آر ٹی آئی: برسوں کا ڈاٹا مرکزی حکومت کے انفارمیشن پورٹل سے غائب!

آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت شہریوں کو حکومت کی کارگزاریوں سے متعلق جانکاری حاصل کرانے والے مرکزی حکومت کے پورٹل سے برسوں کا ڈاٹا غائب ہو گیا ہے، ساتھ ہی اس پورٹل پر میں کئی خامیاں بھی نظر آ رہی ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>آر ٹی آئی، تصویر سوشل میڈیا</p></div>

آر ٹی آئی، تصویر سوشل میڈیا

user

قومی آواز تجزیہ

مرکزی حکومت کے آر ٹی آئی آن لائن پورٹل سے سینکڑوں کی تعداد میں درخواستوں کے ریکارڈ غائب ہو گئے ہیں۔ اس کا استعمال عوام مختلف ایشوز پر حکومت سے جانکاری حاصل کرنے کے مقصد سے درخواست داخل کرنے کے لیے کرتے تھے۔ اس بات کی تصدیق کئی آر ٹی آئی کارکنان نے کی ہے۔ ڈی او پی ٹی (ڈپارٹمنٹ آف پرسونل اینڈ ٹریننگ) اس پورٹل کا مینجمنٹ دیکھتا ہے اور سرکاری افسران کو آر ٹی آئی درخواستوں پر کیسے رد عمل دینا چاہیے اور اس کا رکھ رکھاؤ کیسے ہو، اس کی تربیت دیتی ہے اور پیمانوں کو بتاتی ہے۔

بہار کے ایک آر ٹی آئی کارکن کنہیا کمار نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پورٹل پر ان کے اکاؤنٹ میں جنوری 2021 سے لے کر اگست 2023 تک سینکڑوں غلطیاں نظر آئی ہیں۔ اسی طرح نیشنل ہیرالڈ کے صحافی کا اکاؤنٹ اب دستیاب ہی نہیں ہے، اور نہ ہی اس اکاؤنٹ کے لیے 'فارگوٹ پاسورڈ' کا متبادل پیش کیا جا رہا ہے۔


آر ٹی آئی آن لائن پورٹل پر عوام ڈیجیٹل ذریعہ سے صرف 10 روپے ادا کر کے درخواست داخل کر سکتے ہیں۔ یہ سہولت دیگر روایتی ذرائع سے بہت بہتر تھی، جس میں درخواست کے ساتھ یا تو پوسٹل آرڈر یا پھر چیک لگانا ہوتا تھا، جس پر پوسٹ آفس کی مہر ضروری ہوتی تھی۔ اس پورٹل کا رکھ رکھاؤ این آئی سی (نیشنل انفارمیٹکس سنٹر) دیکھتی ہے۔

'دی ہندو' اخبار میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق آر ٹی آئی آن لائن پورٹل نے 2013 میں لانچ ہونے کے بعد سے 2022 تک 58.3 لاکھ سے زیادہ درخواستوں پر کارروائی کی ہے۔ اس پورٹل پر داخل کی گئی درخواستوں کی تعداد لگاتار بڑھ رہی ہے۔ 2022 میں 12.6 لاکھ سے زیادہ درخواستیں داخل کی گئی ہیں۔ اس پورٹل کا مینجمنٹ کرنے والے ڈی او پی ٹی نے اس بارے میں 'دی ہندو' اخبار کے ذریعہ غائب ہوئے ڈاٹا کے بارے میں پوچھے گئے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔


اس پورٹل کے ذریعہ عوام مرکزی حکومت کی سبھی وزارتوں، محکموں، متعلقہ اداروں، ریگولیٹریز، بیرون ممالک میں ہندوستانی مہموں اور کچھ مرکز کے زیر انتظام خطوں سے جانکاری حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے شہریوں کو اس پورٹل پر اکاؤنٹ بنانا ہوتا ہے اور اس کے بعد دس روپے فی درخواست ادائیگی کے بعد درخواست کو یا تو ڈاک سے بھیجنا ہوتا ہے یا آن لائن جمع کرنا ہوتا ہے۔ گزشتہ سال مرکزی حکومت نے اس پورٹل پر نئے اکاؤنٹ بنانے کی سہولت ختم کر دی تھی۔ ڈی او پی ٹی نے اس کے پیچھے ویب سائٹ پر زیادہ لوڈ ہونا وجہ بتائی تھی۔ لیکن جن کے اکاؤنٹ پہلے سے تھے انھیں سہولت دی گئی تھی کہ وہ ہر چھ ماہ میں کم از کم ایک درخواست ضرور داخل کریں، تبھی ان کا اکاؤنٹ ایکٹیو رہے گا۔

پورٹل پر درخواست کرنا اس لیے بھی سہولت آمیز تھا کیونکہ درخواست کنندہ کی نجی جانکاری پورٹل پر پہلے سے ہی موجود رہتی تھی اور انھیں ہر بار نہیں بھرنا پڑتا تھا۔ لیکن اب درخواست دہندگان کو ہر درخواست کے وقت نجی جانکاریاں بھرنی ہوں گی۔ ڈیجیٹل رائٹس ایکٹیوسٹ شرینواس کوڈالی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر لکھا ہے کہ انھوں نے ہندوستان میں ڈیجیٹائزیشن کے لیے اپنے کام کے تحت سینکڑوں آر ٹی آئی درخواستیں دی ہیں۔ انھوں نے لکھا کہ "مجھے ہزاروں صفحات، سی ڈی، ڈی وی ڈی ملے ہیں۔ این آئی سی نے اب http://rtionline.gov.in سے سبھی آر ٹی آئی درخواستوں کو ہٹا دیا ہے۔ یہ اس ملک میں حکومت کے آرکائیول ہسٹری کو مٹانے جیسی بات ہے۔" انھوں نے مزید لکھا ہے کہ سرکاری احکامات کو ہٹانا ایک سنگین ایشو ہے۔ اس بارے میں پوٹل کے صارف کو کوئی آفیشیل جانکاری بھی نہیں دی گئی۔


واضح رہے کہ آر ٹی آئی ایکٹ 2005 ہندوستان میں ایک تاریخی قانون تھا جس نے ایک شہری کو حکومتوں سے جانکاری مانگنے کا حق دیا اور اس سے شفافیت بڑھی۔ حالانکہ 2014 کے بعد سے درخواستوں کے ذریعہ سے یا اپیل میں جانکاری حاصل کرنے کا نظام، سرکاری اداروں کی عدم توجہی کا انداز اور اکثر سالوں تک انفارمیشن کمشنرز کی تقرری نہ ہونے کے سبب اس میں دقتیں آنی شروع ہو گئی تھیں۔

اعداد و شمار کے مطابق ہر سال آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت تقریباً 60 لاکھ درخواستیں داخل کی جاتی ہیں، جس سے یہ دنیا میں سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والا شفاف قانون بن گیا تھا۔ آر ٹی آئی کارکن انجلی بھاردواج اور امرتا جوہری نے لکھا ہے کہ قومی اندازے سے پتہ چلا ہے کہ ان میں سے ایک بڑا حصہ سماج کے سب سے غریب طبقوں کے ذریعہ داخل کیا گیا ہے۔ ہندوستان کے ہر شہری کو سرکاری فائلوں اور ریکارڈ تک پہنچنے کا حق دے کر، قانون نے ممکنہ طور سے 130 کروڑ لوگوں کو ایک طرح سے حکومت کی نگرانی اور اس کا آڈیٹر بنا دیا تھا۔


2019 میں آر ٹی آئی ایکٹ میں کافی ترامیم کیے گئے، جس نے کمشنرز کو دیے گئے متعین وقت اور اعلیٰ درجہ کے آئینی سیکورٹی کو ختم کر دیا۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سخت مخالفت کے باوجود حکومت نے آر ٹی آئی (ترمیمی) ایکٹ کو آگے بڑھایا جو مرکزی حکومت کو سبھی انفارمیشن کمشنرز کی مدت کار اور تنخواہ مقرر کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ مئی 2014 کے بعد سے سی آئی سی (سنٹرل انفارمیشن کمیشن) کے ایک بھی کمشنر کی تقرری نہیں کی گئی، جب تک کہ شہریوں نے عدالتوں کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا۔ حال میں یشوردھن کمار سنہا چیف انفارمیشن کمشنر ہیں۔ سنٹرل انفارمیشن کمیشن آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت اعلیٰ اپیلیٹ باڈی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کے حال میں ختم ہوئے اجلاس میں ڈیجیٹل پرسنل ڈاٹا پروٹیکشن ایکٹ کا پاس ہونا پچھلے دروازے سے آر ٹی آئی ایکٹ میں ترمیم کرنے جیسا ہوگا۔ بل پر دستخط کر کے قانون بنا دیا گیا ہے۔ نیا ڈاٹا بل سرکاری ایجنسیوں کو کسی بھی طرح کی نجی جانکاری شیئر کرنے سے روکتا ہے، بھلے ہی اس سے عوامی مفاد جڑا ہو۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔