کانگریس کی بنیادوں کو ایک بار پھر مضبوط کرنے کے لیے پیش قدمی

ملک کی سب سے پرانی پارٹی میں اب فیصلے اوپر سے نہیں، نیچے سے ہوا کریں گے۔ اس بڑی تبدیلی کے سبب یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ بی جے پی-آر ایس ایس کے تخریبی ایجنڈے کو زمین پر پٹخنی دی جا سکے گی۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div>

تصویر سوشل میڈیا

user

وشو دیپک

’کانگریس کو زمین سے کھڑا کرنا بے حد ضروری ہے۔‘ حال ہی میں احمد آباد میں اختتام پذیر کانگریس کے کنونشن میں کچھ یہی جذبہ دیکھنے کو ملا۔ اس تقریب کے لیے احمد آباد کا انتخاب اسی ارادے کا اسٹریٹجک اعلان تھا۔ کانگریس اپنے حریف کو یہ بتانا چاہتی تھی کہ وہ ڈرنے والی نہیں ہے۔

گجرات تحریک آزادی کی علامت سردار پٹیل کی ریاست ہے۔ ایسی ہستی جو آزادی سے پہلے اور بعد میں پنڈت نہرو کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہے۔ وہ ایسے شخص بھی ہیں جنھیں آر ایس ایس فیملی نہرو کے مخالف کی شکل میں پیش کرنا چاہتی ہے، اور ان کی وراثت پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ ایسا کرنے کے یے اس کے پاس ان دونوں لیڈران کے درمیان نااتفاقیوں کے بارے میں فرضی تاریخ کو مشتہر کرنے یا عالیشان میموریل بنا کر یہ فرضی پیغام دینے کے علاوہ کوئی طریقہ نہیں تھا کہ ’ہم نے دنیا کا سب سے اونچا اسٹیچو ’اسٹیچو آف یونٹی‘ بنایا ہے، لہٰذا وہ (سردار پٹیل) ہمارے ہیں۔‘‘ حالانکہ کانگریس کا کہنا ہے کہ ’معاف کیجیے، یہاں آپ کی دال نہیں گلنے والی۔‘


آر ایس ایس کو مہاتما گاندھی سے بھی پریشانی ہے۔ وہ یہ طے نہیں کر پا رہا ہے کہ انھیں اپنا بنائے، یا پرھ ان کے قاتل کو ہیرو۔ انہی اسباب سے کانگریس کے حالیہ کنونشن کے لیے گجرات کو منتخب کیا گیا۔ اتفاق سے 64 سالوں بعد ریاست میں کانگریس کا کنونشن ہوا۔

دسمبر 2024 میں بیلگاوی میں منعقد کنکلیو میں کانگریس نے اعلان کیا تھا کہ 2025 تنظیمی مضبوطی کا سال ہوگا۔ 9 اپریل کو اختتام پذیر کانگریس کے احمد آباد کنونشن سے پہلے اودے پور اعلانیہ (مئی 2022) میں جنرل سکریٹری سچن پائلٹ نے پارٹی کے تنظیمی اصلاحات پر توجہ مرکوز کرنے اور پارٹی میں نوجوانوں کے لیے زیادہ جگہ بنانے کے عزائم دہرائے۔ احمد آباد میں اختیار کیا گیا ’نیائے پتھ سنکلپ‘ پارٹی کو زمین سے از سر نو کھڑا کرنے کا خاکہ ہے۔


اس تبدیلی کے مرکز میں ایک تنظیمی تبدیلی ہے۔ کانگریس اوپر سے فیصلے لینے کے اپنے ماڈل کو بالکل پلٹنا چاہتی ہے اور پارٹی کی ضلع یونٹس کو اپنا انجن بنانا چاہتی ہے۔ ہر ضلع کانگریس کمیٹی کے پاس اب اپنی سیاسی معاملوں کی کمیٹی ہوگی، اور اس میں اے آئی سی سی و ریاستی یونٹ دونوں کے مبصرین ہوں گے۔ اس کمیٹی کے پاس اہم فیصلے لینے کی طاقت ہوگی۔

راہل گاندھی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’ہم ضلع کانگریس کمیٹیوں کو پارٹی کی بنیاد بنائیں گے۔‘ ایسے وقت میں، جبکہ سنٹرلائز فیصلے لیے جا رہے ہیں، یہ ایک اہم تبدیلی ہے۔ گجرات میں سبھی 41 ضلع کمیٹیوں میں مبصرین کی تقرری پہلے ہی کی جا چکی ہے۔ اس فہرست میں منکم ٹیگور، پرینتی شندے، عمران مسعود، بالاصاحب تھوراٹ اور میناکشی نٹراجن جیسے سینئر لیڈران شامل ہیں۔


کانگریس جنرل سکریٹری کے سی وینوگوپال نے اعلان کیا کہ کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے اور راہل گاندھی دونوں ہی ہر ریاست میں یک روزہ ورکشاپ منعقد کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ بعد میں، گجرات میں ایسے ہی ایک ورکشاپ میں راہل گاندھی نے منصوبہ سے متعلق تفصیلی معلومات فراہم کی۔ انھوں نے بتایا کہ قربت نہیں، بلکہ کارکردگی کی بنیاد پر پارٹی میں کردار یا حکومت میں کیبنٹ برتھ کا تعین ہوگا۔ انھوں نے پارٹی کارکنان سے کہا کہ ’یہ بدلاؤ ان کے لیے نیا دروازہ کھولتا ہے جو عوامی زندگی میں تعاون کرنا چاہتے ہیں، پالیسی اور سیاست کو بہتر بنانے میں مدد کرنا چاہتے ہیں، اور اس کے ساتھ ہی ان لوگوں کے لیے راستہ بند کرتا ہے جو اس طرح سے فعال نہیں۔‘

اس تبدیلی کا سب سے انقلابی پہلو پارٹی کا داخلی جمہوریت کی طرف بڑھنا ہے۔ دہائیوں سے کانگریس کو اشرافیہ، اعلیٰ ذات اور دولت مند لیڈران کو پارٹی کی سمت طے کرنے دینے کے لیے تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب ماحول بدلنے لگا ہے۔


اس سال کے آخر میں انتخاب میں جا رہے بہار میں ایک دلت لیڈر ریاستی یونٹ کی قیادت کر رہا ہے۔ اجئے کمار للو، جو او بی سی ہیں اور یوپی کانگریس کے سابق صدر ہیں، اب اڈیشہ کے انچارج ہیں۔ چھتیس گڑھ کے سابق وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل او بی سی ہیں اور انھیں پنجاب کا انچارج بنایا گیا ہے۔ کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے، جو اتفاق سے خود بھی دلت ہیں، نے کہا کہ ’پارٹی سماج کے سبھی طبقات کے لیے کھڑی ہے، لیکن جو لوگ تاریخی طور سے پسماندہ رہے ہیں، مثلاً او بی سی، انھیں اب واجب جگہ دی جائے گی۔‘ راہل گاندھی کے ’سنویدھان سمیلنوں‘ کے چیف آرگنائزر انل جئے ہند کی او بی سی محکمہ کے چیف کی شکل میں تقرری کو اس سمت میں اصلاح کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

کانگریس کی سرکردہ تنظیموں کا اب پارٹی کو از سر نو زندہ کرنے کی پالیسی میں اہم کردار ہے۔ انڈین یوتھ کانگریس میں نئی توانائی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ کرشنا الاورو کی قیادت میں اس نے ’ینگ انڈیا کے بول‘ جیسی پہل شروع کی ہے، جو مستقبل کے پارٹی ترجمانوں کے لیے صلاحیت کی تلاش ہے۔ پٹنہ میں حال ہی میں اختتام پذیر پارٹی کی ’ہجرت روکو، ملازمت دو‘ یاترا کی اختتامی تقریب میں الاورو نے مستقبل کے لیڈران سے کہا کہ ’’آج آپ کو چکر کاٹنے کی ضرورت نہیں؛ اگر آپ کے پاس صلاحیت ہے اور نظریات کی سمجھ ہے، تو آپ کو پلیٹ فارم مل جائے گا۔‘‘


کنہیا کمار کی قیادت میں این ایس یو آئی میں بھی اسی طرح کا جذبہ دکھائی دے رہا ہے۔ اس نے دہلی یونیورسٹی طلبا یونین کا صدر عہدہ جیتا اور حال ہی میں پٹنہ یونیورسٹی کے انتخابات میں بھی اچھی کارکردگی پیش کی۔ ’آل انڈیا پروفیشنلز کانگریس‘ نے منموہن سنگھ فیلوشپ پروگرام شروع کیا ہے، جس کا مقصد ادارہ جاتی رہنمائی اور تربیت کے ذریعہ ’مڈل کیریئر‘ پیشہ وروں کو سیاست میں لانا ہے۔

نئے نظام میں ’سیوا دَل‘ کو نیا مقصد مل گیا ہے۔ سیوا دَل کا قیام 1923 میں ایک سرکردہ تنظیم کی شکل میں ہوا تھا، جو دھرنا و مظاہرہ کے لیے کارکنان کو یکجا کرتا تھا، نئے کانگریس کارکنان کو شامل کرتا تھا اور تحریک ترک موالات کی حمایت کرتا تھا۔ اس کے کارکنان نے ’بھارت جوڑو یاترا‘ اور ’بھارت جوڑو نیائے یاترا‘ دونوں میں اہم کردار نبھایا، جس سے کانگریس کی زمینی سطح کے تنظیم سے منسلک پرانے لوگوں کو تب کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ سیوا دَل کی خاتون برانچ (جس پر انگریزوں نے پابندی لگا دی تھی، آزادی کے بعد بھی اس پابندی کو رسمی طور سے کبھی نہیں ہٹائی گئی) کو بھی از سر نو زندہ کیا گیا ہے، جس سے پارٹی کی وراثت کے ساتھ پھر سے شمولیت میں ایک نئی جہت جڑ گئی ہے۔


سیوا دَل کے چیف لال جی دیسائی نے بتایا کہ تنظیم کا ’روی ملن‘ پروگرام، جس کا مقصد پارٹی کو زمینی سطح پر از سر نو زندہ کرنا اور اس کی توسیع کرنا ہے، ایک بڑی کامیابی رہی ہے۔ ہر مہینے کے آخری اتوار کو سیوا دَل کے سینئر اراکین ملک بھر میں نئے اراکین سے ملتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم نے 300 سے زیادہ ضلعوں میں میٹنگیں کی ہیں۔‘ سیوا دَل کے ’ہر پارک میں ترنگا‘ مہم کے بارے میں لال جی نے کہا کہ ’آر ایس ایس پارکوں میں شاخہ لگاتا ہے اور بھگوا پرچم لہراتا ہے؛ ہمارا پیغام صاف ہے- نہ بھگوا اور نہ ہی ہرا، عوامی مقامات پر صرف ترنگا لہرایا جانا چاہیے۔‘

اقلیتی محکمہ نے بہترین مقر عمران پرتاپ گڑھی کی قیادت میں آؤٹ ریچ پروگرام شروع کیا ہے، جن کے پارلیمنٹ میں دیے گئے جوشیلے بیانات نے انھیں سوشل میڈیا پر بہت مقبول بنا دیا ہے۔

کئی سالوں میں پہلی مرتبہ ایسا لگ رہا ہے کہ پارٹی صرف نعروں یا پرانی یادوں سے نہیں، بلکہ ساخت، منصوبہ بندی اور زمینی سطح پر سرگرمی کے ساتھ جوابی حملہ کر رہی ہے۔ یہ تبدیلی گزشتہ ناکامیوں کا حساب کتاب ہے، ایک منصوبۂ جنگ ہے اور مستقبل کے لیے ایک خاکہ بھی ہے۔ سیاسی مبصرین پارٹی کی تشکیل نو کے اقدام کو دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں۔ جو لوگ کانگریس کو بی جے پی-آر ایس ایس کی تخریبی سیاست کے خلاف مزاحمت کے مرکز میں دیکھتے ہیں، وہ بڑی امید کے ساتھ ہو رہی تبدیلیوں پر نظر رکھ رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔