رمضان مبارک! مدت سے تھے ہم منتظر، فضل خدا آیا تو پھر... آفتاب احمد منیری

رمضان کریم کی حیثیت ایک مقدس مہمان کی ہے جو ہمارے درِ زیست پر دستک دے چکا ہے، جس طرح ہم اپنے خاص مہمان کی قدر و منزلت کرتے ہیں، رمضان کا احترام بھی اسی کے شایان شان کرنا چاہیے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div>

تصویر سوشل میڈیا

user

آفتاب احمد منیری

ایک ایسے وقت میں ماہ رمضان ہمارے اوپر سایہ فگن ہو رہا ہے جب پورا عالم اسلام شدید ترین آزمائش سے دو چار ہے۔ ارضِ فلسطین اور غزہ کے قیامت خیز حالات سے کون واقف نہیں جہاں صہیونی درندوں نے ہزاروں بے قصور انسانوں، بشمول عورتوں و بچوں کو موت کی نیند سلا کر اہل غزہ کے ہونٹوں کی ہنسی چھین لی ہے۔ غزہ کے معصوم بچے اور جوان اس حالت میں ماہ رمضان کا استقبال کریں گے کہ ان میں سے بیشتر افراد نہ جانے کب سے بھوک اور پیاس کی اذیتیں برداشت کر رہے ہوں گے۔ ہم اللہ تعالیٰ کا جس قدر بھی شکر کریں وہ کم ہے کہ اس نے ہمیں امن اور راحت والی زندگی عطا کی ہے اور ہم اس عالم میں رمضان کریم کا خیر مقدم کر رہے ہیں:

چشم بار ہو کہ مہمان آ گیا
دامن میں الٰہی تحفۂ ذیشان آ گیا
بخشش بھی، مغفرت بھی، جہنم سے بھی نجات
دست طلب بڑھاؤ کہ رمضان آ گیا

رمضان کریم کی حیثیت ایک مقدس مہمان کی ہے جو ہمارے درِ زیست پر دستک دے چکا ہے۔ جس طرح ہم اپنے خاص مہمان کی قدر و منزلت کرتے ہیں، اس کی ضیافت میں کسی قسم کی بھی کسر باقی نہیں چھوڑتے اور ہر اس کام سے پرہیز کرتے ہیں جو مہمان کی نظروں میں محبوب اور پسندیدہ نہیں ہوتا، بعینہٖ ہمیں رمضان کریم کا احترام اور اس کی قدر و منزلت بھی اس کے شایان شان کرنی چاہیے۔


یوں تو ماہِ صیام کا ہر لمحہ ہر ایک پل رحمتوں و برکتوں اور نوازشوں سے مزین ہے، لیکن اس ماہ محترم کی عظمتوں کا بنیاد حوالہ آخری آسمانی کتاب قرآن حکیم کا نزول ہے۔ اس آیت کریمہ میں رمضان کریم کا کس قدر جامع تعارف پیش کیا گیا ہے ملاحظہ فرمائیے: ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔ یہ لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور اس میں حق و باطل کے درمیان تمیز کی نشانیاں ہیں۔‘‘ (البقرہ: 188)

رحمت کائنات سیدالانبیاء حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ قرآن کے روزوں کا اہتمام ایمان اور احتسابِ نفس کے ساتھ کرنے والوں کو خوش خبری سناتے ہوئے فرمایا: ’’جس شخص نے رمضان کے روزے ایمان اور اخلاصِ نیت کے ساتھ رکھے اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔‘‘


مذکورہ حدیث کے اندر ہمارے لیے ایمانی زندگی کا مکمل فلسفہ موجود ہے۔ احتسابِ نفس اور اخلاص نیت تمام عبادات اور نیک اعمال کی روح ہے اور آمد ماہ صیام کی بنیادی غرض و غایت تقویٰ و پرہیزگاری کا حصول ہے۔ احتساب نفس کے بغیر ہم روزوں کے ثمرات اور اس کی حلاوت کو محسوس نہیں کر سکتے۔ روزہ بھی ایک مہتم بالشان عبادت ہے اور حالت عبادت میں ہمارے لیے جائز نہیں کہ ہماری زبان اور دوسرے اعضائے جسم معصیت الٰہی میں گرفتار رہے۔ واضح ہو کہ رمضان کریم کے روزہ بنیادی مقصد تزکیہ نفس یعنی احکامِ الٰہی کو خواہشات نفسانی پر مقدم رکھنا ہے، جیسا کہ اس آیت قرآنی سے اس اصول دین کا پتہ چلتا ہے: ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسا کہ تم سے اگلوں پر فرض کیے گئے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘ (البقرہ: 183)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل یہ ہے کہ وہ احکم الحاکمین اس ماہِ مکرم میں انسانوں کے ازلی دشمن شیطان کو قید زنداں میں ڈال دیتا ہے۔ چنانچہ جب رمضان کریم کی آمد ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں سے ارشاد فرماتے: ’’لوگو! تم پر ایک ایسا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے جس میں آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں نیز شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے۔‘‘


ذرا غور فرمائیے، جس شہر رمضان کی فضیلتوں اور برکتوں سے کتاب مبین قرآن حکیم اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اوراق بھرے ہوئے ہیں، جس ماہِ مبارک کی نفلی عبادتیں فرض عبادتوں کے مساوی قرار دی گئی ہیں، اس ماہِ عز و شرف کا ہم نے کس حد تک احترام کیا ہے؟ آج کے مسلم معاشرہ کا تنقیدی جائزہ لیں تو سر ندامت سے جھک جائے گا۔ مادی زندگی کی دوڑ میں ہم اس قدر مصروف ہو چکے ہیں کہ ہماری نظروں میں احکامِ الٰہی کی کوئی اہمیت باقی نہیں ہے۔ ہر سال روزہ خوروں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ، کھلے عام ہوٹلوں میں کھاتے پیتے اور سگریٹ نوشی کرتے لوگ... اس طرح کے شرمناک مناظر کیا اس دین کا مذاق نہیں اڑاتے جسے لے کر حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں آئے تھے۔ مسلم علاقوں میں شعار اسلام کے حوالے سے پائی جانے والی یہ مجرمانہ غفلت کیا دانشوران قوم اور ملی تنظیموں کے سربراہان کو مضطرب نہیں کرتی؟ کیا مساجد کے منبروں سے قوم کے غافل نوجوانوں اور کم علم لوگوں کو یہ پیغام نہیں دیا جا سکتا کہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر رمضان کا ایک روزہ ترک کرے گا تو تمام عمر کے روزے بھی اس کا کفارہ نہیں بن سکتے۔

دعا ہے کہ رب کریم رمضان کریم کی عظمتوں کو سمجھنے اور اس ماہ مبارک کے شایان شان اس کا استقبال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ حسب سابق پوری دنیا کے مسلمان رمضان کریم کا نہایت جوش اور ولولے کے ساتھ خیر مقدم کر رہے ہیں۔ مساجد ایک بار پھر نمازیوں سے آباد ہیں اور قرآن کی دلنواز صدائیں فضاؤں کو معطر کر رہی ہیں...۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔