یہ سونیا گاندھی پر حملہ نہیں بلکہ اپوزیشن کو ختم کرنے کی چال ہے... سہیل انجم

جب بھی اپوزیشن کا کوئی لیڈر حکومت مخالف بیان دیتا ہے تو فوراً اس کے پیچھے ای ڈی، سی بی آئی یا محکمہ انکم ٹیکس کو لگا دیا جاتا ہے۔

سونیا گاندھی، صدر کانگریس / Getty Images
سونیا گاندھی، صدر کانگریس / Getty Images
user

سہیل انجم

پہلے راہل گاندھی پھر سونیا گاندھی۔ پہلے پانچ روز تک تفتیش اور پھر تین روز تک۔ لیکن ای ڈی کے ہاتھ پہلے بھی خالی تھے اور اب بھی خالی ہیں۔ نہ راہل گاندھی کے خلاف اسے کوئی ثبوت ملا اور نہ ہی سونیا گاندھی کے خلاف۔ بی جے پی کے ایم پی سبرامنیم سوامی نے نیشنل ہیرالڈ معاملے میں مالی بدعنوانی کا جو الزام لگایا تھا آج تک اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ لیکن اس کے باوجود سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کو پریشان کیا جا رہا ہے۔ اس کا واحد مقصد دونوں رہنماؤں اور اس کی آڑ میں کانگریس کو ڈرانا ہے تاکہ وہ حکومت کی غلط پالیسیوں اور فیصلوں کے خلاف بولنا بند کر دیں۔

جب اس معاملے میں ماں بیٹے کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا تو لوک سبھا میں کانگریس کے قائد ادھیر رنجن چودھری کے ایک بیان کو متنازع بنا کر سونیا گاندھی سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ حالانکہ ادھیر رنجن نے اپنے بیان پر، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ سبقت لسانی تھی، معافی مانگ لی ہے لیکن بی جے پی کے پیٹ کا مروڑ کم نہیں ہوا ہے۔ وہ اب بھی سونیا گاندھی کو نشانہ بنا رہے ہیں تاکہ ان کے دلوں کی خلش کم ہو سکے۔ ویسے بھی ادھیر رنجن نے جو کچھ کہا اس میں سونیا گاندھی کا کوئی قصور نہیں پھر بھی پوری حکومت اس ایک خاتون کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔


بی جے پی لیڈروں کے اندر اخلاقی جرأت بھی نہیں ہے کہ ایک 75 سالہ بیمار خاتون کو بخش دے اور ان کے خلاف بلا وجہ کا ہنگامہ نہ کرے۔ بی جے پی نے تو سیاسی اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ خواہ پارلیمنٹ میں عوامی ایشوز پر بحث کرانے کا معاملہ ہو یا کوئی اور۔ جو تازہ تنازع پیدا ہوا ہے اس کا فوری اور قلیل مدتی مقصد تو مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی کو بچانا ہے جو کہ گوا میں اپنی بیٹی کے ریسٹورینٹ اور بار کے معاملے میں پھنسی ہوئی ہیں جہاں بیف بھی کھلایا جا رہا ہے اور خنزیر بھی اور جہاں ایک مردہ شخص کے نام پر لائسنس لیا گیا ہے۔ لیکن اس کا دور رس مقصد یہ ہے کہ سونیا گاندھی کے بہانے پوری اپوزیشن کو ختم کر دیا جائے۔

اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی ایک فاشسٹ پارٹی ہے جو کہ بظاہر جمہوریت میں تو یقین رکھتی ہے لیکن حقیقتاً نہیں رکھتی۔ وہ تمام جمہوری اداروں کو کمزور کرکے ان کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ اس نے آئینی اداروں کو بھی کمزور کر دیا ہے اور ان پر ایک طرح سے قبضہ کر لیا ہے۔ حکومت کے ان ناپسندیدہ اور غیر جمہوری اقدامات کے خلاف اگر کوئی پارٹی کھل کر بولتی ہے تو وہ کانگریس ہے اور اگر کانگریس کا کوئی لیڈر بے خوف ہو کر حکومت اور وزیر اعظم پر شدید انداز میں نکتہ چینی کرتا ہے تو وہ یقیناً راہل گاندھی ہیں۔


حکومت نے اپوزیشن کے بیشتر رہنماؤں کو ڈرا دیا ہے۔ ان کے پیچھے مرکزی ایجنسیاں لگا دی گئی ہیں۔ جب بھی اپوزیشن کا کوئی لیڈر حکومت مخالف بیان دیتا ہے تو فوراً اس کے پیچھے ای ڈی، سی بی آئی یا محکمہ انکم ٹیکس کو لگا دیا جاتا ہے۔ حکومت کی ان کارروائیوں کی وجہ سے اپوزیشن رہنما خوف زدہ ہیں اور وہ حکومت کے خلاف بیان دینے کی اپنے اندر جرأت نہیں پاتے۔ لیکن حکومت سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کو چپ کرانے میں اب تک ناکام ہے۔ اسی لیے اس نے ان دونوں رہنماؤں کے پیچھے ای ڈی کو لگا دی۔ لیکن ای ڈی بھی کچھ نہیں کر پا رہی ہے۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں ای ڈی کو حاصل گرفتاری کے اختیار کو ختم نہیں کیا بلکہ اسے بحال رکھا ہے۔ ایسی صورت میں ای ڈی کسی کو بھی گرفتار کر سکتا ہے۔ لیکن وہ کانگریس کے ان دونوں بڑے رہنماؤں کو گرفتار کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہی ہے۔

دراصل حکومت اور بی جے پی آج سے نہیں بلکہ 2014 سے ہی سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کے پیچھے پڑی ہوئی ہیں۔ بی جے پی کا کوئی نہ کوئی لیڈر ان دونوں کے خلاف بیانات دیتا رہتا ہے۔ بالخصوص اسمرتی ایرانی کو حکومت نے کافی چھوٹ دے رکھی ہے۔ ان کو سونیا اور راہل کے خلاف بیان بازی کی عادت پڑ گئی ہے۔ انھوں نے امیٹھی میں راہل گاندھی کو شکست کیا دے دی کہ انھوں نے خود کو تیس مار خاں سمجھ لیا ہے اور شاید ان کے دل و دماغ میں یہ خوش فہمی گھر کر گئی ہے کہ ان کے سر پر نہرو گاندھی خاندان کا حریف ہونے کا تاج سج گیا ہے۔


اسی لیے جب بھی سونیا گاندھی کوئی بیان دیتی ہیں تو سب سے پہلے اسمرتی بول اٹھتی ہیں اور ان کے بیان پر نکتہ چینی شروع کر دیتی ہیں۔ اس کے بعد دوسرے لیڈروں کا نمبر آتا ہے۔ شاید ان کو اس بات کا بہت فخر ہے کہ وہ مرکزی وزیر ہیں اور وزیر اعظم ان کو مانتے ہیں۔ اگر ایسی بات نہ ہوتی تو ادھیر رنجن کے معاملے میں وہ سونیا گاندھی کی ہتک نہ کرتیں۔ جب پارلیمنٹ میں سونیا گاندھی بی جے پی کی معمر رکن رما دیوی کے پاس پہنچیں اور ان سے یہ جاننا چاہا کہ بیان ادھیر رنجن نے دیا ہے تو ان کا نام کیوں لیا جا رہا ہے تو اسمرتی درمیان میں آگئیں اور کانگریسی رہنماؤں کے مطابق انگلی اٹھا اٹھا کر بولنے لگیں۔ جس پر سونیا گاندھی نے خفگی کے ساتھ کہا کہ مجھ سے بات مت کرو۔ سونیا گاندھی کے یہ دو تین الفاظ نہ صرف اسمرتی پر بلکہ پوری پارٹی پر بجلی بن کر گرے اور انھوں نے سونیا گاندھی پر زبانی حملہ کر دیا۔

ادھیر رنجن کی سبقت لسانی کو ایک ایشو بنانے کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ حکومت عوامی مسائل پر ایوان کے اندر بحث کرانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جبکہ پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران ایوان ہی میں عوامی مسائل پر بحث کرائی جاتی ہے۔ حکوت نے اپوزیشن کے اس مطالبے کو رد کرنے اور من مانے انداز میں کام کرنے کے لیے ہی دو درجن سے زائد ارکان پارلیمنٹ کو ایوان سے معطل کروا دیا۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ حکومت کا یہ قدم پارلیمانی روایات کے منافی ہے۔ اسے عوامی ایشوز پر بحث کرانی چاہیے۔ اب جبکہ اس پر بہت زیادہ دباؤ پڑا ہے تو وہ اس کے لیے بادل ناخواستہ تیار ہو گئی ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کا رویہ اپوزیشن کے خلاف تو ہے ہی، پارلیمانی روایات کے بھی منافی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔