سکڑتا، سمٹتا، چھو منتر ہوتا جنتر منتر

اگر جمہوریت میں ذرا بھی یقین ہے، سیاسی آزادی، اظہارِ رائے کی آزادی کی ذرا بھی للک ہے اور آج کا جنتر منتر نہیں دیکھا ہے تو ضرور جا کر دیکھ لیا جانا چاہیے۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

قومی آواز تجزیہ

اب سے چار چھ سال پہلے کبھی آپ دہلی واقع جنتر منتر جاتے تھے؟ حال کے دنوں مین کیا کبھی جنتر منتر گئے؟ فلکیاتی رصدگاہ دیکھنے نہیں، اُس دھرنا اور مظاہرہ کی جگہ پر جہاں جمہوریت زندہ رہا کرتا تھا اور سیاسی سرگرمیاں عروج پر۔ پوری سڑک پر جو ایک طرح سے حکومت کی طرف سے طے کی گئی جگہ تھی، جہاں ہر طرح کی ناانصافی اور استحصال کے شکار لوگ اپنی شکایتیں و مسائل لے کر جاتے تھے اور اس کے لیے آواز اٹھاتے تھے۔ ایک نہیں، کئی دھرنے ہمیشہ چلتے رہتے تھے۔ کئی تو سالوں تک چلتے رہے جن کے تذکرے پورے ملک میں ہوتے تھے۔ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیشہ جمہوریت اور سیاسی طور سے جنتر منتر گلزار رہتا تھا۔ اگر بہت زیادہ یاد نہیں تو اب سے کچھ سال پہلے اسی جنتر منتر پر 2011 میں لوک پال کو لے کر ہوئی ’انا تحریک‘ اور 2012 میں نربھیا کو انصاف دلانے کے لیے چلائی گئی تحریک شاید ہی کوئی بھولا ہوگا۔ اسی جنتر منتر پر جون 2015 کو سابق فوجیوں کا وَن رینک، وَن پنشن کے ایشو پر بڑا مظاہرہ ہوا تھا۔ رام سیتو کو بچانے کے لیے بھی 2007 میں اسی جگہ تحریک چلائی گئی تھی۔ اس کے علاوہ بھی کئی بڑے دھرنا و مظاہرے کا یہ جگہ گواہ رہا ہے۔ لیکن اب وہاں جانے پر سکڑتا، سمٹتا، چھو منتر ہوتا جنتر منتر نظر آئے گا۔

اگر جمہوریت میں ذرا بھی یقین ہے، سیاسی آزادی، اظہارِ رائے کی آزادی کی ذرا بھی للک ہے اور آج کا جنتر منتر نہیں دیکھا ہے تو ضرور جا کر دیکھ لیا جانا چاہیے۔ پورے ملک میں دھرنا و مظاہروں کے لیے مشہور تاریخی جنتر منتر کا حال مایوس کرنے والا ہی لگے گا۔ یہ جگہ ایک بہت ہی چھوٹی سی جگہ میں ایک طرح سے بند ہو کر رہ گیا ہے۔ اس چھوٹی سی جگہ کی دونوں جانب بیریکیڈنگ ہے اور اس کے باہر اندر کافی تعداد میں سیکورٹی اہلکار تعینات رہتے ہیں۔ سڑک کی دونوں جوانب سے جہاں سے بھی کسی دھرنا والی جگہ پر جانا چاہیں گے، بے حد پیچیدہ جگہ ملتی ہے جس میں ایک شخص ہی کسی طرح گھس سکتا ہے اور اسی طرح کوئی اکیلے ہی نکل سکتا ہے۔ اندر جانے پر لگتا ہے کہ وہاں ایک دو چھوٹے دھرنے ہی کیے جا سکتے ہیں۔ انّا تحریک اور نربھیا معاملے پر ہوئے وسیع عوامی تحریکوں کی طرح کا کوئی مظاہرہ وہاں ہو پانا فی الحال ناممکن ہے محسوس ہوگا۔ میڈیا اہلکار ہوں یا مظاہرین کے حامی، دھرنا والی جگہ پر آنے جانے والے ہر کسی کی پولیس اہلکاروں کے ذریعہ تصویر بھی وقت وقت پر لی جاتی ہے۔ اس سب سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جنتر منتر کا کیسا حال ہو گیا ہے۔ وہاں دھرنا دینے والوں کی اپنی طرح طرح کی شکایتیں رہتی ہیں جنھیں جیسے کوئی سننے والا نہیں۔


جنتر منتر کے ساتھ کوئی پہلی بار ایسا کچھ ہو رہا ہے، ایسا بھی نہیں ہے۔ پہلے ووٹ کلب سے لے کر رام لیلا میدان اور لال قلعہ میدان وغیرہ مقامات پر بھی دھرنے و مظاہرے ہوتے تھے۔ کسان لیڈر مہندر سنگھ ٹکیت کے ووٹ کلب کی تحریک کو کوئی آسانی سے نہیں بھلا سکتا ہے۔ ووٹ کلب پر ہی وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کی بھی ایک بڑی تحریک ہوئی تھی۔ دیگر مقامات پر سیاسی پارٹیوں کی بڑی بڑی ریلیاں بھی ہوا کرتی تھیں۔ بعد میں 1993 میں ایک طرح سے جنتر منتر کو دھرنا و مظاہرہ کے لیے طے جگہ بنا دیا گیا تھا۔ اس درمیان ایک بار مظاہرہ والی جگہ کو جنتر منتر سے کہیں دوسری جگہ منتقل کر دینے کا حکم 2017 میں این جی ٹی کی طرف سے آ گیا تھا جس کو لے کر مضبوط آوازیں اٹھائی گئی تھیں اور معاملہ عدالت تک پہنچا تھا۔ تب عدالت کی مداخلت سے پھر سے جنتر منتر کو ہی دھرنا و مظاہرہ کے لیے طے جگہ قرار دیا گیا تھا۔ فی الحال احتجاجی مظاہروں کے لیے جگہ تو جنتر منتر ہی منظور شدہ ہے، لیکن اسے اتنا محدود کر دیا گیا ہے کہ پہلے جیسی حالت بچ ہی نہیں پائی۔ اس کے پیچھے کی وجہ کچھ بھی ہو سکتی ہے، لیکن اتنا تو مانا ہی جا سکتا ہے کہ احتجاج کرنے اور آواز اٹھانے کی گنجائش کو انتہائی محدود کر دیا گیا ہے۔ اس عمل کو جمہوریت کے لحاظ سے مناسب نہیں کہا جا سکتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔