پروفیسر علی خان تنازعہ: یہ آگ کا دریا ہے... اپوروانند

اشوکا یونیورسٹی نے جس طرح پروفیسر علی خان معاملے سے اپنا پلّہ جھاڑا ہے، وہ ظاہر کر رہا ہے کہ تعلیمی ادارہ کس طرح کے دباؤ کا سامنا کر رہے۔

<div class="paragraphs"><p>پروفیسر علی خان محمود آباد / تصویر بشکریہ ایکس</p></div>
i
user

اپوروانند

اشوکا یونیورسٹی کے شریک بانی نے ایک سابق طالب علم کو بھیجے گئے ای میل میں کہا ہے کہ یونیورسٹی سے اپنے کسی فیکلٹی کے سیاسی نظریہ کی حمایت کرنے کی امید کرنا مناسب نہیں۔ یہ ای میل سابق طالب علم کے ذریعہ پالٹیکل سائنس کے پروفیسر علی خان محمود آباد کی گرفتاری معاملے میں یونیورسٹی کی خاموشی پر سوال کھڑے کرنے کے جواب میں تھا۔ حال کے سالوں میں کئی یونیورسٹیوں کے فیکلٹی اراکین کے خلاف حکومت نے سزا کی کارروائی کی ہے۔ کسی میں بھی یونیورسٹی انتظامیہ نے حمایت یا خلاف میں کچھ نہیں کہا اور کسی بھی استاد نے یونیورسٹی سے کوئی رخ اختیار کرنے کا مطالبہ بھی نہیں کیا۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ اشوکا یونیورسٹی سے علی خان کے پوسٹ کے دفاع کی امید کرنا مناسب نہیں۔

حالانکہ سابق طلبا اور اکیڈمک طبقہ بس اتنا چاہتے تھے کہ یونیورسٹی انتظامیہ اپنے فیکلٹی اور طلبا کے لکھنے و بولنے کی آزادی کی حمایت میں کھڑا ہو۔ ہم یونیورسٹیوں سے امید نہیں کرتے کہ وہ قتل، جنسی استحصال یا دیگر جرائم کے ملزم کی حمایت میں کھڑے ہوں۔ لیکن اگر تعلیمی طبقہ کے کسی رکن کو اس کے باین کے سبب آر ایس ایس، اے بی وی پی جیسے ادارے پریشان کریں تو ہم امید کرتے ہیں کہ انتظامیہ کم از کم یہ تو کہے گا کہ وہ متعلقہ شخص کے اظہارِ رائے کے حق کے لیے کھڑا ہے؛ کہ وہ اپنے طبقہ کے کسی رکن پر کچھ لکھنے یا بولنے کے لیے کیے جانے والے حملے کی حمایت نہیں کر سکتا۔


یہ بھی نہیں، تو یونیورسٹی خاموش تو رہ ہی سکتا تھا۔ یونیورسٹی نے علی خان کے بولنے اور اظہارِ رائے کے حق کے لیے کھڑے نہ ہونے کا فیصلہ کیا اور عوامی طور سے ایسا کہا۔ یونیورسٹی کے پروموٹر مانیں گے کہ اساتذہ اور طلبا کو’یونیورسٹی سے باہر‘ کے کسی بھی ہندوستانی شہری کی طرح، بولنے کا حق ہے۔ جب آپ بولنے کے اس حق کے لیے کھڑے ہوتے ہیں، تو ضروری نہیں کہ آپ کہی گئی بات سے متفق ہوں، آپ صرف اس حق کے استعمال کا دفاع کرتے ہیں۔ کیا اشوکا یونیورسٹی کے پروموٹرس کے لیے اس فرق کو سمجھنا اتنا مشکل ہے؟ اس کی جگہ انھوں نے اس فیکلٹی رکن سے دور رہنا منتخب کیا، جو بولنے کے اپنے آئینی حق کا استعمال کر رہا تھا۔ انھیں خود کو الگ رکھنا کیوں ضروری لگا؟

یونیورسٹی نے کہا کہ ’’کسی فیکلٹی رکن کے ذریعہ اپنے ذاتی سوشل میڈیا پیج پر کیا گیا تبصرہ یونیورسٹی کی رائے نہیں۔‘‘ ہم سب یہ سمجھتے ہیں۔ جب ہم کوئی ریسرچ پیپر یا اکیڈمک مضمون لکھتے ہیں تو کیا امید کرتے ہیں کہ ہمارا ادارہ ان کا دفاع کرے گا؟ نہیں، ہم ذاتی طور پر اس کا دفاع کرتے ہیں۔ جب ہم کوئی تحقیقی اصول اختیار کرتے ہیں، تو کیا امید کرتے ہیں کہ یونیورسٹی اسے منظور کرے اور اس کا دفاع کرے؟ نہیں، ہم ذاتی طور پر ایسا کرتے ہیں۔ ایک طرح سے سبھی دانشور اپنے ہدف میں تنہا ہوتے ہیں۔ ہم اکیڈمک دنیا سے بس اتنا چاہتے ہیں کہ اس تنہا سفر کے لیے سمجھ اور یکجہتی ہو۔


چلیے، تھوڑی دیر کے لیے علی خان کے معاملے کو الگ رکھ دیتے ہیں۔ سبیہ ساچی داس پر آتے ہیں۔ وہ بھی فیکلٹی رہے، جن سے اشوکا یونیورسٹی نے پلہ جھاڑ لیا۔ انھوں نے انتخابی رجحانات پر اپنا تحقیقی پیپر سوشل میڈیا پر ڈالا تھا۔ ان کی تحقیق چل ہی رہی تھی اور یقیناً ہی ایسا کر کے وہ مزید جانکاری جمع کرنا چاہ رہے تھے۔ انھیں ان لوگوں نے نشانہ بنایا جو آج علی خان پر حملہ آور ہیں۔ آر ایس ایس نیٹورک کی ناراضگی کے بعد یونیورسٹی نے فوراً خود کو ان سے الگ کر لیا۔

یونیورسٹی انتظامیہ کا یہ کہنا درست ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کے تحقیقی نتائج کے لیے ذمہ دار نہیں ہیں، لیکن اشوکا یونیورسٹی نے یہ کہہ کر ان کے کام کو خارج کرنا ضروری سمجھا کہ ’اشوکا ایسی تحقیق کو اہمیت دیتا ہے جس کا سنجیدگی کے ساتھ تجزیہ کیا گیا ہو اور جو مشہور رسالوں میں شائع ہو۔ جہاں تک ہماری جانکاری ہے، زیر غور ریسرچ پیپر نے اب تک تنقیدی تجزیہ کا عمل پورا نہیں کیا ہے اور یہ کسی اکیڈمک میگزین میں شائع نہیں ہوا ہے۔ اشوکا کے اساتذہ، طلبا یا ملازمین کے ذریعہ اپنی ذاتی صلاحیت میں کی گئی سوشل میڈیا سرگرمی یا عوامی فعالیت یونیورسٹی کے رخ کو نہیں ظاہر کرتی۔‘


داس کے رفقائے کار کی مانیں تو انتظامیہ نے ان کی تحقیق میں مداخلت کی کوشش کی اور ایسے مشورے دیے جو ان کے حق میں نہیں تھے۔ داس جس شعبۂ معاشیات کا حصہ تھے، اس نے کہا کہ ’’تعلیمی تحقیق کی تشخیص رفقائے کار تجزیہ کے عمل کے ذریعہ پیشہ ور طور سے کیا جاتا ہے۔ ان کے حالیہ مطالعہ کی خوبیوں کی جانچ کے لیے مداخلت تنظیمی استحصال ہے، تعلیمی آزادی کو گھٹاتا ہے اور دانشوروں کو خوف کے ماحول میں کام کرنے کے لیے مجبور کرتا ہے۔‘‘ پالٹیکل سائنس ڈپارٹمنٹ نے کہا کہ ’’ایڈمنسٹریٹو باڈی کی کارروائی نے طلبا کو اشارہ دیا ہے کہ ہم کلاس کے اندر اور باہر جو کام کرتے ہیں، اسے کمزور کیا جاتا ہے۔‘‘

داس سے پہلے بھی اشوکا یونیورسٹی نے پرتاپ بھانو مہتا کو یونیورسٹی چھوڑنے کے لیے ’راضی‘ کیا تھا۔ یہ صرف مہتا کی شخصیت اور ان کا دانشور رویہ تھا جس سے بی جے پی حکومت نفرت کرتی تھی اور مستقبل میں ممکنہ پریشانی اور شرمندگی کو دیکھتے ہوئے یونیورسٹی نے یہ قدم اٹھایا۔ مہتا سے پہلے یونیورسٹی نے راجندر نارائن کو کشمیری لوگوں سے جڑے ایشوز پر ایک عرضی کی حمایت کرنے کے بعد استعفیٰ دینے کو مجبور کیا تھا۔


ان سبھی واقعات میں کچھ یکسانیت ہے۔ ہندوتوا عناصر کی دھمکی اور یونیورسٹی کی ان کے سامنے مضبوطی سے کھڑے ہونے کی عدم خواہش۔ لیکن اشوکا کے پروموٹر یہ ماننا نہیں چاہتے کہ وہ ڈرے ہوئے ہیں، کہ ہم ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں بی جے پی نامی ایک دبنگ حکومت ہے اور ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے وہ اعلیٰ اخلاقی بنیاد لینے کی کوشش کرتے ہیں، اکیڈمک سختی کے تئیں اپنے عزائم ظاہر کرتے ہیں اور اشارہ دیتے ہیں کہ علی خان جو کر رہے ہیں، وہ اکیڈمک نہیں ہے؛ فیکلٹی اراکین کو ریسرچ پیپر لکھنے اور اکیڈمک دنیا میں اوپر اٹھنے کے لیے اکیڈمک پوائنٹس حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

مجھے عظیم استاد اور دانشور و مصنف اوپیندر بخشی کا مضمون یاد آ رہا ہے، جس میں ایک استاد کی شکل میں اپنی زندگی پر نظر ڈالتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے طلبا کے اس اَن کہے سوال سے پریشان رہتے ہیں: ’آپ ہمارے لیے کیا بہتر کر سکتے ہیں؟‘


اس سوال پر کہ آپ کس کام کے ہیں؟ میں کہتا ہوں: صرف یہ مت دیکھیے کہ میں کیا کہتا ہوں؛ یہ دیکھیے کہ میں جو کہتا ہوں، اس کے ساتھ میں کیا کرتا ہوں۔ میں جو کہتا ہوں، اس پر نوجوان ذہن میں تب تک بھروسہ نہیں پیدا کر سکتا جب تک کہ وہ یہ نہ دیکھیں کہ میں جو کہتا ہوں، اس کا مطلب قانون کی حکومت، حقوق انسانی، انسانی وقار سے ہے۔ یہ اس سوال کے جواب کی تلاش ہے جس نے مجھے ہندوستان میں کئی معنوں میں کلاس کے باہر سماجی و قانونی فعالیت کے مقابلے میں دھکیلا ہے۔

بخشی اساتذہ کے دو زمروں کی بات کرتے ہیں: دلیل پسند اور خوشی پسند۔ وہ پہلے والے کی بے عزتی نہیں کرتے، بلکہ دوسرے کو ترجیح دیتے ہیں۔ خوشی پسند اگر دلیل پسند پر عالمیت کے ذریعہ اقتدار کی لالچ پورا کرنے کا الزام عائد کرتا ہے، تو ’دلیل پسند‘ خوشی پسند کی مذمت کرتا ہے۔ خوشی پسند استاد کیا کرتے ہیں؟ آئیے، بخشی جی کو پھر سے سنیں۔ ’’خوشی پسند سوچتا ہے کہ وہ مطالعہ، تعلیم و تعلم اور تحقیق سے جتنا سیکھتا ہے، اتنا ہی زندگی کے جدوجہد سے بھی؛ اور وہ ان حالات اور اداروں کو بہتر بنانے کے لیے جذباتی عزم رکھتا ہے جس میں علم پھلتا پھولتا ہے۔‘‘ جو یونیورسٹی بنانا چاہتے ہیں، انھیں پہلے اس مضمون کو پڑھنا چاہیے اور طے کرنا چاہیے کہ وہ خوشی پسند اساتذہ کی تقرری کرنا چاہتے ہیں یا دلیل پسند اساتذہ کو۔ لیکن جیسا ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہر دلیل پسند زندگی میں ایک خوشی پسند ہوتا ہے، اس لیے اساتذہ خطرناک عنصر ہیں۔ تعلیم کے کاروبار کو فروغ دینے والوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ایسے کاروباری خطرے ہیں جن سے انھیں نمٹنا ہوگا اور جب ان کا سامنا کرنا پڑے تو شکایت نہیں کرنی چاہیے۔ یا پھر اس شعبہ میں داخل ہی نہ ہوں۔

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔