رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ رمضان... آفتاب احمد منیری

سید الانبیاء حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم امت کے لیے جود و سخا کے پیکر تھے، ماہ صیام کی آمد کے ساتھ آپ کی فیاضی میں غیر معمولی اضافہ ہو جایا کرتا تھا، آپ سیاہ بادلوں کی مانند فیاض ہو جاتے تھے۔

تصویر بشکریہ گلف نیوز
تصویر بشکریہ گلف نیوز
user

آفتاب احمد منیری

ہر طرح کی شکرگزاری اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جس کے کرم کے طفیل ایک بار پھر ماہِ رمضان المبارک ہمارے اوپر سایہ فگن ہے۔ ہماری زندگی کے صحرا میں اس ماہ محترم کی مثال آمد فصل بہار جیسی ہے۔ بہت خوش نصیب ہے وہ انسان جسے یہ مبارک مہینہ نصیب آیا ہے۔ اس اشرف ترین مہینے کی فضیلت کو بتانے کے لیے قرآنی آیات اور متعدد حدیثیں وارد ہوئی ہیں۔ اس ضمن میں ’کتاب الصیام‘ کی یہ حدیث قابل ذکر ہے: ’’شعبان کے آخری دن رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ صیام کے فضائل بیان کرتے ہوئے صحابہ سے فرمایا– لوگو! ایک بہت بڑے اور بابرکت مہینے نے اپنے سایۂ رحمت کے نیچے تمھیں لے لیا ہے۔ اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں۔ اس مہینے میں جس کسی نے نفل عبادت کے ذریعہ اللہ کا تقرب حاصل کیا، اس کا اجر و ثواب ویسا ہی ہوا جیسا کہ رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں فرض کا ہوتا ہے۔ اور جس کسی نے اس مہینے میں فرض عبادت ادا کی اس کا اجر و ثواب اللہ کے نزدیک 70 فرضوں کے برابر ہوگا۔ یہ صبر اور برداشت کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ اس مہینے میں مومن کے رزق میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ جس کسی نے اس مہینے میں کسی کو روزہ افطار کرایا تو یہ عمل اس کے گناہوں کی بخشش اور نجات کا ذریعہ ہوگا۔‘‘

سید الانبیاء حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم امت کے لیے جود و سخا کے پیکر تھے۔ ماہ صیام کی آمد کے ساتھ آپ کی فیاضی میں غیر معمولی اضافہ ہو جایا کرتا تھا۔ آپ سیاہ بادلوں کی مانند فیاض ہو جاتے تھے۔ رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عادت مبارکہ سے امت کو یہ سبق ملتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں صلہ رحمی اختیار کرے اور ماہ قرآن کی مقدس ساعتوں میں اس عمل کو خاص کر لے۔ یہ عام مشاہدہ ہے کہ مسلمانوں کا مالدار طبقہ معاشرہ کے غریب افراد کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے غافل نظر آتا ہے، جبکہ امام کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: زکوٰۃ امت کے مالدار طبقے سے لی جائے گی اور فقرا و مساکین کے درمیان تقسیم کی جائے گی۔ رمضان کے ایام میں جب ایک شخص بھوک اور پیاس کی شدت محسوس کرتا ہے تو اسے فاقہ کش انسانوں کی تکلیف کا احساس ہوتا ہے اور وہ صدقہ اور خیرات کے ذریعہ غریب مسلمانوں کی مدد کرتا ہوا نظر آتا ہے۔


روزہ انسان کی تطہیر قلب کا ضامن بھی ہے۔ رمضان کریم کا آغاز ہوتے ہی انسانی رویہ میں ایک خوش گوار قسم کی تبدیلی آ جاتی ہے۔ وہ حسب استطاعت گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور نیکیوں میں سبقت کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ رمضان کریم کی آمد کے ساتھ ہی مساجد میں نمازیوں کی کثرت اور صلوٰۃ تراویح کا خصوصی اہتمام نیز افطار میں دوسروں کو شریک کرنے کا جذبہ... یہ تمام چیزیں ایمان کے وہ ثمرات ہیں جو ہمیں رمضان المبارک کے وسیلے حاصل ہوئی ہیں۔

ہماری جانب سے کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہمارے رویہ میں جو خوشگوار تبدیلی آمد ماہ صیام کے ساتھ آنی شروع ہوتی ہے وہ جذبۂ دینداری اور صلہ رحمی پورے سال باقی رہے تاکہ ہم محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے میعار پر کھڑے اتر سکیں اور دنیا و آخرت کی کامرانی و سرخروئی ہمارا مقدر ہو۔


رمضان کریم کی آمد کے ساتھ ہی رحمت باری تعالیٰ کی بارش برسنے لگتی ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم رحمت کی اس بارش سے کس حد تک فیضیاب ہو سکتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ مشہور حدیث اس جانب بہت واضح اشارہ کرتی ہے: ’’ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے اور منبر لانے کا حکم دیا۔ اس کے بعد آپؐ نے پہلے زینے پر اپنے قدم رکھے اور آمین کہا۔ پھر دوسرے زینے پر قدم رکھا اور آمین کہا، اور پھر یہی عمل تیسری بار بھی انجام دیا۔ اس کے بعد آپؐ نے نماز کی امامت فرمائی۔ نماز کے بعد جب صحابہ نے آپ کے اس عمل کی وجہ دریافت فرمائی تو آپؐ نے فرمایا- ابھی میرے پاس جبرئیل آئے تھے اور انھوں نے فرمایا کہ اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جس نے رمضان جیسا مہینہ پایا اور اس مہینے میں اللہ کو راضی کر اپنی مغفرت نہ کرا سکا۔‘‘

اس گفتگو کی غرض و غایت بس اتنی ہے کہ ہم اس عشرہ رحمت کو اپنے حق میں رحمت الٰہی کا وسیلہ بنائیں اور اپنے روزوں سمیت تمام فرائض اور نفل عبادات کے ذریعہ اللہ کو راضی کریں۔ یہ ماہ مکرم ہمیں اس کا سنہری موقع عطا کرتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔