مسلم ممالک کو ’تماش بین والی‘ روش چھوڑنے کی ضرورت

بڑا سوال یہ ہے کہ دنیا کے 195 ممالک میں سے صرف جنوبی افریقہ، میکسیکو اور چلی ہی کیوں جو مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے پر اسرائیل کو عالمی عدالت میں گھیسٹ کر لائے ہیں؟

<div class="paragraphs"><p>غزہ کی صورت حال / Getty Images</p></div>

غزہ کی صورت حال / Getty Images

user

نواب علی اختر

دنیا میں گزشتہ ہفتے کی سب سے بڑی خبر یہ تھی کہ جنوبی افریقہ نے غزہ میں بڑے پیمانے پر جنگ چھیڑنے کے بعد وہاں نسل کشی جیسے اقدامات کا ارتکاب کرنے والے اسرائیل کو اقوام متحدہ کی عالمی عدالت میں گھیسٹ لیا ہے۔ نیدر لینڈز کے شہر ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں ایک دن جنوبی افریقہ کو اپنا کیس پیش کرنا تھا، اگلے دن اسرائیل کو اپنا دفاع کرنا تھا۔ عالمی عدالت میں کیس پر پوری دنیا کی نظریں لگی ہوئی تھیں۔

دونوں دن، دونوں ملکوں کا موقف لوگوں تک پہنچنا چاہیے تھا مگرخود کو عالمی میڈیا کہنے والے مغرب کے تقریباً تمام نشریاتی اداروں اور بڑے اخباروں نے جنوبی افریقہ کی طرف سے پیش کیے گئے شواہد اور ان کے وکلا کے دلائل کو براہ راست نہیں دکھایا۔ جبکہ اگلے دن اسرائیل اپنے دفاع کے لیے پیش ہوا تو ساری نشریات روک کر براہ راست کارروائی دکھائی گئی۔ کسی ادارے نے اپنے اس فیصلے کی وضاحت پیش نہیں کی۔ شاید انھیں یقین ہے کہ جدید صحافت اور اس کی اخلاقیات انہی کی ایجاد ہے اور وہ جب چاہیں نئے معیار ایجاد کر لیں۔

اس معاملے میں ان کا رویّہ اسرائیل کے دفاعی وکلا جیسا ہی تھا کہ تم ہم پر نسل کشی کا الزام لگا کر ہمیں بدنام کر رہے ہو لیکن ہم جو کر رہے ہیں اس سے ہمیں روک کر تو دکھاو۔ اس مقدمے کا مرکزی نکتہ 1948 کے اس کنونشن پر مبنی ہے جو نسل کشی کے جرائم کی روک تھام اور سزا سے متعلق دوسری عالمی جنگ اور ہولوکاسٹ کے بعد تیار کیا گیا تھا۔ اس کنونشن کے مطابق ’کسی قومی، نسلی یا مذہبی گروہ کو مکمل طور پر یا جزوی طور پر تباہ کرنے کے ارادے سے قتل کا ارتکاب نسل کشی کے زمرے میں آتا ہے‘۔

جنوبی افریقہ اور اسرائیل نے 1948 میں اس کنونشن پر دستخط کیے تھے۔ جس کے آرٹیکل 9 کے مطابق قوموں کے درمیان تنازعات کو اس کنونشن کے تحت عالمی عدالت انصاف میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے جنوبی افریقہ نے اپنی 84 صفحات پر مشتمل دائر کردہ درخواست میں کہا ہے کہ اسرائیل کے اقدامات مبینہ نسل کشی کے زمرے میں آتے ہیں کیونکہ اس کا مقصد غزہ میں فلسطینیوں کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو تباہ کرنا ہے۔


جنوبی افریقہ کے اقدام سے حوصلہ پاکر میکسیکو اور چلی نے بھی غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ جارحیت کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) سے رجوع کیا ہے ، جس میں تشدد میں اضافے کے بارے میں بڑھتی ہوئی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور عدالت سے7 اکتوبر سے ہونے والے ممکنہ جرائم کی تحقیقات کے لیے کہا گیا ہے ۔ بڑا سوال یہ ہے کہ دنیا کے 195 ممالک میں سے صرف جنوبی افریقہ، میکسیکو اور چلی ہی کیوں جو مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے پر اسرائیل کو عالمی عدالت میں گھیسٹ کر لائے ہیں؟

مسلم اور عرب ممالک کے برعکس جنوبی افریقہ کی فلسطین کے ساتھ کوئی اخلاقی، ثقافتی یا مذہبی وابستگی نہیں ہے۔ وہ عرب ممالک کے مقابلے میں فلسطین سے تقریباً سات ہزار کلومیٹر دور واقع ہے۔ تو پھر جنوبی افریقہ نے ہی کیوں صہیونی ریاست کے خلاف آواز اٹھائی حالانکہ دیگر ممالک جو کہ فلسطین سے ہر لحاظ سے زیادہ قریب ہیں، ان کے قتل عام پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں؟ اس کا جواب ہمیں تاریخ سے ملتا ہے کیونکہ فلسطین کی طرح جنوبی افریقی باشندے بھی سفید فام آبادکاروں کے ظلم کا شکار ہو چکے ہیں جو کہ اپنے خونی جبر اور نسل پرستی پر فخر کیا کرتے تھے۔

اسرائیل 1948ء میں وجود میں آیا، اسی سال جنوبی افریقہ میں نسل پرست نو آبادیاتی دور نے اپنے قدم جمائے۔ جس وقت سفید فام برتری پر یقین رکھنے والے جنوبی افریقہ کے وزیر اعظم نے اسرائیل کا دورہ کیا وہیں جنوبی افریقہ کے رہنماؤں میں سے ایک نیلسن منڈیلا نے 1990ءمیں جیل سے اپنی رہائی کے بعد یاسر عرفات سے ملاقات کی جنہوں نے اوسلو معاہدے سے قبل منڈیلا سے اس معاملے پر مشورہ طلب کیا تھا۔

نیلسن منڈیلا بذاتِ خود فلسطین کے بہت بڑے حمایتی تھے جن کا اس حوالے سے مذکورہ قول بھی کافی مقبول ہے ’ہماری آزادی، فلسطین کی آزادی کے بغیر نامکمل ہے‘۔ یہ صرف کوئی نعرہ نہیں تھا بلکہ اپنی پوری زندگی میں نیلسن منڈیلا نے اخلاقی اور مادی بنیادوں پر ان کی حمایت کی بات کی بالکل اسی طرح، جس طرح فلسطینیوں نے ہر موقع پر سیاہ فام جنوبی افریقی لوگوں کی آزادی کی جدوجہد میں ان کا ساتھ دیا۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں حالات مکمل طور پر بدل چکے ہیں۔


جنوبی افریقی قوم جس نے تسلط اور ناانصافی کا سامنا کیا اب وہ اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کو قاتل اور قابض قوت کے شکنجے سے آزاد کروانا چاہتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس مقدمے سے غزہ میں جنگ رک سکتی ہے؟ تواس کے جواب میں اگر حال ہی کی مثال دیکھیں گے تو 2022 میں یورپی ملک یوکرین نے عالمی عدالت میں روس کے خلاف نسل کشی کا مقدمہ دائر کیا تھا، جس کے بعد روس کو فوری طور پر اپنے حملے کو معطل کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

عالمی عدالت انصاف اقوام متحدہ کی سب سے معتبر عدالت ہے اور اس کے احکامات قانونی طور پر ممالک کو پابند کرتے ہیں لیکن ہمیشہ ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے روس نے عدالت کے حکم کو نظر انداز کیا اور یوکرین پر حملے جاری رکھے۔ ماضی کی مثالوں سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ایسے مقدمات لمبے عرصے تک چل سکتے ہیں جبکہ ابتدائی فیصلے کے بعد عدالت پورے مقدمے پر غور کرنے کے طویل عمل کا آغاز کرتی ہے۔

اس جنوبی افریقہ کے دائر کردہ مقدمہ میں اسرائیل عدالتی دائرہ اختیار کو چیلنج کر سکتا ہے مگر وہ 151 دوسرے ممالک جنہوں نے نسل کشی کے کنونشن پر دستخط کیے ہیں وہ بھی اپنی تجاویز پیش کرنے کے لیے عدالت کو درخواست دے سکتے ہیں۔ جس کے بعد ممکن ہے کہ مسئلے کے حل کی کوئی مستقل راہ نکل سکے۔ اب عالمی عدالت انصاف کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے متعلق قانونی موقف کا انتظار ہے۔

بہرحال فلسطینیوں کے حق میں عالمی عدالت پہنچنے والے جنوبی افریقہ، میکسیکو اور چلی نے مسلم ممالک کو آئینہ دکھانے کا کام کیا ہے۔ حالانکہ مسلم ممالک ’ تماش بین والی‘ روش چھوڑنے کو تیار نہیں ہوں گے کیونکہ چند کو چھوڑ کر تقریباً سبھی مسلم ممالک ’مقروض‘ والی حالت میں ہیں اور کسی بھی صورت ’سپر پاور‘ کو آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہیں کریں گے۔ خواہ غزہ میں تین ماہ سے زائد عرصے سے اسرائیل اپنی وحشیانہ جارحیت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے جس کی وجہ سے وہاں ہزاروں بے گناہ کلمہ گویوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے ،وہیں سیکڑوں مکانات کے ساتھ ساتھ اسپتال، اسکول، یونیورسٹیاں تباہ کر دی گئی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔