہ صوبائی اسمبلی کے 70 اراکین کو فراہم نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس کی تفصیلات عام کی گئیں۔ مضمون تحریر کئے جانے تک کچھ بھی عوام کے سامنے نہیں آیا ہے۔ یہ بحث ہے کہ اتراکھنڈ اسمبلی میں بل کی منظوری کے بعد گجرات اور آسام بھی ایسا ہی کر سکتے ہیں۔

دہلی ہائی کورٹ کی فوجداری مقدمات کی وکیل اور اقوام متحدہ کے پیس کیپنگ سینٹر کی سابق رکن خدیجہ کا کہنا ہے، ’’عام انتخابات میں جیت کے لیے یہ حکومت کی جانب سے برادریوں کو تقسیم کرنے کی ایک اور قابل مذمت کوشش ہے۔ میں نے مسودہ نہیں دیکھا لیکن مجھے یقین ہے کہ اس میں مسلم اقلیت کو نشانہ بنایا گیا ہوگا۔ میں ایک گڑھوالی مسلم خاتون ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر حکومت مشترکہ یونیفارم سول کوڈ لانے کے لیے سنجیدہ تھی تو مسودہ تیار کرنے والی کمیٹی میں تمام اقلیتی برادریوں - مسلمانوں، پارسیوں، سکھوں، یہودیوں اور بدھ مت کے افراد کو شامل کیوں نہیں کیا؟ اس کے لیے ہر نقطہ نظر کا خیال رکھا جانا چاہیے تھا۔


خدیجہ مزید کہتی ہیں، ’’ایک تعلیم یافتہ مسلم خاتون کے طور پر مجھے مسلم پرسنل لاء کبھی امتیازی سلوک کرنے والا نہیں لگا۔ میری والدہ کے پاس کوئی رسمی تعلیم نہیں تھی۔ انہوں نے جائیداد کو میرے بھائیوں اور میرے درمیان منصفانہ طور پر تقسیم کیا اور میں نے کبھی بھی کام یا گھر کے اندر کسی امتیاز کا سامنا نہیں کیا۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ اگر وہ یونیفارم سول کوڈ لانا چاہتے ہیں، تو خواتین کو مذہبی تقریبات یا شہری شادی کے درمیان انتخاب کا حق ہونا چاہیے۔ اگر وہ یکسانیت لانا چاہتے ہیں، تو انہیں ہندو قانون کے اندر موجود تضادات کو بھی حل کرنا ہوگا کیونکہ شمالی ہندوستان میں شادی کے قوانین جنوبی ہندوستان میں رائج شادی کے قوانین سے بہت مختلف ہیں۔ اسی طرح، ہر ریاست میں جائیداد کے قوانین بھی مختلف ہیں اور ان کا حل نکالا جانا چاہیے۔

کثریت ازدواج کے متعلق سوال کیے جانے پر خدیجہ نے کہا کہ یہ مسلمانوں کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے اور یہ بی جے پی کے اکثریتی ایجنڈے کا حصہ ہے، جس سے اقلیتی برادری کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وہ 1961 کی مردم شماری کا حوالہ دیتی ہیں جس میں ایک لاکھ سے زیادہ شادیوں کی معلومات اکٹھی کی گئی تھیں۔ اس میں یہ پایا گیا کہ مسلمانوں میں کثرت ازدواج کی شرح 5.7 فیصد تھی جو کہ تمام برادریوں میں سب سے کم تھی۔

عیسائی برادری سے تعلق رکھنے والی مصنفہ اور صحافی پامیلا فلیپوز کا خیال ہے کہ یونیفارم سول کوڈ کو پہاڑی ریاست اتراکھنڈ میں مسلم آبادی والے علاقوں کو نسلی طور پر 'شدھ' بنانے کے لیے ریاستی حکومت کے مشن کے حصہ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، جیسا کہ انہوں نے دو سال پہلے 'لو جہاد' کا حوا کھڑا کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ کئی نسلوں سے یہاں رہنے والے مسلم خاندانوں کو اپنے گھروں اور کاروبار کو چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

فلیپوز کا خیال ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) عیسائی برادری پر حملے تو کرتی ہے لیکن اصل تنقید مسلمانوں کے خلاف ہوتی ہے، جن کو وہ 'مجرم' ثابت کرنا چاہتی ہیں، جیسے کہ انہوں نے تین طلاق پر پابندی لگا کر کیا تھا۔ بی جے پی ان کے ذاتی قوانین کو ختم کرنے کی خواہشمند ہے؛ اس کا مقصد ان کے سماجی ڈھانچے پر حملہ کرنا، ان کو تنہا کر کے تباہ کرنا اور ان کو اچھوت حیثیت میں لانا ہے۔


پوڑی گڑھوال، اتراکھنڈ میں پیدا ہونے والی عیسائی سرگرم کارکن سونل کیلوگ اس وقت احمدآباد میں کام کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم اقلیتوں کے لیے جگہ محدود ہوتی جا رہی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ مستقبل میں ہمیں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ گرجا گھروں پر بڑھتے حملوں کے بارے میں کیلوگ نے کہا کہ عام طور پر پادری ہی وہ شخص ہوتا ہے جس پر پولیس مقدمہ درج کرتی ہے اور آخر میں کیا ہوتا ہے؟ عدالتوں اور وکیلوں پر بہت سارا پیسہ خرچ کرنے کے بعد بھی حملہ آور بچ نکلتے ہیں۔

جب آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس (آئی آئی ٹی یو سی) کی جنرل سیکریٹری امرجیت کور سے، جو کہ ایک سکھ خاتون ہیں، یو سی سی کے بارے میں ان کی رائے پوچھی گئی تو انہوں نے جواب دیا، ’’کیا انہوں نے ہم میں سے کسی سے اس موضوع پر بات کی ہے؟ کیا انہوں نے مسودہ عوامی سطح پر پیش کیا ہے؟ یہ صرف ایک انتخابی داؤ ہے اور ان کا مقصد صرف اقلیتوں کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کرنا ہے۔‘‘ کور کا کہنا ہے کہ تمام مذہبی قوانین خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کرتے ہیں اور یہ ہونا چاہیے تھا کہ اس مشق کا مقصد ان امتیازات کو ختم کرنے کے لیے مرحلہ وار ترمیمات پیش کی جائیں۔

کور کہتی ہیں، ’’ہر پرسنل قانون کو جنسی انصاف کی نظر سے دیکھا جانا چاہیے۔ ایک مثال لیں، بچوں کی شادی کی اجازت نہیں ہے لیکن جب خاندان اپنی 18 سال سے کم عمر کی بیٹیوں کی شادی کر دیتے ہیں اور پھر وہ اپنے شوہروں کے ساتھ رہنا شروع کر دیتی ہیں، تو شادی تب تک جائز سمجھی جاتی ہے جب تک کوئی شکایت نہیں کرتا۔ لیکن اگر 18 سال سے کم عمر کی لڑکی کسی لڑکے کے ساتھ اپنی مرضی سے چلی جاتی ہے اور اس کے والدین شکایت کرتے ہیں، تو لڑکے پر بچی سے زیادتی کا مقدمہ درج کیا جائے گا۔ یہ ایک تضاد ہے کیونکہ ایک معاملے میں لڑکے پر زیادتی کے لیے قانون کے تحت مقدمہ چلایا جاتا ہے جبکہ دوسرے میں اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ ان تضادات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘


زینت امان کی والدہ بیگم اعجاز رسول آزاد ہندوستان کی پہلی مسلم خاتون تھیں جو یو پی کی غیر محفوظ نشست سے اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ ان کا خیال ہے کہ یو سی سی کو 'نیک نیتی' کے ساتھ پیش نہیں کیا جا رہا، خصوصاً اس لیے کہ جب سے وزیر اعظم نے ایودھیا کے مندر کا افتتاح کیا ہے، ہم بظاہر ایک سیکولر ریاست نہیں رہے۔ زینت مسلم علماء پر تنقید کرتی ہیں جن کے بارے میں ان کا ماننا ہے کہ وہ بہت پسماندہ ہیں اور انہوں نے روایت پسند مسلمانوں کی مدد کے لیے بہت کم کام کیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’لیکن مودی نے پورے ملک میں مسلم مخالف جذبات پھیلانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔‘‘ زینت کی بیٹی نے ایک ہندو سے شادی کی ہے اور وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کہ مختلف مذاہب کے درمیان شادی کو 'لو جہاد' کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے؟

ملک کی آبادی میں قبائلی افراد کا تقریباً نو فیصد حصہ ہے۔ وہ صدیوں سے اپنے روایتی قوانین اور رسومات کی پیروی کرتے ہیں۔ ان کی اپنی قبائلی عدالتیں ہیں جو شادی، طلاق، وراثت اور بچہ گود لینے جیسے معاملات کو حل کرتی ہیں، اور انہیں خدشہ ہے کہ یکساں قانون کا مطلب ان کی شناخت اور ثقافت کا زوال ہو سکتا ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کا دعویٰ ہے کہ جب تک ہندوستان یکساں سول کوڈ اختیار نہیں کرتا، جنسی مساوات حاصل نہیں ہو سکتی۔ اقلیتیں یونیفارم سول کوڈ کو نافذ کرنے کے وقت پر سوال اٹھاتے ہیں اور یہ مانتے ہیں کہ یہ قدم ہندو ووٹوں کو متحد کرنے کی نیت سے اٹھایا گیا ہے تاکہ آئندہ عام انتخابات میں جیت حاصل کی جا سکے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔