تب اور اب... درفیشان چاندنی

اگر ہندوستان کی صحیح اور پرانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پائیں گے کہ یہاں کے عوام سکون پسند اور مل جل کر امن اور امان سے رہنا پسند کرتے تھے، ہندو اور مسلمان کبھی بھی مذہب کی وجہ سے آپس میں نہیں لڑے۔

<div class="paragraphs"><p>سوشل میڈیا</p></div>

سوشل میڈیا

user

درفیشاں چاندنی

تاریخ ایک ایسا علمی اوزار ہے جس کا دخل ہر دور اور سبھی تہذیبوں سے جڑا رہا ہے خوا ہ وہ انسانی دنیا کے بارے میں ہو یا کسی ملک قوم یا پھر دنیا میں پھیلے الگ الگ مذاہب کے بارے میں، ملک اور دنیا کے بارے میں لاتعداد کتابیں لکھی اور پڑھی گئی ہیں ان میں سے کچھ کے لیکھنے والے بہت مشہور اور مقبول ہوئے اور انہوں نے دنیا کو امن اور سکون کا ماحول مہیا کرا کر انسان اور انسانیت کو زندہ رکھنے کی کوششیں کی۔ لیکن اسی کے برعکس ہم دوسری جانب دیکھیں تو ملے گا کہ ایسے لوگ بھی گزرے ہیں جن کے قلم سے زہر فشانی کا غبار خوب پھیلا جس کے نتیجے میں نہ صرف انسانیت پر ضرب لگی بلکہ اس کے اثرات دورے حاضر سے لیکر آنے والے زمانہ میں بھی صدیوں تک اپنا زہریلا اثر بکھیرتے رہے۔ بھلے ہی کُچھ لوگ اُن کے حامی یا پیروکار ہوں لیکن در حقیقت تو ایسے لوگ تہذیب اور ادب کے دائرے میں ہی نہیں رکھے جانے چاہئے۔

دنیائے انسان میں ہمیشہ بہت کُچھ اچّھا اور برا ہوتا رہا ہے اور رہتی دُنیا تک شاید ہوتا بھی رہے گا، کہیں امن تو کہیں بدامنی اور تانا شاہی رہی ہے۔ لیکن ہم اگر ہندوستان کی صحیح اور پرانی تاریخ اٹھا کر مطالعہ کریں تو یہی پائیں گے کہ یہاں کی عوام بہت سکون پسند تھی اور لوگ آپس میں مل جل کر امن اور امان سے رہنا پسند کرتے تھے، ہندو اور مسلمان کبھی بھی مذہب کی وجہ سے آپس میں نہیں لڑے۔


مغلوں کے دورے اقتدار میں بادشاہ مسلمان تھے لیکن پھر بھی ہندوستان پر مسلمان ملک ہونے کی نہ تو تصدیق کی گئی اور نہ ہی مہر لگی، جو بھی حکمران گزرے انہوں نے جو بھی کیا مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ صرف اور صرف ہندوستان کے لئے کیا، ملک کی فلاح اور بہبود کے لئے کیے گئے کاموں کی بدولت وطن کے ہر شعبے میں ترقی اور کامرانی کے نقوش آج بھی موجود ہیں، لیکن افسوس کہ کُچھ فرقہ پرست ذہنیت کے ہندو، مسلم اور انگریز لکھنے والوں نے مغل دور کی ایسی غلط تصویر پیش کی ہے اور یہ کہنے سے بھی گریز نہیں کیا کہ مغلیہ دور مسلم حکمرانوں کی بربریت اور اقلیت پر ظلم اور زیادتی کا دور تھا، ہر لحاظ سے پچھڑا، ظلم۔زیادتی، نفرت اور سبھی طرح کی برائیوں کا دور بتایا گیا۔ نہ تو عوام میں بھائی چارہ، نہ ہی اتفاق اور نہ ہی اتحاد تھا۔

تو اس طرح مغلیہ دور کے سبھی روشن پہلوؤں کو نفرت کی سیاہی سے تاریخ اور ادب کی دنیا میں قلم بند کر دیا گیا ایسے لوگوں نے اپنے مفاد کے لیے اس جھوٹ کو اس حد تک پھیلایا ک لوگ اسے ہی سچ سمجھنے لگے۔ لیکن اصل سچ تو یہ ہے کی ہندوستان کا ماضی بہت شاندار اور مضبوط تھا یہاں کے لوگ آپس میں میل جول اور بھائی چارہ کی ڈور سے بندھے رہے اور سب سے اچھی اور خاص بات تو یہ رہی کہ ہندو ہو يا مسلمان ان کا مذہب کبھی بھی اُن کے درمیان ایسی رنجش کی وجہ نہیں بنا۔


جب ساتویں صدی میں عربی سوداگر ہندوستان میں آکر بسے، اُس وقت بھی ملک کا ماحول بہت ہی اچّھا اور پرسکون تھا اور اس دور میں جو بھی کام کیے گئے وہ سب خوشنما ماحول کی بابت تکمیل کو پہنچے، چونکہ عربی سوداگروں کی آمد سے وطن کو فیض حاصل ہوا، لہٰذا ہند کے حاکموں یا حکمرانوں کو ام عربی سوداگروں کے رہن صحن اور اسلام مذہب کے پیروکار ہونے پر کوئی اعتراز نہیں تھا، بلکہ اپنے مذہبی اصولوں پر چلنے کی ان کو پوری آزادی رہی، یہاں پر اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ کالی کٹ کے حکمران "جمورن" جو بہت ہی سوجھ بوجھ والے حاکم تھے نے "حکمنامہ جاری کیا کہ اُن کی سلطنت میں مچھوارے خاندان میں سے ہر ایک گھر سے ایک یا ایک سے زیادہ افراد کی پرورش اسلام کے حساب سے کی جائے اور ایسے مچھوارون کو وہی عزت دی جاتی تھی جو غیر ممالک سے آے لوگوں کو دی جاتی تھی حالانکہ یہ مچھوارے اپنے سماج کے نچلے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ در اصل جمورن بہت ہی دور اندیش راجہ تھے اور وہ یہ چاہتے تھے کہ یہ ماہر مچھوارے عربی جہاز چلائیں گے جس سے اُن کے ملک کی ترقی ہوگی!  اس کے علاوہ ہندی حکمرانوں نے عربی سوداگروں کو ہندوستانی عورتوں سے بیاہ کر نے کی کھلی چھوٹ دے رکھی تھی، اس کے ساتھ ہی بڑھتی تجارت اور بڑھتی آمدنی کے ساتھ ہی اسلام کی سادگی اور سہولیات نے بھی ان کو اپنی طرف راغب کیا۔ اور اس طرح غیر ممالک سے ہند آنے والے تاجروں میں سے بہت سے يہیں رہ گئے اور پھر کبھی واپس نہ جا کر ہندوستان کو ہی اپنا وطن مان کر یہیں کی خاک میں مل گئے۔

نویں صدی میں ہند آنے والے تاجروں نے کُچھ یوں کہا: سلیمان کا کہنا تھا کہ ہندوستانی راجہ اسلام کے بارے میں بہت اچھے اور نیک خیال رکھتے تھے۔ اس بارے میں یہ بھی مثال ہے کہ گجراتی راجہ وللبھی عربی مسلمانوں کا دل کی گہرائیوں سے خیال اور عزت کرتے تھے اور ایس لئے انہوں نے ان کو سبھی طرح کے حفاظتی انتظامات بھی مہیّا کروائے، بزرگ بن شہریار لکھتے ہیں کہ کشمیر کے الور میں مہرگ کے راجہ نے نوی صدی میں قرآن پاک کا ترجمہ ہندی میں کروایا اور وہ روز ہی کسی سے پڑھوا کر سنتے بھی تھے۔ دسویں صدی کے مشہور تاریخ دان "مسوی" نے بھی اس کی تصدیق کی ہے کہ ہند کے جنوب میں اسلام خوب پھولا پھیلا! اس کی ایک یہ بھی اہم مثال ہے کہ مالابار کے راجہ چیرا مین پیرامل جو آخری راجہ تھے اسلام کو قبول کر کے مسلمان ہو گئے! مالابار میں"جمو ن" نے تاجپوشی کے وقت مسلمانوں کی طرح پوشاک پہنی !اور وجے نگر کے راجہ نے بھی ایسا ہی دستور جاری رکھا اور مسلمانوں کو موپلا جیسے خطاب سے نوازا جاتا۔


اس طرح مسلمان قوی اور ترقی یافتہ ہوتے گئے، رتبہ، عزت، منصب سبھی کُچھ ان کو اپنے نیک دل راجاؤں سے حاصل ہوا۔ جنوب میں کننڈ راجہ کے جنگی جہازوں کی کمان مسلمان کمانڈر کے زیرِ سایہ تھی اور اُن جہازوں کی تعداد ایک دو نہیں بلکہ تیس کے قریب تھی۔ کالی کٹ شہر میں تجارت اور دوسرے کاروبار کی باگ ڈور بھی زیادہ تر مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہی رہی اور اس شہر میں "بحرین" سے آکر بسنے والے شخص ابراھیم کسٹم افسر کے اہم اور پروقار عہدے پر فائز رہے اور اُن کے زیرِ سایہ اُس شعبہ میں بہت ترقی ہوئی، یہی نہیں یہاں کے منصف بھی مسلمان تھے۔

اس بارے میں ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ "ہندو راجاؤں نے اپنی ریاست کے سبھی معملوں میں مسلمانوں پر پورا یقین اور اعتماد کیا، ریاست کے سبھی شعبوں، چاہے وہ فوج ہی کیوں نہ ہو، پوری طرح سے اُس کا تعاون لیا "مسکن" نام کے شخص کے پاس بے شمار دولت تھی یہاں تک کہ چین، ہندوستان اور دوسرے ممالک سے تجارت کے لئے اُن کے آپنے جہاز بھی تھے!


سومناتھ کے راجہ کے دور میں بھی کافی تعداد میں مسلمان آپنے اپنے اہم عہدوں کو سنبھال کر اپنی ذمہداری کو محنت اور وفاداری سے انجام دیتے رہے اور اسی دور کی بہت بڑی مثال یہ ہے کہ دونوں مذاہبِ کے لوگوں میں اتنا میل جول تھا کہ باہر کے حملہ کرنے والے دشمن کا مقابلہ سب ایک ساتھ مل کر، کندھے سے کندھا ملا کر کیا کرتے تھے، اس کی بہت بڑی مثال ملک کافور اور راجویر بلال کے بیچ ہونے والی جنگ ہے، جس میں دونوں طرف مسلمان فوج، لیکن ایک طرف ہندو راجہ تھا اور اس راجہ کے تقریباً بیس ہزار سپاہی جو کہ سبھی مسلمان، اس طرح اپنی محنت ایمانداری اور جانفشانی کے سبب جنوبی ہندوستان میں مسلمانوں نے اپنی مضبوط حیثیت بنا لی تھی۔

اس طرح کی تاریخ سے بہت سی کتابیں بھری پڑی ہیں، لیکن افسوس کہ آج کے دورِ میں اس کے منظر عام پر آنے میں دشواریاں پیش ہیں، بات آتی ہے مغلوں کی تو آج اگر ہم ہندوستان کے موجودہ دور پر نظر ثانی کریں تو صاف طور پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آج بڑے پیمانے پر لوگ غیر ممالک میں جانا پسند کرتے ہیں کوئی تعلیم حاصل کرنے کے لئے جاتا ہے تو کوئی نوکری یا تجارت کے لئے، لیکن خاص بات یہ ہے کہ جو بھی لوگ اپنا ملک چھوڑ کر جاتے ہیں اُن میں سے زیادہ تر لوگ وہیں غیر مملک میں بس جاتے ہیں اور وہیں کے شہری ہو جاتے ہیں، یہ صرف ان لوگوں تک ہی محدود نہیں جو بیرونی ملک کے شہری ہوگئے ہیں بلکہ وہاں جاکر بسنے والے لوگ اپنے ریٹائر ہوئے یا ضعیف والدین کو بھی آپنے پاس غیر ملک میں بلا لیتے ہیں اور اُن لوگوں کو بھی اُس ملک کی سٹیزن شپ مل جاتی ہے، اس طرح سبھی افراد ملک میں ملنے والی سہولیات سے مستفید ہوتے ہیں اور اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ ایسے لوگ آپنے کو بہت اچّھا اور اعلٰی درجے کا شہری سمجھتے ہیں، شاید اس لئے کہ وہاں ان کو بہت سی آسانیاں فراہم کی جاتی ہیں، ایسے بہت سے ملک ہیں جہاں ہندوستان سے لوگ جاکر رہنا پسند کرتے ہیں ان میں، کینڈا، امریکہ، آسٹریلیا اور برطانیہ وغیرہ ہیں۔


ابھی اگر ہم موجودہ دور میں دیکھیں تو بہت بڑی مثال برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سونک ہیں، ظاہر ہے یہ بہت اہم اور غیر معمولی عہدا ہے اور ہم سب ہندوستانی اس پر فقر محسوس کرتے ہیں کہ "رشی سونک" ہندوستانی ہیں اور ساتھ ہی اُن کی اہلیہ بھی ہند کی بیٹی ہیں۔ اس طرح اگر ہم مغلوں کی تاریخِ اور اُن کی مُلکی خدمات دیکھیں تو یہی پائیں گے کی وہ ہندوستان میں آئے اپنے دور اقتدار میں بہت سے اچھے کام کیے، ملک کو ترقی و کامرانی، اور حسین ترین نایاب نشانیاں دے کر خود بھی اسی مُلک کی مٹی میں دفن ہو کر اس کی خاک میں مل کر اس دُنیا سے کوچ کر گئے، لیکن افسوس کہ اُن کے آخری بادشاہ کو دل لرزہ دینے والی قربانیاں دینے کے بعد بھی اس مُلک کا ویزا نہ ملا آخر کیوں؟ جب مغل سلطنت کے دور میں بادشاہ یا شہنشاہ نے ہند کو مسلم مُلک کا نام نہ دیا تو آج کے سائنسی دور میں کیوں کُچھ لوگ ایسی ضعیف سوچ رکھتے ہیں کہ اگر ہندوستان کا وزیر اعظم مسلم ہوا تو اکثریت خطرے میں آجائے گی، رشی سونک بر طانیہ کے وزیرِ اعظم منتخب ہوئے تو کیا برطانیہ یا انگلستان خطرے میں آ گیا؟ نہیں ایسا بالکل نہیں، در اصل حقیقت یہ ہے کی کُچھ لوگ ضعیف سوچ والے ہیں اور کُچھ اپنا سیاسی سفر برقرار اور مضبوط بنائے رکھنے کے لیے ایسے گروہوں اور مدوں کو ہوا دیتے ہیں جس سے ملک میں خلفشار پیدا ہو، عوام میں نفرت غربت افرا تفری اور بےچینی کے سبب ملک و قوم اور آئندہ آنے والی نسلوں کو کتنا بھی بڑا نقصان کیوں نہ اٹھانا پڑے اس سے ان کو کوئی واسطہ نہیں، ان کو تو طاقت، رتبہ اور سیاست کے نشہ میں شرابور، دبدبہ، دربار اور کاروبار چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔