واہ رے میڈیا: گالیاں کھا کے بدمزہ نہ ہوا... سہیل انجم

موجودہ چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا نے ہفتے کے روز رانچی میں ایک پروگرام میں بولتے ہوئے گودی میڈیا کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ شرمسار کر دینے والا ہے۔ لیکن بھلا گودی میڈیا کیوں شرمسار ہوگا!

چیف جسٹس این وی رمنا / ٹوئٹر
چیف جسٹس این وی رمنا / ٹوئٹر
user

سہیل انجم

اگر کسی شریف اور غیرت مند آدمی کو ایک بار ہی گالی دے دی جائے یا کچھ ایسا کہہ دیا جائے جو اس کے کردار پر حملہ ہو تو اسے بہت چو ٹ پہنچتی ہے اور وہ خود احتسابی کرنے لگتا ہے کہ آخر اس کے بارے میں ایسا کیوں کہا گیا۔ لیکن اگر کسی بے غیرت شخص کی شان میں گستاخی پر گستاخی کیوں نہ کی جائے اور اس کے کردار پر کتنا ہی حملہ کیوں نہ کیا جائے اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ وہ چکنا گھڑا بنا رہتا ہے۔ ہندوستانی میڈیا اسی دوسری قبیل میں شامل ہو گیا ہے۔ اس کو خواہ کتنا ہی لتاڑا جائے اور کتنا ہی برا بھلا کہا جائے اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور وہ اپنی بگڑی ہوئی روش چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔

یوں تو عدالتوں کی جانب سے میڈیا کو اور بالخصوص گودی میڈیا کو خوب پھٹکار لگائی جا چکی ہے لیکن موجودہ چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا نے ہفتے کے روز رانچی میں ایک پروگرام میں بولتے ہوئے گودی میڈیا کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ شرمسار کر دینے والا ہے۔ لیکن بھلا گودی میڈیا کیوں شرمسار ہوگا۔ بی جے پی کی معطل ترجمان گستاخ رسولؐ نپور شرما کے بیان پر سپریم کورٹ کے ججوں کی جانب سے انتہائی سخت تبصرے کے بعد جب مذکورہ ججوں پر حملہ کیا جانے لگا تو بعض حلقوں کی جانب سے اس کی حمایت کی جانے لگی جبکہ ایک بڑے حلقے نے اس رویے کی مذمت کی تھی۔


این وی رمنا نے اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا پر ججوں کے خلاف مہم چلائی گئی۔ جج عام طور پر فوراً اپنا رد عمل ظاہر نہیں کرتے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ کمزور ہیں یا بے چارگی کے شکار ہیں۔ انھوں نے میڈیا میں چلنے والے ڈبیٹس پر بھی نکتہ چینی کی اور کہا کہ میڈیا کنگارو کورٹ چلا رہا ہے۔ یاد رہے کہ کنگارو کورٹس ان عدالتوں کو کہتے ہیں جہاں قوانین و ضوابط کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور جج حضرات اپنی مرضی و منشا کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے میڈیا کی جانب سے عدالتوں پر نکتہ چینی کو متعصبانہ قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ میڈیا کے پاس معلومات کی کمی ہے اور وہ ایک ایجنڈے کے تحت کام کر رہا ہے۔ ان کے مطابق نیو میڈیا ٹولس کے پاس وسعت اختیار کرنے کی صلاحیت تو ہے لیکن وہ صحیح اورغلط، اچھے اور برے اور اصلی اور نقلی میں فرق کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔ ان کے خیال میں میڈیا میں جس طرح کسی معاملے پر ڈبیٹس ہوتی ہیں یا جو میڈیا ٹرائل ہوتا ہے اس کی بنیاد پر عدالتیں فیصلے نہیں کر سکتیں۔ میڈیا کے رویے کی وجہ سے بعض اوقات تجربہ کار ججوں کو بھی فیصلہ سنانے میں مشکل پیش آتی ہے۔


غرضیکہ انھوں نے میڈیا کو بری طرح لتاڑا ہے لیکن میڈیا کا رویہ یہ ہے کہ گالیاں کھا کے بدمزہ نہ ہوا۔ اس سے قبل بھی بارہا میڈیا کو عدالتوں سے جھاڑ پڑی ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی پھٹکارا ہے اور ریاستی ہائی کورٹوں نے بھی۔ جب تبلیغی جماعت کے لوگوں کو کورونا بم اور کورونا جہادی بتایا گیا تو عدالتوں نے اس پر اپنی شدید ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ یوں تو متعدد نچلی عدالتوں نے تبلیغیوں کو رہا کرکے میڈیا کے جھوٹے پروپیگنڈے کو فاش کیا تھا۔ لیکن بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ نے جو سخت تبصرہ کیے تھے وہ قابل غور تھے۔ عدالت نے تبلیغیوں کے خلاف درج تمام ایف آئی آر کالعدم کرنے کی ہدایت دی تھی اور کہا تھا کہ حکومتوں کو قدرتی آفات کے موقع پر بلی کے بکرے کی تلاش ہوتی ہے اور کورونا معاملے میں تبلیغیوں کو بلی کا بکرا بنایا گیا۔ عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ کارروائی سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں کو درپردہ وارننگ بھی تھی۔ عدالت نے میڈیا کوریج پر بھی اپنی ناراضگی ظاہر کی تھی۔

سپریم کورٹ میں جمعیۃ علمائے ہند کی جانب سے بعض نیوز چینلوں کے خلاف دائر مقدمے پر سماعت کے دوران سابق چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی ہدایت پر مرکزی حکومت، وزارت داخلہ، وزارت اطلاعات و نشریات اور پریس کونسل اور براڈ کاسٹنگ ایسو سی ایشن کو بھی فریق بنایا گیا تھا۔ عدالت نے حکومت کے وکیل سے کہا تھا کہ وہ عرضی گزار کو بتائے کہ حکومت نے اس تعلق سے کیبل ٹیلی ویژن نیٹ ورک قانون کی دفعات 19/ اور 20/ کے تحت اب تک جھوٹی اور بے بنیاد رپورٹنگ کرنے والے چینلوں کے خلاف کیا کارروائی کی ہے۔ عدالت نے مزید کہا تھا کہ یہ ایک سنگین معاملہ ہے اور اس سے لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔


اس کے بعد جب سدرشن چینل نے مسلمانوں کے خلاف ایک خطرناک پروگرام نشر کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ مسلمان یو پی ایس سی میں گھس پیٹھ کرکے یو پی ایس سی جہاد چھیڑ رہے ہیں تو اس معاملے میں بھی سپریم کورٹ نے سخت موقف اختیار کیا تھا اور کہا تھا کہ اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ اظہار خیال کی آزادی کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جائے اور انھیں بدنام کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے ملک نے پانچ ممتاز شہریوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنانے کی ہدایت دی تھی جو الیکٹرانک میڈیا کے لیے معیاری رہنما اصول اور ضابطے بنائے۔ عدالت نے یہ واضح کر دیا تھا کہ ہمیں اس کمیٹی میں سیاسی مزاج کے لوگوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہم ایسے شہریوں کو ممبر کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں جن کا رتبہ قابل ستائش ہو۔

سماعت کے دوران جسٹس کے ایم جوزف نے بہت ہی اہم بات کہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وزول میڈیا (ٹی وی) کس کی ملکیت ہیں اور کمپنی کے تمام شیئر ہولڈنگ کا اسلوب کیا ہے۔ یہ تمام تفصیلات عوام کی معلومات کے لیے کمپنی کی ویب سائٹ پر موجود ہونی چاہئیں۔ کمپنی کا Revenue Model یعنی آمدنی کا نمونہ بھی ویب سائٹ پر ہونا چاہیے۔ جسٹس جوزف نے ٹی وی چینلوں پر ہونے والی ڈبیٹ کے طریقہ کار اور ان کی نوعیت پر بھی سوال اٹھائے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ بحث کے دوران اینکر کا کردار کیا ہوتا ہے۔ جب دوسرے بولیں تو کیسے سناجاتا ہے۔ یہ چیک کرنے کی ضرورت ہے کہ اینکر کتنا وقت لیتا ہے۔ اینکرز اسپیکر بند (Mute) کر دیتے ہیں اور سوال پوچھتے ہیں۔


جب سالیسیٹر جنرل تشار مہتہ اور چینل کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل شیام دیوان نے اسے میڈیا کی آزادی سے تعبیر کیا تو ججوں نے میڈیا کو جم کر لتاڑا۔ بنچ نے شیام دیوان سے کہا کہ آپ کا موکل ملک کو کتنا نقصان پہنچا رہا ہے اور یہ بات قبول نہیں کر رہا ہے کہ یہ ملک متنوع تہذیب و ثقافت والا ملک ہے۔ آپ کے موکل کو آزادی کے اپنے حق کا محتاط انداز میں استعمال کرنا چاہیے۔ عدالت نے میڈیا، پریس کونسل اور براڈ کاسٹ ایسو سی ایشن پر بھی جم کر تنقید کی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ میڈیا کی آزادی کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بے لگام ہو جائے۔

یہ تو چند نمونے تھے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ عدالتوں نے بارہا میڈیا کی گوشمالی کی ہے اور پھٹکار لگائی ہے۔ موجودہ چیف جسٹس نے بھی سابق چیف جسٹس کی روش پر چلتے ہوئے میڈیا کو آئینہ دکھایا ہے۔ لیکن بہت سے سیاست دانوں کی مانند میڈیا بھی بے شرم ہو گیا ہے۔ اسے اس کی قطعاً پروا نہیں کہ اس کے بارے میں دنیا کیا سوچتی ہے یا عدالتیں کیا کہتی ہیں۔ اس کو اس کی بھی فکر نہیں کہ اس کا وقار نہ صرف ہندوستان میں بلکہ پوری دنیا میں ملیا میٹ ہو گیا ہے۔ اس نے اپنی ساکھ کھو دی ہے اور اب اس پر اعتماد کرنے کے لیے لوگ تیار نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نے بے شرمی و بے غیرتی کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔ اسے کچھ بھی کہا جائے اور کوئی بھی کہے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔