الیکشن کمیشن کا زوال: مسئلہ صرف نیا کمشنر نہیں، بلکہ تقرری کا طریقہ کار ہے
سپریم کورٹ نے آزاد اور غیر جانبدار انتخابی کمیشن کے لیے قانون سازی کی تجویز دی تھی، مگر حکومت نے ایسا قانون بنایا جس سے وزیراعظم کو تقرری کا مکمل اختیار مل گیا

الیکشن کمیشن
ہندوستان میں الیکشن کمیشن کبھی غیرجانبداری اور شفافیت کی علامت سمجھا جاتا تھا، مگر حالیہ برسوں میں اس کے وقار کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ سوال صرف یہ نہیں کہ نیا الیکشن کمشنر کون بنتا ہے، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کی تقرری کا طریقہ کار کیسا ہونا چاہیے۔ حکومت کی طرف سے کیے گئے حالیہ فیصلے اور قوانین نے اس ادارے کی غیر جانبداری پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
2023 میں سپریم کورٹ کے جسٹس کے ایم جوزف نے ایک اہم فیصلے میں کہا تھا کہ ایسا شخص الیکشن کمشنر نہیں بن سکتا جو حکومت کے احسانات تلے دب کر فیصلہ کرے یا اقتدار کے آگے جھک جائے۔ انتخابات کا شفاف اور غیر جانبدار انعقاد جمہوریت کی بنیاد ہے، مگر موجودہ حالات میں یہ اصول خطرے میں پڑ گیا ہے۔
سابق چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار 18 فروری کو اپنا عہدہ چھوڑ گئے۔ ان کا دور ہندوستان کے انتخابی نظام کے کمزور ترین ادوار میں شمار ہوگا۔ ان پر حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے، اپوزیشن کی شکایات کو نظر انداز کرنے اور انتخابی بدعنوانیوں پر خاموشی اختیار کرنے جیسے الزامات لگے۔ ان کے دور میں انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کیا گیا اور انتخابی بونڈ جیسے متنازع امور پر کوئی سخت قدم نہیں اٹھایا گیا۔
پچھلے سال، جب ایک الیکشن کمشنر انوپ چندرا کا عہدہ ختم ہوا تو حکومت نے اسے پر کرنے میں کوئی جلدی نہیں دکھائی۔ مگر جب انتخابات سے قبل دوسرے کمشنر ارون گوئل نے استعفیٰ دے دیا، تب حکومت نے فوری طور پر دو نئے افسران کو تعینات کر دیا۔ ان میں سے سینئر ترین افسر گیانیش کمار کو چیف الیکشن کمشنر مقرر کر دیا گیا۔ اس پوری تقرری پر اعتراضات اٹھائے گئے کہ آیا حکومت اپنے من پسند افراد کو مقرر کر رہی ہے۔
ایک زمانہ تھا جب الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر عوام کو فخر تھا، مگر اب اس پر حکومتی دباؤ کا الزام لگ رہا ہے۔ 2019 کے عام انتخابات کے دوران اس وقت کے انتخابی کمشنر اشوک لواسا نے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا، مگر اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر سنیل اروڑا نے اس کی مخالفت کی، جس کے نتیجے میں اشوک لواسا کو استعفیٰ دینا پڑا۔ اس کے بعد جب راجیو کمار کا دور آیا تو معاملات مزید بگڑ گئے۔ کئی انتخابات میں نتائج کی شفافیت پر سنگین سوالات اٹھے۔
ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) نے اپنی تحقیقات میں پایا کہ ڈالے گئے ووٹوں اور گنے گئے ووٹوں میں بڑا فرق نظر آتا ہے۔ جب کمیشن سے اس بارے میں وضاحت مانگی گئی تو کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا۔ 2024 کے عام انتخابات میں بھی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کیا گیا۔ مثال کے طور پر، وزیر اعظم نریندر مودی کے بعض متنازع بیانات پر کارروائی کے بجائے کمیشن نے نوٹس بی جے پی صدر جے پی نڈا کو جاری کر دیا۔
انتخابی فہرستوں میں بھی بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں دیکھی گئیں۔ مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات میں پتہ چلا کہ پانچ ماہ کے اندر 39 لاکھ نئے ووٹر شامل کر دیے گئے، جبکہ اس سے پہلے پانچ سال میں محض 32 لاکھ نئے ووٹرز کا اندراج ہوا تھا۔ نیوز لانڈری کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ کچھ علاقوں میں ایک ہی پتے پر سیکڑوں ووٹر درج تھے۔ یہی الزامات دہلی انتخابات میں بھی سامنے آئے، جہاں خاص طور پر دلت اور اقلیتی ووٹروں کے نام ووٹر لسٹ سے کاٹنے کے شواہد ملے۔
پرکالا پربھاکر جیسے دانشوروں نے اعداد و شمار کا جائزہ لیتے ہوئے نشاندہی کی کہ انتخابات میں ووٹنگ ختم ہونے کے وقت کے اعداد و شمار اور حتمی نتائج میں غیر معمولی فرق نظر آ رہا ہے۔ مثال کے طور پر، مہاراشٹر انتخابات میں یہ فرق 7 فیصد جبکہ ہریانہ میں 12 فیصد تک پہنچ گیا، جو تاریخی اعتبار سے بہت زیادہ ہے۔
ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز نے ایک اور سنگین مسئلے کی طرف اشارہ کیا کہ اب انتخابی کمیشن ووٹنگ کے اصل اعداد و شمار دینے کے بجائے صرف فیصد بتا رہا ہے، جس سے شفافیت مزید متاثر ہو رہی ہے۔
انتخابی تاریخوں کے تعین میں بھی حکومت کے اثر و رسوخ کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ مثلاً، 2019 میں ہریانہ کے انتخابات کی تاریخ کو غیر متوقع طور پر تبدیل کر دیا گیا۔ دہلی اسمبلی انتخابات کی تاریخ اس طرح رکھی گئی کہ اس سے پہلے حکومت کا بجٹ پیش ہو سکے تاکہ ووٹروں پر اثر ڈالا جا سکے۔
یہ سب اقدامات انتخابی کمیشن پر عوام کے اعتماد کو کمزور کر رہے ہیں۔ 2019 میں سی ایس ڈی ایس-لوک نیتی کے ایک سروے میں 51 فیصد لوگوں نے انتخابی کمیشن پر اعتماد ظاہر کیا تھا، مگر 2024 میں یہ تعداد گر کر صرف 28 فیصد رہ گئی۔
راجیو کمار کی ریٹائرمنٹ ایک موقع تھا کہ انتخابی کمیشن میں اصلاحات کی جاتیں، مگر حکومت کے موجودہ رویے سے یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ نے حکم دیا تھا کہ انتخابی کمیشن کو حکومت کی مداخلت سے آزاد رکھنے کے لیے ایک قانون بنایا جائے۔ عدالتی فیصلے کے مطابق جب تک نیا قانون نہیں بنتا، چیف جسٹس، وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر پر مشتمل ایک کولجیم انتخابی کمشنر کی تقرری کرے گا۔ مگر 2023 کے سرمائی اجلاس میں حکومت نے ایسا قانون منظور کیا جس میں چیف جسٹس کو نکال کر وزیراعظم کے نامزد وزیر کو شامل کر دیا گیا۔ اس سے انتخابی کمیشن پر حکومت کا کنٹرول مزید مضبوط ہو گیا۔
دنیا کے مختلف جمہوری ممالک میں انتخابی اداروں کی تقرری کے مختلف طریقے ہیں۔ جنوبی افریقہ میں آئینی عدالت کے سربراہ اور انسانی حقوق کے نمائندے انتخابی کمیشن کا تقرر کرتے ہیں۔ برطانیہ میں ہاؤس آف کامنز امیدوار کے نام کی توثیق کرتا ہے، جبکہ امریکہ میں صدر نامزدگی کرتے ہیں اور سینیٹ اس کی توثیق کرتا ہے۔ ہندوستان میں انتخابی کمشنر کی تقرری کا موجودہ یکطرفہ اور حکومت نواز طریقہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے ساتھ انصاف نہیں کرتا۔
انتخابی کمیشن کو آزاد اور غیر جانبدار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ تقرری کے عمل کو شفاف اور جمہوری بنایا جائے، تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو سکے اور انتخابات کی ساکھ محفوظ رہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔