ووٹ بندی کے خلاف اپوزیشن کی محاذ بندی... وشو دیپک

ووٹرس کی خصوصی گہری نظرثانی کو لے کر پورے بہار میں گمراہی اور انارکی کا ماحول ہے۔ اقلیت، مہاجر اور محروم و غریب طبقات کے لوگوں کی حق رائے دہی پر خطرہ منڈلا رہا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر&nbsp;<a href="https://x.com/geetv79">@geetv79</a></p></div>

تصویر@geetv79

user

وشو دیپک

راشد کہتے ہیں ’’میں نے نہ درخواست دی اور نہ فارم بھرا، پھر بھی درخواست الیکشن کمیشن کے پورٹہ پر اپلوڈ ملا۔‘‘ اقلیتی طبقہ کے ووٹرس کو حق رائے دہی سے محروم کیے جانے کی دہشت کے درمیان انھوں نے چین کی سانس ضرور لی ہے، لیکن انھیں دوسرا خوف یہ ہے کہ اگر ان کا فارم ’خود بخود‘ اپلوڈ ہو گیا ہے، تو اسی طرح ہٹ بھی تو سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’میرے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے کہ میں نے فارم جمع کیا تھا۔ جب میں ڈپلی کیٹ فارم مانگتا ہوں تو مجھے ٹرکا دیا جاتا ہے۔‘‘

راشد کی ملاقات پٹنہ کے سلطان گنج علاقہ میں ایک درگاہ کے پاس نیم کے درخت کے نیچے اکٹھا کچھ مسلم نوجوانوں سے ہوئی۔ انھوں نے خود کو سماجی کارکن بتایا جو لوگوں کو فارم بھرنے اور جمع کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک نوجوان، جو کمپیوٹر ایپلی کیشن میں ماسٹر کا طالب علم ہے، راشد کی حمایت کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے ’’ہم آن لائن فارم جمع کرنا پسند کرتے ہیں، کیونکہ ہمارا ماننا ہے کہ یہ بی ایل او کو فارم سونپنے سے کہیں زیادہ محفوظ ہے۔ اکثر فارم اپنے آپ بھر دیے جاتے ہیں یا ان سے چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے۔ ہمیں نہیں پتہ ڈاٹا کون درج کر رہا ہے۔‘‘ کیا یہ تنہا واقعہ ہے یا کوئی تکنیکی خامی ہے؟ یا پھر کوئی بڑی سازش؟ کوئی نہیں جاتا۔


یوٹیوبر اجیت انجن نے کئی ویڈیو میں بوتھ سطح کے افسران (بی ایل او) کو جنوری 2025 میں شائع ترمیم شدہ ووٹر لسٹ کی بنیاد پر خالی فارم بھرتے دکھایا ہے۔ انھیں نہ صرف فارم بھرتے بلکہ ان ووٹرس کی طرف سے دستخط کرتے بھی دیکھا جا سکتا ہے جو اس سے بالکل انجان ہیں۔ راشد جیسے بیدار ووٹرس تو خطرہ سمجھ گئے ہیں، لیکن بیشتر ووٹرس انجان ہیں۔ راشد کے کنبہ کے 3 اراکین کے اپڈیٹیڈ فارم ان کی جانکاری کے بغیر اپلوڈ کر دیے گئے، جبکہ 2 دیگر فارم جمع کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

اپوزیشن اس معاملے میں سخت ٹکرا دیتا نظر آ رہا ہے۔ منمانے طریقے سے لوگوں کے نام ووٹر لسٹ سے ہٹانے کے خلاف انڈیا بلاک تحریک چلا رہا ہے۔ ریاست میں اہم اپوزیشن پارٹی آر جے ڈی نے ’’ووٹر بچاؤ مہم‘ چلائی ہے۔ آر جے ڈی ذرائع کا کہنا ہے کہ کوآرڈنیٹرس، کنوینرس اور سماجی کارکنان کو ایک ایک اسمبلی حلقہ سونپا گیا ہے تاکہ وہ لوگوں کی مدد کریں اور ووٹر لسٹ کی خصوصی گہری نظرثانی (ایس آئی آر) کی نگرانی کر سکیں۔ ووٹر لسٹ کی نظرثانی کا یہ کام 25 جولائی تک مکمل ہونا ہے۔


پٹنہ میں آر جے ڈی دفتر کے باہر بڑے بینر پر لکھا ہے ’’آر ایس ایس کے سروے میں تیجسوی کی حکومت بن رہی، اس لیے بی جے پی الیکشن کمیشن سے دھاندلی کروا رہی۔‘‘ پٹنہ میں آر جے ڈی دفتر میں سماجی خدمت گار مقامی یونٹس اور ضلع سربراہان کو فون کرنے میں مصروف ہیں؛ ان سے لوگوں کو متحد کرنے کو کہا جا رہا ہے۔ ایک سماجی خدمت گار کہتا ہے ’’ہدف ہر بوطھ سطح کے ووٹرس تک پہنچنا ہے، تاکہ ووٹ بندی کو روکا جا سکے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ پورے بہار سے ایسی خبریں آ رہی ہیں کہ افسران ووٹرس کے ذریعہ بھرے گئے فارم قبول نہیں کر رہے، خصوصاً جہاں انڈیا بلاک کی پارٹیاں فعال ہیں۔

آر جے ڈی ٹیم کا دعویٰ ہے کہ ایس آئی آر میں شیطانی ارادوں کے بہت ثبوت موجود ہیں۔ دربھنگہ میں بی جے پی ضلع خاتون سیل کی صدر ایک سرکاری دفتر میں بی ایل او کے بغل میں بیٹھ کر ایس آئی آر فارم دیکھتے کیمرے میں قید ہوئیں۔ گوپال گنج میں ضلع مجسٹریٹ نے مبینہ طور پر سماجی خدمات کو بتایا کہ 17 جولائی کے بعد فارم نہیں لیے جائیں گے، جبکہ ایسی کوئی مدت کار کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ ایسی ہی شکایت مغربی چمپارن کے بگہا سے بھی ملی ہے۔ دلت عیسائی لیڈر اور آر جے ڈی ہیڈکوارٹر کے انچارج مکند سنگھ کہتے ہیں کہ ’’یہ لوگوں کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کی سوچی سمجھی حکمت عملی ہے۔‘‘ کانگریس اور سی پی آئی (ایم ایل) نے بھی لوگوں کو ووٹرس کی شکل میں نامزد کرنے میں مدد کے لیے مساوی مہم چلا رکھی ہے۔


پٹنہ سے 400 کلومیٹر دور کشن گنج میں کانگریس ترجمان تمجید احمد کہتے ہیں ’’ہندوستانیوں سے شادی اور دہائیوں سے کشن گنج اور آس پاس رہ رہیں کئی نیپالی نژاد خواتین کو ہندوستانی شہریت ثابت نہ کر پانے کی صورت میں ووٹر لسٹ سے باہر کیا جا رہا ہے۔‘‘ انھوں نے نمائندہ کو بتایا کہ حالانکہ کمیشن نے کہا ہے کہ نیپالی اور بنگلہ دیشی نژاد کے شہریوں کے لیے الگ طریقۂ کار اختیار کیا جائے گا، لیکن زمینی سطح پر ایسا کچھ نہیں۔

سی پی آئی (ایم ایل) نے بھی عوامی مہم شروع کی ہے۔ پارٹی کی اسٹوڈنٹس اور یوتھ وِنگ لوگوں کی مدد کر رہی ہیں۔ پارٹی ذرائع کے مطابق پارٹی نے 2020 میں ریاست کی 19 نشستوں پر امیدوار اتار کر اسمبلی میں 16 سیٹیں جیتی تھیں۔ پارٹی رکن پارلیمنٹ سداما پرساد کی قیادت میں چلائی جا رہی مہم میں سی پی آئی (ایم ایل) کارکن ایس آئی آر فارم قبول کرنے سے انکار کرنے کو ریکارڈ کر رہے ہیں۔ بکسر سے آر جے ڈی رکن پارلیمنٹ سدھاکر سنگھ اس معاملے میں کہتے ہیں کہ ’’یہ سیاسی لڑائی ہی نہیں، آئین بچانے کی بھی لڑائی ہے۔ ہم نے سپریم کورٹ میں عرضی ڈالی، الیکشن کمیشن سے رابطہ کیا اور اب سڑکوں پر ہیں، تاکہ ووٹرس حق رائے دہی سے محروم نہ ہوں۔‘‘ اگر ایس آئی آر میں گڑبڑی ہوتی ہے تو کیا انڈیا بلاک الیکشن کا بائیکاٹ کرے گا؟ اس سوال کے جواب میں سدھاکر سنگھ کہتے ہیں ’’ہم بھگوڑے نہیں ہیں، ہم لڑیں گے۔ بہار کے لوگ اپنا ووٹ چھننے نہیں دیں گے۔‘‘ ایس آئی آر نے گمراہی، انارکی اور ٹکراؤ کو جنم دیا ہے۔ 25 جولائی میں چند دن بچے ہیں۔ ووٹرس اب بھی گمراہ ہیں اور افسران بے خبر ہیں۔


کئی سوالات ہیں، لیکن کوئی جواب نہیں۔ یہ سب اب کیوں ہو رہا ہے، خاص کر جب ووٹر لسٹ جنوری میں ہی اپڈیٹ ہوئی ہے؟ جنوری سے اب تک کیا بدلا ہے؟ اس کا فائدہ کسے ہوگا اور نقصان کسے؟ اس عمل کا مینجمنٹ کون کر رہا ہے؟ کوئی جوابدہی کیوں نہیں ہے؟

کیا یہ ووٹر لسٹ کی تجدید ہے یا پچھلے دروازے سے این آر سی اور شہریت کو جانچ کرنا؟ سرکاری افسران بھی اس معاملے میں غیر یقینی کا شکار ہیں۔ جس وقت بڑے پیمانے پر اور غیر معمولی جلدبازی کے ساتھ یہ عمل انجام دیا جا رہا ہے، اس نے بی جے پی حامیوں کو بھی حیران کر دیا ہے۔ بی جے پی کی بنیاد تصور کیے جانے والے معاشی طور سے پسماندہ طبقہ (ای بی سی) کے کئی لوگوں کے پاس زمین کے ریکارڈ یا دسویں کے سرٹیفکیٹ نہیں ہیں جس سے وہ ثابت کر سکیں کہ وہ متعلقہ انتخابی حلقہ کے شہری اور باشندہ ہیں۔


’’اگر نام آخری لسٹ میں نہیں آیا تو کیا ہوگا؟‘‘ یہ سوال نہ صرف ٹیکسی ڈرائیور دولت رام، بلکہ آبادی کے ایک بڑے حصہ کو خوفزدہ کر رہا ہے۔ بکسر واقع آر جے ڈی دفتر میں ایک راجپوت کسان کہتا ہے ’’میں یہاں پیدا ہوا اور ہر انتخاب میں ووٹ ڈالتا رہا، اب وہ مجھے شہریت ثابت کرنے کو کہہ رہے ہیں۔‘‘

طرح طرح کے فارم چلن میں ہیں۔ کچھ انگریزی میں، تو کچھ ہندی میں۔ انھیں بی ایل او، میونسپل کارپوریشن کے ملازم اور یہاں تک کہ صفائی ملازم بھی تقسیم کر رہے ہیں۔ تقریباً ایک جیسے فارم، لیکن اکثر ایک یا دوسرے میں کچھ نہ کچھ جانکاری غائب ہونے کی وجہ سے گمراہی بڑھ گئی ہے۔ پٹنہ میں ہی کئی رہائشی علاقوں میں لوگوں کو 2 فارم ملے ہیں۔ ایک تو بی ایل او نے بھر کر لے لیا تھا۔ کیا انھیں دوسرا بھی بھرنا چاہیے؟ اور اگر نہیں بھرا تو کیا ہوگا؟ یہ اندیشے لوگوں کی فکر بڑھا رہے ہیں۔


گاؤں کے گاؤں ایسے ہیں جہاں سے 40 فیصد بالغ مرد ہجرت کر گئے ہیں۔ حاجی پور کے ایکہارا گاؤں میں اجیت انجن کو کئی خواتین نے بتایا کہ مرد روزی روٹی کی تلاش میں چنئی چلے گئے ہیں۔ وہ سال میں ایک بار تہواروں میں شامل ہونے یا ووٹ ڈالنے آتے ہیں۔ بیشتر کے پاس معمولی موبائل فون ہے، جبکہ الیکشن کمیشن چاہتا ہے کہ وہ درخواست ڈاؤنلوڈ کریں اور انھیں جائز دستاویزات کے ساتھ آن لائن اپلوڈ کریں۔

اپوزیشن پارٹیوں کا ماننا ہے کہ الیکشن کمیشن برسراقتدار طبقہ کے ایک سیاسی ایجنڈے کو فروغ دے رہا ہے جو بہار کے ووٹرس کی بنیاد تبدیل کر دے گا۔ انڈیا بلاک پہلے ہی اسے غیر آئینی بتاتے ہوئے سڑکوں پر اتر چکا ہے۔ لوگوں میں غصہ اور بے چینی ہے۔ لوگوں کے موڈ کو سمجھتے ہوئے ریاستی حکومت ایس آئی آر، بڑھتی انارکی، بے روزگاری اور عدم اطمینان سے توجہ ہٹانے کے لیے مفت بجلی، اساتذہ کی بھرتی جیسے اعلانات کر رہی ہے۔ اس غیر یقینی والے وقت میں زمینی حالات دھماکہ خیز ہیں۔ آگ بھڑکنے کے لیے بس چنگاری کا انتظار ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔