نتیش کمار کی پھر مفاد کو ترجیح، بھگوا خیمہ کے سامنے خودسپردگی!

جے ڈی یو سربراہ نتیش کمار کے پلٹی مارنے کا اثر بہار کے ساتھ ساتھ پورے ملک کی سیاست پر پڑے گا جہاں ووٹر بی جے پی کو پسند نہیں کرتے

<div class="paragraphs"><p>نتیش کمار / Getty Images</p></div>

نتیش کمار / Getty Images

user

نواب علی اختر

ملک کی سب سے پرانی پارٹی اور تجربہ کار کانگریس کی قیادت بانیان ملک سے لے کر پارٹی کارکنان تک کر چکے ہیں، باوجود اس کے سیاسی مخالفین کانگریس کو کسی نہ کسی طور پراس لئے تنقید کا نشانہ بناتے رہے کہ یہ پارٹی قیادت کے لیے کسی بھی غیر کانگریسی چہرے پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں ہوتی۔ مگر کانگریس ہائی کمان نے پارٹی کے وفادار ملک ارجن کھڑگے کو کمان سونپ کر مخالفین کے منہ پر تالا جڑ دیا مگر اب جبکہ ’انڈیا‘ کی تشکیل ہوئی ہوئی تو مخالفین کو پھر بولنے کا موقع مل گیا اور وہ یہاں تک کہنے لگے کانگریس کو نتیش کمار جیسے تجربہ کار لیڈر پر بھروسہ کرنا چاہئے اور انہیں اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کی قیادت سونپ دینا چاہئے۔ لیکن اب نتیش کی وکالت کرنے والے وہی مخالفین خود اپنا منہ چھپائے پھرتے نظر آ رہے ہیں۔

ایسی صورت میں کانگریس کے ایک اور داخلی ’فیصلے‘ نے ووٹروں کا وقار مجروح ہونے سے بچا لیا اور خود بھی یہ کہنے کی پوزیشن میں ہے کہ بھروسہ کے لائق جب کوئی لیڈر ملے تب تو اس پر بھروسہ کیا جائے۔ کیونکہ نتیش کمار نے اس بار بھی حسب عادت مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے بھگوا خیمہ کے سامنے خودسپردگی کرنا گوارہ کر لیا ہے۔ حالانکہ جہاں تک ماہرین سیاست کا کہنا ہے کہ کانگریس کی قیادت والے ’انڈیا اتحاد‘ میں نتیش کمار کا مستقبل روشن نظر آ رہا تھا، جے ڈی یو رہنما نے بی جے پی سے ہاتھ ملا کر اپنے پیروں پر خود ہی کلہاڑی مار لی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تیش پر جہاں سیاسی رہنماؤں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے وہیں ریاست کے ووٹروں کا بھی نتیش پر سے بھروسہ اٹھنا فطری ہے۔

چند ماہ قبل 5 ریاستوں کے جاری انتخابات کے دوران ایک صحافی نے پولنگ بوتھ سے باہر آنے والے شخص سے پوچھا ،ووٹ دے آئے؟ اس نے کہا- ہاں۔ صحافی نے پھر پوچھا کہ کیا لگ رہا ہے آپ کو، بی جے پی حکومت بنا پائے گی یا نہیں؟ ووٹر کا جواب تھا کہ ہمارے کہنے یا نہ کہنے سے کیا ہوتا ہے، ہم جن کو ووٹ دے کر آ رہے ہیں ،اگر وہی بی جے پی میں چلے جائیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟ یہ محض ایک ووٹر کا عام تبصرہ نہیں بلکہ سیاسی پارٹیوں پر لوگوں کے بڑھتے ہوئے عدم اعتماد کی علامت تھی۔ لوک سبھا انتخابات سے عین قبل وہی نتیش کمار، جو ’انڈیا‘ کا اہم حصہ تھے اور جنہیں وزیر اعظم عہدے کے امیدوار کا دعویدار مانا جاتا تھا، ان کا ’پلٹو رام‘ بننا سیکولر ووٹروں کے اعتماد کو توڑنے کے مترادف ہے۔

جے ڈی یو سربراہ نتیش کمار کے پلٹی مارنے کا اثر بہار کے ساتھ ساتھ پورے ملک کی سیاست پر پڑے گا جہاں ووٹر بی جے پی کو پسند نہیں کرتے۔ سب سے زیادہ وہ حصہ متاثر ہوگا جسے سیکولر، ترقی پسند اور غیر بی جے پی ووٹر کہا جاتا رہا ہے۔ اس کے سامنے ’دھرم سنکٹ‘ پیدا ہونا فطری ہے کہ آخر وہ کس پر بھروسہ کرے؟ اس کے لیے یہ طے کر پانا مشکل ہو گا کہ وہ جس فرقہ واریت کے خلاف ووٹ دے رہا ہے وہ انتخابات کے بعد کسی نئے مساوات کے تحت فرقہ پرستوں کے ساتھ ہاتھ نہیں ملا لے گا؟ نتیش کمار نے پلٹی مارکر بہار سمیت پورے ملک میں علاقائی پارٹیوں کی شبیہ کو نقصان پہنچایا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ عوام اس لئے علاقائی پارٹیوں پر بھروسہ کرتے ہیں کیونکہ اپنے رہنما تک ’آسانی‘ سے پہنچ سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں ووٹر مخمصے کا شکار ہو جائے گا۔


اپنی سہولت کے مطابق پالا بدلنے کی وجہ سے علاقائی پارٹیاں ووٹروں میں اعتماد کھو رہی ہیں۔ ملک کے ووٹروں میں علاقائی پارٹیوں کے بارے میں یہ تاثر پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ وہ اپنی سہولت کے مطابق فیصلے کرتی ہیں۔ یوپی کے اوم پرکاش راج بھر سے لے کر بہار کے جیتن رام مانجھی تک اس کی مثالیں ہیں۔ نتیش کمار کو اپنا ماضی نہیں بھولنا چاہئے، بہار میں بڑی عوامی حمایت رکھنے کی وجہ صرف اور صرف ان کا سیکولر چہرہ رہا ہے مگر اس بار انہوں نے اپنے سیکولر چہرے پر سہولت اور مفاد کو ترجیح دے کر اپنا کیریئر داو پر لگا دیا ہے۔ اس بار ان کے سیاسی کیریئر کا ایک اہم امتحان ہوگا۔ اگر وہ لوک سبھا انتخابات میں اپنی افادیت ثابت نہیں کر پاتے ہیں تو انہیں اپنا وجود باقی رکھ پانا مشکل ہوگا۔

اگر دیکھا جائے تو زیادہ تر علاقائی پارٹیوں کی سیاست نظریات پر مبنی نہیں ہوتی ہے۔ قومی سطح کی سیاست میں ان کے کوئی بڑے خواب نہیں ہیں۔ ان کی جدوجہد اپنی ریاست میں محض وجود باقی رکھنے کے لیے ہوتی ہے۔ اس لیے وہ مقامی مساوات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا موقف بدلتے رہتے ہیں۔ جب انہیں کسی پارٹی یا اتحاد سے کچھ ملنے کی امید ہوتی ہے تو وہ اس پارٹی کا دامن تھام لیتے ہیں خواہ وہ پارٹی ان کے نظریات کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ تازہ واقعات سے یہی اشارہ ملتا ہے کہ نتیش کمار خواہ کسی طرح کے بیانات دے رہے ہوں، سچائی یہی ہے کہ وہ بہار چھوڑ کر قومی سیاست میں آنے کی کم ہی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ محسوس کرتے رہے ہیں کہ بہار کی سیاست ہی ان کے وجود کی بنیاد ہے۔ اسی وجہ سے جب وہ بہار میں اپنا وجود خطرے میں دیکھتے ہیں تو ایمان بدل لیتے ہیں۔

ایسی صورت میں ووٹروں کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ انہیں ملک کی ترقی کے ساتھ آپسی اتحاد اور بھائی چارہ چاہئے یا نعرے، دعوے اور چیخ و پکار میں ہی خوش رہنا ہے۔ اپنی رائے کا اظہار کرنے کے لئے ووٹروں کو عنقریب بڑا موقع ملنے والا ہے۔ عام انتخابات بہت قریب ہیں جس میں وہ ملک کی تقدیر لکھ سکتے ہیں۔ گزشتہ 10 سالوں کا محاسبہ کر کے اپنی رائے دینے کا بہترین موقع ہے۔ اسی کے ساتھ یہ فیصلہ بھی کرنا ہے کہ بے روزگاری، مہنگائی، فرقہ پرستی کو ٹھوکر مار کر خوشگوار ماحول میں زندگی گزارنا ہے یا دعووں سے ہی پیٹ بھرنے اور ڈکار لے کرسو جانا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔