سالِ نو 2023: صبح ہونے کو ہے، ماحول بنائے رکھیے... اروند موہن

گزشتہ سال کسانوں نے نریندر مودی حکومت کا گمان توڑا تھا تو اس بار راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ سیاسی متبادل کا راستہ دکھلا سکتی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div>

تصویر سوشل میڈیا

user

اروند موہن

گزشتہ سال معمول سے کچھ بہتر رہا کیونکہ کورونا، اس سے بھی زیادہ اس کا خوف اور سب سے زیادہ اس کی سیاست کا زور کم ہوا۔ معمولات زندگی اور کاروبار شروع ہوا، زندگی پٹری پر لوٹی۔ کئی لوگوں کی کمی کے ساتھ زندگی شروع ہوئی لیکن زبردست مایوسی کے بعد امید بحال ہوئی۔ لکھنے پڑھنے والوں نے اور میڈیا نے بھی اپنا کام عام طور سے شروع کیا۔ ساتھ ہی انعامات سے لے کر اشاعتوں تک میں ’بھکت منڈلی‘ کا اثر بڑھا۔ لیکن سب سے بڑی تبدیلی ایک بڑے میڈیا ہاؤس کا فروخت ہونا اور پچاس ایک چینلوں کا حکومت حامی کاروباری گھرانوں کے ہاتھ جانا رہا۔ لیکن اس درمیان تکنیک ہی نہیں، یو-ٹیوب اور نیٹ سے جڑے لوگوں کی اپنی سیاست کے باوجود سوشل میڈیا اور یو-ٹیوب چینلوں نے سچائی کو ظاہر کرنے کا ذمہ بھی زیادہ مضبوطی سے اٹھایا۔ اس سے کئی لوگوں کو سہارا ملا ورنہ اخبار اور ٹی وی صحافت تو ناقابل یقین ہی نہیں، حکومت کی پٹھو بھی بن چکی ہے۔

نئے سال کے لیے بہت ساری امیدیں ہیں، معاشی، سیاسی، سماجی شعبہ سے یہ امیدیں زیادہ ہیں۔ 10 اسمبلیوں کے انتخابات 2024 کا ریہرسل کرائیں گے اور کافی اشارے دیں گے۔ اور اس سال بھلے ہی بی جے پی گجرات کی ’تاریخی جیت‘ سے ہماچل اور دہلی کی شکست کا ازالہ کرتی ہوئی نظر آ رہی ہو، اسے اتر پردیش کی جیت سے سہارا ملا ہو، لیکن اگلے سال اس کے پاس محروم ہونے والے علاقے ہی زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ اور اگر گزشتہ سال کسانوں نے نریندر مودی حکومت کا گمان توڑا تھا تو اس بار راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ سیاسی متبادل کا راستہ دکھلا سکتی ہے۔ کسان تحریک کی کامیابی کا سیاسی فائدہ نہیں ہوا، لیکن اسمبلیوں کے ریزلٹ اسے رفتار دے سکتے ہیں یا بریک لگا سکتے ہیں۔


اتنی امید میڈیا اور ادبی و ثقافتی دنیا سے نظر نہیں آتی۔ وہاں کے قائم وکٹ بھی گرتے گئے ہیں اور کسی عہدہ یا ایوارڈ کے لیے مزید کچھ لوگ گروہ بدلتے نظر آئیں تو حیرانی کی بات نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ اُس طرف سے کوئی مشترکہ مقابلہ اور احتجاج کی آواز بھی اٹھنے کا امکان کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ اس کے مقابلے میں کسی رویش کمار، کسی پونیہ پرسون، کسی ابھیسار شرما، کسی اجیت انجم، کسی ساکشی جوشی، کسی وایر، کسی ستیہ، کسی عارفہ خانم اور کسی آشوتوش کے مزید کامیاب ہونے اور چمکنے کی امید زیادہ ہے۔ انتخابی نتائج بھی ماحول بدل سکتے ہیں۔ کچھ تو اس سال بھی بدلا ہے۔ نتیش کے پالا بدلنے سے بھی بدلا ہے۔ کچھ بنگال نے گزشتہ سال بدلا تھا۔

(مضمون نگار اروند موہن معروف صحافی ہیں اور مہاتما گاندھی پر تحریر کئی کتابوں کے مصنف ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔