عورت کی آزادی ہی دلائے گی ہر دن طاقت کا احساس...میناکشی نٹراجن

عورت کو دیوی ماننے کے باوجود صدیوں سے پدرسری جکڑن میں رکھا گیا۔ تعلیم، حقِ رائے دہی، انصاف و برابری کی تحریکوں نے آزادی کی راہ دکھائی۔ حقیقی طاقت ہر دن عورت کی آزادی سے ہی ملے گی۔

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر / اے آئی</p></div>
i
user

میناکشی نٹراجن

مینا کشی نٹراجن

اس ہفتے نوراتری شروع ہو رہا ہے۔ عورت کو دیوی تو ہمیشہ مانا گیا ہے مگر زمینی حقیقت کچھ اور رہی ہے۔ کیوں نہ اس نوراتری پر عورت کی نظر اور عورت کی آزادی کی تحریک کو سمجھا جائے۔ اصل سوال یہ ہے کہ صنفی انصاف کی بنیاد پر سماج اور سیاست کی ساخت کس طرح ہو۔

ہر لفظ اور ہر اصطلاح دراصل سیاسی ہوتی ہے، جو اپنے وقت کی صنفی طاقت کو ظاہر کرتی ہے۔ عورت یعنی خاتون کو (ہندی میں) ’استری‘، ’ناری‘ اور ’مہیلا‘ کہا جاتا ہے اور ان الفاظ کے معنی سمجھے بغیر سیاسی راستہ بھی واضح نہیں ہو سکتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ الفاظ کے مفہوم وقت اور حالات کے ساتھ بدلتے رہے ہیں۔ ’استری‘ ایک معروف لفظ ہے اور یاسک نے اس کا مطلب شرم سے سکڑ جانا بتایا۔ پانِنی نے اس کو ہنگامہ، شور اور اجتماع کا مترادف قرار دیا۔ پتنجلی نے کہا کہ لمس، روپ، رس اور خوشبو کے میل کو استری‘ کہتے ہیں اور وہ چھاتی اور بال رکھنے والی ہوتی ہے۔ یعنی عورت کی تعریف جسمانی بنیاد پر کی گئی۔ ’ناری‘ لفظ ’نر‘ سے نکلا ہے، جو پہلے انسان کے لیے استعمال ہوتا تھا، پھر بعد میں مرد اور عورت کے معنوں میں الگ ہوا۔ ’مہیلا‘، لفظ مہ سے بنا ہیے، جس کا مطلب عزت اور احترام ہوتا ہے۔

صنفی طاقت کی منتقلی کو صنفی انصاف نہیں کہا جا سکتا۔ صنف کو سماجی مان لینے سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ کوئی جذبہ یا کردار بنیادی طور پر صنفی نہیں ہوتا۔ پدرسری نظام نے جنسی کنٹرول کے لیے جذبات اور کردار کو صنف سے جوڑ دیا ہے۔ مامتا یا سختی جیسی خصوصیات کسی ایک صنف کی جاگیر نہیں ہیں۔ مرد کو رونا نہیں آتا، یہ بڑی ترتیب سے قائم کیا گیا نظریہ ہے۔ یہ بھی طے کر دیا گیا کہ عورت کے جسم میں کسی طرح کی روحانی آزادی ممکن نہیں، وہ صرف جسم ہے، اس کی کایا محض مایا ہے۔

صدیوں پرانی قائم شدہ روایت ذہنیت میں رچ بس جاتی ہے۔ ہندوستانی تاریخ کی ابتدائی عورت شاعراؤں کی تخلیقات ظاہر کرتی ہیں کہ عورت کی حیثیت کیا تھی اور اس نے آزادی کا بگل کیسے بجایا۔ ڈھائی ہزار برس پرانی ’تھیری گاتھا‘ بُدھ بھکشونیوں کے اندرونی احساسات کو پیش کرتی ہے۔ کس طرح کسّا گوتمی، امباپالی اور اُبّیری نے پدرسری خاندانی ڈھانچے میں دکھ جھیلے۔ یہ بھی درج ہے کہ گوتم بدھ نے بھکشونیوں کے لیے سنگھ کے دروازے پہلی بار میں نہیں کھولے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ سماج اتنا بڑا بدلاؤ برداشت نہ کر پائے گا۔ بعد میں بھکشونیوں کو قبول کیا گیا لیکن شرطوں کے ساتھ اور وہ بھکشوؤں کے مساوی نہیں سمجھی گئیں۔


بعد میں بھکتی تحریک کے ذریعے کئی انقلابی آوازیں اٹھیں۔ کارائیکال امیار، آنڈال، اکّا مہا دیوی، لال ڈیڑھ، میرا بائی، سنت سوئرابائی، کانہوپاترا اور بے شمار عورتوں نے اجتماعی آزادی کے ذریعے اپنی آزادی کا راستہ نکالا۔

عورت کو صرف جسم سمجھنا دراصل ایک سیاست ہے۔ اس کے ساتھ کردار کا پہلو بھی جُڑا ہے۔ کرداروں کو صنف سے جوڑ دیا گیا۔ کسان، لوہار، بڑھئی، مزدور یا بُنکر کی تصوراتی شبیہ میں مرد ابھرتا ہے۔ ڈاکٹر، پائلٹ یا انجینئر کے طور پر بھی ہم مرد کو ہی دیکھتے ہیں۔ عورت ڈرائیور پر طعنے کستا سماج بھول جاتا ہے کہ مرد ڈرائیور بھی غلطی کرتے ہیں مگر ان کی غلطی کو صنف سے نہیں جوڑا جاتا۔

انسانی تاریخ کے ابتدائی دور میں جب وہ شکاری اور جمع آور تھا تو ہر بالغ کو شکاری ہونا پڑتا تھا۔ پچ مڑھی کی مہادیو پہاڑی کی تصویریں یاد آتی ہیں، جہاں عورتیں بھی شکار کرتی تھیں، سبزی اور پھل جمع کرتی تھیں، مچھلی پکڑتی تھیں اور شہد نکالتی تھیں۔ آج بھی دیہات کا منظر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے، عورتیں دن بھر کھیتی میں کام کرتی ہیں، دیواریں چنتی ہیں، کَتائی کرتی ہیں۔ اس کو ملکی پیداوار کا حصہ نہیں مانا جاتا مگر فائیو اسٹار ہوٹل میں مرد شیف کو لاکھوں کا پیکیج ملتا ہے۔ مزدوری کی قدر میں یہ عدم مساوات ایک گہرا سیاسی عمل ہے۔ عورت کو بلامعاوضہ کام میں جکڑ کر رکھنا اور ’لکشمن ریکھا‘ کھینچنا بھی سیاست ہے۔ یہی سوچ عورت کو ’پوجیہ‘ کہتی ہے تاکہ اسے انسانی خطا سے بالاتر کر دیا جائے۔

اکثر رانی لکشمی بائی کے نعرے ’سوراج بھوا چاہرجے‘ کا ذکر کیا جاتا ہے مگر ان سے پہلے ہی 1848 میں ساوتری بائی پھولے اور فاطمہ بی بی نے تعلیم کے انقلاب کی شروعات کی تھی۔

یہ بھی اہم ہے کہ کوئی تبدیلی یکطرفہ نہیں آتی۔ سیاسی، سماجی اور تہذیبی آمریت سے لڑتے وقت صنفی غلبے سے بھی لڑنا پڑتا ہے۔ اسی ماحول میں پنڈتا رما بائی نے استری دھرم نیتی‘ لکھی اور مخالفت جھیلی۔ رُکما بائی راؤت نے شوہر سے علیحدگی کے حق کے لیے جیل کی اذیت برداشت کی۔ لمبی جدوجہد کے بعد شوہر نے دعویٰ واپس لیا۔ اسی دوران سرلا دیوی چودھرانی نے 1910 میں ’بھارت استری مہامندل‘ قائم کیا۔ 1917 میں اینی بیسنٹ کے ساتھ مل کر عورت کے ووٹ کے حق کے لیے جدوجہد کی۔ نتیجہ یہ کہ تراونکور-کوچین پہلی ریاست بنی جس نے 1920 میں عورتوں کو ووٹ کا حق دیا۔

آزاد ہندوستان میں بھی عورت کی تحریک نے 1970 اور 80 کی دہائی میں بڑا کام کیا۔ 1978 میں متھرا نامی نابالغ آدیواسی لڑکی سے دو پولیس والوں نے زیادتی کی تو عورتوں کی تنظیموں نے ملک بھر میں جدوجہد کی اور 1983 میں قانون میں ترمیم ہوئی۔ اسی طرح جہیز مخالف قوانین 1984 اور 1986 میں خواتین کی تحریکوں کے دباؤ پر لائے گئے۔


جب راجستھان کے دیورالا میں روپ کنور کو ستی کے لیے جلایا گیا، تو 1988 میں عورتوں کی تحریک نے قانون میں دوبارہ ترمیم کرائی۔ 1985 میں شاہ بانو نے نفقہ کے حق میں مقدمہ دائر کیا اور جیتا مگر حکومت نے 1986 میں قانون پاس کر کے روایت پسندوں کو خوش کیا۔ بعد میں اس کے دور رس اثرات بھی سامنے آئے۔

1992 میں راجستھان کی بھنوری دیوی نے کم عمری کی شادی روکنے کی کوشش کی تو ان کے ساتھ اجتماعی زیادتی ہوئی۔ انصاف نہ ملنے پر عورتوں کی تنظیموں نے لڑائی لڑی اور 1997 میں سپریم کورٹ نے ’وشاکھا گائیڈ لائنز‘ جاری کیں تاکہ کام کی جگہ پر ہراسانی روکی جا سکے۔ اگرچہ بھنوری دیوی کو آج بھی انصاف نہیں ملا۔ نربھیا واقعہ کے بعد بھی سخت تر قانون آیا۔

عورتوں کی تحریک نے ہی سبری مالا اور حاجی علی درگاہ میں عورتوں کے داخلے کا بگل بجایا۔ منی پور میں فوجیوں کے ہاتھوں تھانجم منورما کے ریپ پر عورتوں نے ڈٹ کر مخالفت کی۔ افسپا کے خلاف ای روم شرمیلا کی جدوجہد آج بھی یاد کی جاتی ہے۔ آسام، ناگالینڈ اور میزورام کی عورت تنظیموں نے نشہ بندی، جائیداد کے حق اور طلاق کے سوال پر جدوجہد کی۔

اسی ماحول نے عورت کی سیاسی بیداری بڑھائی۔ اتراکھنڈ کی چپکو تحریک، نشہ بندی تحریک، ریاست کے قیام کی تحریک میں عورتیں مردوں سے آگے رہیں۔ نرمدا بچاؤ تحریک کی قیادت بھی دیہات کی عورتوں نے کی۔ حال کے کسان تحریک یا سی اے اے/این آر سی کے خلاف احتجاج میں بھی عورتوں کو آئینی حقوق کے لیے سڑک پر دیکھا گیا۔ کھلاڑی بہنوں نے جنسی استحصال کے خلاف آواز بلند کی تو کیرالہ کی اداکاراؤں نے کمیٹی بنوا کر کارروائی کرائی۔

اگر آج بلقیس بانو کے مجرموں کو مالا پہنائی جاتی ہے تو یہ صرف فرقہ واریت نہیں ہے۔ ’سُلی ڈیل‘ پر حکمراں جماعت خاموش رہتی ہے۔ ’لاڈلی بہنا‘ کی بات ہوتی ہے مگر ازدواجی عصمت دری پر قانون کی بات آنے پر شادی کے ادارے کا بہانہ بنایا جاتا ہے۔ صدیوں سے عورت پر پدرسری قبضہ مسلط کیا گیا ہے۔ عورت کی آزادی ہی اس غلامی سے سماج کو نکال سکتی ہے۔ تبھی صرف نو دنوں کی پوجا کو نہیں، بلکہ ہر دن کو حقیقی معنوں میں شکتی (طاقت) کا دن کہا جا سکے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔