کھٹر صاحب، روزگار ہیں تو لوگ اسرائیل تک جانے کو بے چین کیوں ہیں؟

جنگ زدہ اسرائیل کی کمپنیوں میں بھرتی کی امید میں کیمپوں میں لمبی قطاروں میں کھڑے ہریانہ اور اتر پردیش کے نوجوانوں کی تصاویر اب مرکزی میڈیا میں بھی شائع ہو رہی ہیں

<div class="paragraphs"><p>اسرائیل میں ملازمت کے لیے ہندوستانی نوجوانوں کی&nbsp; قطاریں / Getty Images</p></div>

اسرائیل میں ملازمت کے لیے ہندوستانی نوجوانوں کی قطاریں / Getty Images

user

دیویاندو

دیویاندو

جنگ زدہ اسرائیل کی کمپنیوں میں بھرتی کی امید میں کیمپوں میں لمبی قطاروں میں کھڑے ہریانہ اور اتر پردیش کے نوجوانوں کی تصاویر اب مرکزی میڈیا میں بھی شائع ہو رہی ہیں اور جو یہ دکھانے کے لیے کافی ہیں کہ کم از کم ان دو ریاستوں میں روزگار کی صورتحال کیا ہے۔ دراصل، ہریانہ اور اس سے ملحقہ اتر پردیش میں اسرائیل کے لئے مزدوروں کی بھرتی کی مہم ان دنوں بڑے پیمانے پر جاری ہے۔ اس کے تحت تعمیراتی مزدوروں، بڑھئیوں، پینٹروں، مستریوں وغیرہ کو تقریباً دو لاکھ روپے ماہانہ کی تنخواہ کا وعدہ کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں، وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کے اس دعویٰ کی حقیقت خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ انہوں نے اپنے تقریباً 9 سالہ دور حکومت میں لاکھوں سرکاری ملازمتیں فراہم کی ہیں! ابھی 25 جنوری کو کھٹر نے حصار میں ایک تقریب میں دعویٰ کیا کہ انہوں نے اپنے ساڑھے نو سال کے دور حکومت میں ریاست کے تقریباً 30 لاکھ لوگوں کو روزگار فراہم کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہریانہ میں بے روزگاری کی شرح اتنی نہیں ہے جتنی کہ حزب اختلاف ’سیاسی پروپیگنڈا‘ کے تحت بتاتی رہی ہے۔

کانگریس کے رکن پارلیمنٹ دیپیندر ہڈا نے جوابی حملہ کرتے ہوئے نہ صرف اسرائیلی کمپنیوں کے لیے بھرتی مہمات کی طرف توجہ دلائی بلکہ یہ بھی کہا کہ وزیر اعلیٰ کو یہ بتانا چاہیے کہ ہریانہ میں 30 لاکھ نوکریاں کب نکلیں، کب امتحان یا انٹرویو ہوئے اور کب تقرری نامے جاری ہوئے؟ انہوں نے چیلنج دیا کہ اگر یہ بات سچ ہے تو وزیر اعلیٰ ان 30 لاکھ لوگوں کی فہرست جاری کر دیں۔ انہوں نے یہ سوال بھی کیا کہ اگر حکومت مستقل نوکریاں دے رہی ہے تو سرکاری محکموں میں تقریباً 2 لاکھ عہدے خالی کیوں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت روزگار دے رہی ہے تو پھر مرکزی حکومت کی رپورٹ میں ہی بے روزگاری کے معاملے میں ہریانہ نمبر ایک پر کیوں ہے؟ گزشتہ سال پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں ایک تحریری جواب میں مرکزی حکومت نے بتایا تھا کہ ہریانہ میں بے روزگاری کی شرح 9 فیصد ہے۔ کانگریس نے اس بارے میں کہا تھا کہ ہریانہ میں کانگریس کے دور حکومت میں بے روزگاری کی شرح 2.9 فیصد تھی، یعنی پچھلے 9 سالوں میں ہریانہ میں یہ شرح تین گنا بڑھ گئی ہے۔


انتخابات کے دوران چوٹ دینے کی تیاری

سال 2014 اور 2019 کے عام انتخابات میں کانگریس کو ہریانہ میں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہاں دس لوک سبھا نشستیں ہیں لیکن کانگریس کو ایک پر بھی کامیابی نہیں مل سکی تھی۔ البتہ، 2019 کے اسمبلی انتخابات میں وہ جیت کے کافی قریب رہی۔ اس لئے اس بار مئی کے عام انتخابات اور اسی سال اکتوبر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے لئے کانگریس رہنماؤں نے پہلے ہی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ بھوپندر سنگھ ہڈا اور ان کے بیٹے راجیہ سبھا کے رکن دیپندر ہڈا، کماری شیلجا، رندیپ سرجےوالا اور کرن چودھری کی قیادت میں ہریانہ کے مختلف حصوں میں جن آکروش ریلیاں منعقد کی جا رہی ہیں۔ ان کا ہدف مرکز کی نریندر مودی حکومت کے ساتھ ہریانہ کی بھارتیہ جنتا پارٹی-جن نایک جنتا پارٹی (جے جے پی) کی حکومت بھی ہے۔

دراصل، ہریانہ میں بی جے پی-جے جے پی اتحاد کے درمیان پچھلے کچھ مہینوں سے سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے۔ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور الزامات لگانے میں مصروف ہیں۔ یہ معاملہ لوک سبھا سیٹوں تک بھی پہنچ گیا ہے، جس میں سابق مرکزی وزیر چودھری ویریندر سنگھ اور ہریانہ کے ڈپٹی سی ایم دشینت چوٹالہ آمنے سامنے آ چکے ہیں۔ جے جے پی نے بھی انتخابات میں اپنے امیدوار کھڑے کرنے کی دھمکی دی ہے۔ عوام کے درمیان اس رسہ کشی اور مہنگائی، بے روزگاری، کسانوں کے مسائل اور بدعنوانی کے مسائل کی وجہ سے کانگریس میدان میں کود پڑی ہے۔


گزشتہ ماہ دسمبر میں جند کے بعد جنوری میں کروکشیتر اور پھر جھجر میں منعقدہ ریلیوں میں بھوپیندر سنگھ ہڈا نے اپنے دور حکومت میں کیے گئے کاموں کی یاد دلائی۔ اس کے ساتھ انہوں نے بتایا کہ اگر یہاں کانگریس کی حکومت بنی تو پرانا پنشن سسٹم نافذ کیا جائے گا، بزرگوں کی پنشن 6 ہزار روپے تک بڑھا دی جائے گی، کسانوں کو ایم ایس پی کی ضمانت دی جائے گی، حکومت بننے پر کابینہ کے پہلے اجلاس میں 2 لاکھ سرکاری نوکریاں دینے، 300 یونٹ مفت بجلی اور 500 روپے میں ایل پی جی سلنڈر وغیرہ دینے کے فیصلے کیے جائیں گے۔ ہریانہ کی کھٹر حکومت نے 'پریوار پہچان پتر' کا نظام نافذ کیا ہے۔ اس کی شدید مخالفت ہو رہی ہے۔ کانگریس لیڈر وعدہ کر رہے ہیں کہ حکومت بننے کے بعد اس نظام کو ختم کر دیا جائے گا۔

اگرچہ مین اسٹریم میڈیا اس بات کی تشہیر میں مصروف ہے کہ کانگریس کا نام نہاد 'ایس آر کے' گروپ یعنی کماری سیلجا، رندیپ سرجے والا اور کرن چودھری الگ الگ مہم میں مصروف ہیں، لیکن کانگریس کے ہریانہ ریاستی صدر چودھری اودے بھان کے ساتھ بھوپیندر سنگھ ہڈا اور پوری ریاست میں ایگزیکٹیو کی موجودگی کی وجہ سے نہ صرف کانگریس کارکنان بلکہ عام لوگ بھی عوامی احتجاجی ریلیوں اور 'گھر گھر کانگریس' مہم کے ساتھ آنے لگے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔