الحمدللہ اس عید پر ہر گھر میں خوشی ہے

مسجد فتح پوری قدیم رویت ہلال کمیٹی کی یہ روایت قابل تقلید ہے کہ اس نے کبھی رویت کے اعلان میں جلد بازی نہیں کی۔ اس طریقے کو دیگر رویت ہلال کمیٹیاں بھی اختیار کریں تو کبھی دو عید کی نوبت نہ آئے۔

تصویر تنویر احمد
تصویر تنویر احمد
user

تنویر احمد

اللہ کا شکر ہے ہندوستان میں عیدالاضحیٰ کی نماز متفقہ طور پر 22 اگست کو پڑھی گئی، اور اللہ کا شکر ہے کہ اس بار موقع عیدالفطر کا نہیں تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو ایک بار پھر مسلمان منتشر نظر آتے اور دو عید منائی جاتی جیسا کہ گزشتہ جون میں دیکھنے کو ملا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مسلمانوں میں انتشار تو پیدا ہو ہی چکا تھا، لوگ کشمکش میں مبتلا تو ہو ہی گئے تھے کہ آخر عیدالاضحیٰ کی نماز 22 اگست کو پڑھیں یا پھر 23 اگست کو۔ بیشتر رویت ہلال کمیٹیوں نے 29 کی رویت مانتے ہوئے 22 اگست کو عیدالاضحیٰ کی نماز ادا کیے جانے کا اعلان کیا تھا جب کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی، جامع مسجد دہلی اور ادارۂ شرعیہ (پٹنہ، بہار) نے 30 کی رویت تسلیم کی اور اعلان کیا کہ نماز 23 اگست کو پڑھی جائے گی۔ لکھنؤ میں بھی شیعہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے کچھ امام نے 30 کی رویت ہی تسلیم کی تھی۔ ایسی حالت میں چہ می گوئیاں شروع ہونا لازمی تھا اور ہوا۔

یقیناً اللہ کا کرم ہی ہے کہ ذی الحجہ کا چاند دیکھے جانے اور عیدالاضحیٰ کی نماز کے درمیان 10 دن کا وقت ہوتا ہے اور اس کا فائدہ یہ ہوا کہ جن رویت ہلال کمیٹیوں یا اداروں نے 30 کی رویت تسلیم کی تھی انھوں نے یکے بعد دیگرے 29 کی رویت کا اعلان کیا۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی جامع مسجد دہلی نے بھی 16 اگست کو ہنگامی میٹنگ کی اور 22 اگست کو نماز کی ادائیگی کا اعلان کیا اور ادارۂ شرعیہ پٹنہ نے بھی نیپال میں چاند دیکھے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے اپنا فیصلہ بدلا۔ لکھنؤ میں جن شیعہ امام نے 23 اگست کو نماز پڑھے جانے کا اعلان کیا تھا انھوں نے بھی اپنے فیصلے سے رجوع کیا۔

الحمدللہ لوگوں نے راحت کی سانس لی اور آج (22 اگست) سبھی نے مل کر عیدالاضحیٰ کی نماز ادا کی۔ اس عید پر سبھی گھروں میں خوشی کا ماحول ہے اور کسی رشتہ دار یا دوست کے یہاں جانے سے قبل یہ پتہ کرنے کی ضرورت نہیں کہ اس کے یہاں آج عید منائی جا رہی ہے یا نہیں۔ لیکن سوال وہی ہے کہ آخر رویت کا مسئلہ ہر بار کیوں پیدا ہوتا ہے؟ رمضان، شوال اور ذوالحجہ، ان تین اسلامی مہینوں میں چاند کی خبر کا انتظار ہر مسلمان کو رہتا ہے اور اس سال ان تینوں ہی مہینوں میں چاند پر تنازعہ پیدا ہوا۔ اس سلسلے میں ’مسجد فتح پوری قدیم رویت ہلال کمیٹی‘ کا معاملہ بہت خوب معلوم پڑتا ہے جو ہمیشہ سے ہی ’دیر آید درست آید‘ والی کہاوت پر عمل کرتے ہوئے کسی بھی جلد بازی سے پرہیز کرتی ہے۔ اس بار بھی’شاہی مسجد فتح پوری دہلی‘ کا رویت سے متعلق پریس ریلیز 15 جولائی کو سامنے آیا جس میں 29 کی رویت تسلیم کیے جانے کی بات کہی گئی تھی لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہوا تھا کہ ’’مسجد فتح پوری قدیم رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس ... بروز اتوار(12 اگست)، 29 ذیقعدہ کو بعد نماز مغرب منعقد ہوا تھا۔ دہلی میں مطلع ابر آلود تھا اور بیرونی دہلی سے بھی بارش اور مطلع ابر آلود ہونے کی خبریں ملیں اس لیے کمیٹی نے رویت کی شہادت کے انتظار کے لیے اجلاس برخاست کر دیا تھا۔‘‘ گویا کہ 15 جولائی کو دوبارہ میٹنگ ہوئی اور بیرونی دہلی سے شرعی شہادتوں کی تصدیقات اور تحقیقات پر غور کرتے ہوئے 22 کو عیدالاضحیٰ کی نماز ادا کیے جانے کا اعلان ہوا۔

بلاشبہ مسجد فتح پوری کے شاہی امام ڈاکٹر مفتی محمد مکرم احمد کی صدارت میں مسجد فتح پوری قدیم رویت ہلال کمیٹی کی 12 اگست کو ہوئی میٹنگ بے مثال کہی جا سکتی ہے کیونکہ انھوں نے کسی طرح کی جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس سلسلے میں جب ’قومی آواز‘ نے مفتی محمد مکرم سے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ ’’12 اگست کو میٹنگ برخاست اس لیے کر دی گئی کیونکہ رویت سے متعلق کوئی مصدقہ خبر موصول نہیں ہوئی تھی اور ہمارے پاس فیصلہ کرنے کے لیے 10 دن کا وقت تھا۔‘‘ انھوں نے مزید بتایا کہ ’’جلد بازی میں اور بغیر تصدیق کے رویت کا اعلان کرنے سے کئی بار غلطیاں ہو جاتی ہیں اور اس کی وجہ سے لوگوں میں انتشار پیدا ہو جاتا ہے جو مناسب نہیں۔ ویسے بھی عیدالاضحیٰ کی نماز ذی الحجہ کی 10 تاریخ کو ہوتی ہے تو اس کا اعلان بعد میں بھی ہو سکتا ہے۔‘‘

مسجد فتح پوری، دہلی کے شاہی امام ڈاکٹر مفتی محمد مکرم
مسجد فتح پوری، دہلی کے شاہی امام ڈاکٹر مفتی محمد مکرم

مفتی محمد مکرم نے کتنی صحیح بات کہی ہے۔ رویت کا اعلان کوئی مقابلہ نہیں کہ اس میں اوّل آنے کی کوشش کی جائے۔ یہ کسی سے پوشیدہ نہیں کہ رویت میں اختلافات کے سبب کئی بار مسلمان آپس میں دست و گریباں بھی ہو گئے ہیں۔ اس لیے ٹیکنالوجی کے اس دور میں اس وقت تک اعلان کرنا جلد بازی ہی کہی جائے گی جب تک کہ ملک کی مختلف ریاستوں سے اس بات کی تصدیق نہ ہو جائے کہ وہاں چاند دیکھا گیا یا نہیں۔ جہاں تک رمضان اور شوال مہینے کی رویت کا سوال ہے، تو مفتی محمد مکرم کا کہنا ہے کہ اس میں بھی وہ اعلان کرنے میں 3-2 گھنٹے تاخیر کرتے ہیں تاکہ قرب و جوار اور دیگر ریاستوں سے رابطہ کر رویت کی حقیقت پتہ کی جا سکے۔

اس سلسلے میں ’قومی آواز‘ سے بات چیت کرتے ہوئے مفتی محمد مکرم نے ’مسجد فتح پوری قدیم رویت ہلال کمیٹی‘ کی تاریخ بھی بیان کی اور کہا کہ ’’یہ رویت ہلال کمیٹی تقسیم ہند سے بھی پرانی ہے اور اپنے زمانے میں واحد رویت ہلال کمیٹی تھی۔ 1960 تک سبھی مساجد بشمول جامع مسجد سے منسلک افراد مسجد فتح پوری میں ہی جمع ہوتے تھے اور رویت کا اعلان ہوتا تھا، لیکن اس کے بعد کچھ وجوہات کی بنا پر کئی رویت ہلال کمیٹیاں تشکیل پا گئیں۔ جب میرے دادا مفتی محمد مظہراللہ (انتقال 1966) مسجد فتح پوری قدیم رویت ہلال کمیٹی کی صدارت کرتے تھے اس وقت بھی ذی الحجہ کی رویت کا اعلان 29 کی شب میں نہیں ہوتا تھا بلکہ پانچ چھ دن بعد ہی ہوتا تھا۔‘‘

اس طرح دیکھا جائے تو مفتی محمد مکرم کی صدارت میں مسجد فتح پوری قدیم رویت ہلال کمیٹی اپنی پرانی روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہے اور مسلم طبقہ میں کسی بھی طرح کا انتشار پیدا نہ ہو، اس کا خاص خیال رکھا جا رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دیگر علماء بھی اسی طرح کی دانشمندی کا مظاہرہ کریں۔ ویسے بھی مسلم دشمن عناصر مسلمانوں سے متعلق چھوٹے سے چھوٹے تنازعہ کو بڑا بنا کر آپس میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور موقع ملتے ہی اسے عدالت تک پہنچا دیتے ہیں۔ طلاق ثلاثہ اور کثرت ازدواج اس کی بہترین اور تازہ مثالیں ہیں جو پوری طرح شرعی معاملہ ہے لیکن تنازعات کی وجہ سے مخالفین کو آواز اٹھانے کا موقع ملا اور پھر یہ معاملہ عدالت میں پہنچ گیا۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ بلاوجہ کے تنازعہ سے بچا جائے اور دانشمندی سے کام لیا جائے۔ بہر حال، یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ عیدالاضحیٰ کے موقع پر سبھی علماء اور برادرانِ امت متحد ہیں۔ ان سبھی حضرات کو دل کی عمیق گہرائیوں سے عیدالاضحیٰ کی مبارکباد۔

عیدالاضحیٰ کی نماز کے بعد گلے ملتے ہوئے دو معصوم بچے
عیدالاضحیٰ کی نماز کے بعد گلے ملتے ہوئے دو معصوم بچے

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 22 Aug 2018, 10:35 AM