ندائے حق: افغانستان کے لیے پاکستان اور چین کے تشویشناک منصوبے... اسد مرزا

پاکستان اور چین نے حال ہی میں خطے کے لیے اپنے مشترکہ اقدام میں افغانستان کو شامل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ یہ نیا قدم بھارت کے لیے کسی بھی طریقے سے اچھا ثابت نہیں ہوسکتا ہے۔

علامتی تصویر
علامتی تصویر
user

اسد مرزا

تاشقند کانفرنس

افغانستان کے بارے میں، ”افغان سیکوریٹی اور اقتصادی ترقی“ کے عنوان سے تاشقند کانفرنس جو کہ 26-27 جولائی کو منعقد ہوئی، ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب طالبان حکمراں اسلامک امارات آف افغانستان کو عالمی برادری کے ذریعے باضابطہ تسلیم کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ لیکن ابھی تک کسی بھی ملک نے اسے منظور نہیں کیا، حالانکہ پاکستان، ایران، چین اور روس کے سفارت کار - بشمول دیگر کئی بین الاقوامی ممالک - افغانستان میں کام کر رہے ہیں۔

طالبان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کانفرنس میں کہا کہ امریکہ کی طرف سے عائد پابندیاں ملک کی ترقی میں رکاوٹ ہیں اور انہوں نے امریکی حکومت سے کہا ہے کہ وہ افغانستان کے مرکزی بینک کے اثاثے جلد از جلد واپس کرے۔ متقی نے دعویٰ کیا کہ امریکہ کی جاری پابندیاں اور دہائیوں سے جاری جنگ ملک میں غربت کی بنیادی وجوہات ہیں۔ خامہ پریس کی رپورٹ کے مطابق، انہوں نے مزید کہا کہ امارت اسلامیہ کی حکومت اب باہمی مفاد کی بنیاد پر دنیا کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے۔ متقی کے مطابق اگر اقتصادی پابندیاں اٹھا لی جاتی ہیں تو یہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا بہترین طریقہ ہو گا اور یہ اقدام افغان عوام کے ذہنوں پر مثبت اثرات چھوڑے گا۔


دریں اثنا، ازبکستان کے نائب قومی سلامتی کے مشیر عبدالعزیز کاملوف نے افغانستان میں ایک جامع حکومت کے قیام کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ عالمی اور افغانی منصوبے وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ یورپی یونین کے سفیر نے اس موقع پر کہا کہ بین الاقوامی برادری طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرنے پر متحد ہے، حالانکہ تاشقند کانفرنس میں 20 ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی۔

دریں اثناء گزشتہ ہفتے طالبان کے اعلیٰ رہنماؤں نے افغانستان میں بسنے والے ہندوؤں اور سکھوں کو واپس افغانستان آنے کی تلقین کرتے ہوئے بیانات دیئے ہیں، حالانکہ ایک اور بیان میں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ایسی شرائط کے ساتھ عالمی امداد قبول نہیں کریں گے، جو کہ فطرت میں ’غیر اسلامی‘ اصولوں سے منسلک ہوں۔


گزشتہ ہفتے کی کانفرنس کے میزبان ازبکستان نے اس سال اپنے جنوبی سرحدی علاقے کو افغانستان سے داغے گئے راکٹوں سے بار بار نشانہ بنتے ہوئے پایا ہے۔ ہمسایہ ملک تاجکستان بھی افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد پر سرگرم تاجک مخالف گروہوں کے بارے میں فکر مند ہے۔ چین، ایک دوسرا پڑوسی، سنکیانگ میں ایغور وطن کی حمایت کرنے والی ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے ارکان کے حوالے کرنے کے لیے طالبان کو راضی کرنے میں ناکام رہا ہے۔ پاکستان، جس نے طالبان کو ان کی شورش کے دوران محفوظ پناہ گاہیں، مالی امداد اور ہتھیار فراہم کر کے انہیں توانا بنایا تھا، اس گروپ کا کنٹرول کھو چکا ہے اور اسے ان کے ساتھ اپنی الحاق شدہ تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ امن کے لیے بات چیت کر رہا ہے۔

افغانستان کے لیے بی آر آئی

دریں اثنا، خطے میں ایک حالیہ واقعہ نے بھارتیہ وزارت دفاع اور خارجہ امور میں خطرے کی گھنٹیاں بجادی ہیں۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ چین، پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے مشترکہ ورکنگ گروپ کے بین الاقوامی تعاون اور رابطہ کاری کے تیسرے ورچوئل اجلاس کے دوران چینی اور پاکستانی حکام نے کسی ایسے تیسرے ملک /فریق کا CPEC میں خیر مقدم کیا ہے جو کہ باہمی فائدہ کے لیے اس پروجیکٹ کے ذریعے کھولے گئے راستوں سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔


بھارت میں اس تیسرے فریق کی شناخت افغانستان کے طور پر کی گئی ہے، کیونکہ پاکستان اور چین دونوں افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ جڑے رہنا چاہتے ہیں اور اس طرح طالبانی حکمرانوں کو چینی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) کے تحت شامل کرنے کے خواہاں ہیں۔

اجلاس کی مشترکہ صدارت پاکستان کے سکریٹری خارجہ سہیل محمود اور چین کے معاون وزیر خارجہ وو جیانگ ہاو نے کی۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان اور چین کے سینئر حکام نے جنگ سے تباہ حال ملک میں اقتصادی ترقی اور خوشحالی کو فروغ دینے کے لیے سی پیک کو افغانستان تک وسعت دینے کے امکان پر تبادلہ خیال کیا۔ سرکاری بیان اور دونوں ممالک کے حکام کے بیانات نے افغانستان اور اس کے عوام کے لیے ہمدردی کا اظہار بھی کیا۔


افغانستان میں چینی کاوشیں

افغانستان میں چین کا معاشی رول زیادہ بڑا نہیں ہے، اگر اس کا موازانہ کسی دوسرے ملک سے کیا جائے۔ اس کے علاوہ چین، افغانستان میں اپنے وعدوں کی پاسداری نہیں کر سکا ہے۔ 2008 میں، ایک چینی کمپنی نے تانبا نکالنے کے لیے صوبہ لوگر میں میس ایانک تانبے کی کان 30 سالہ لیز پر 3.5 بلین ڈالر میں حاصل کی تھی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کان میں دنیا کا دوسرا سب سے بڑا تانبے کا ذخیرہ ہے جس کی مالیت 50 بلین ڈالر ہے۔ تاہم، اس منصوبے پر پیش رفت بہت سست رہی ہے۔

اس کے علاوہ، افغانستان میں ایک اور چینی منصوبہ جس میں بہت کم پیش رفت ہوئی ہے، وہ ہے فریاب اور سر پل میں تین آئل فیلڈز تیار کرنے کا معاہدہ ہے۔ امریکہ کے بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چینی حکومت کے عہدیداروں اور افغانستان کے ماہرین نے اعتراف کیا ہے کہ چین نے یہ بولیاں محض دوسرے ممالک کو افغانستان کے قدرتی وسائل سے دور رکھنے کے لیے لگائی تھیں، تاکہ ان پر اس کا قبضہ ہوسکے۔


افغانستان میں سونے، لوہے، تانبے، زنک، لیتھیم اور دیگر نایاب زمینی دھاتوں کے بڑے ذخائر تک رسائی کے علاوہ، جن کی مالیت 1 ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہے، چین کا منصوبہ افغانستان میں لیتھیم اور دیگر نایاب زمینی دھاتوں پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔

پاکستان کا فائدہ

پاکستان چین کے ساتھ مل کر کام کر کے اور افغانستان کو BRI منصوبوں کو اپنانے پر آمادہ کر کے افغان سیاست اور وسطی ایشیائی خطے میں بھی متعلقہ رہنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگرچہ طالبان حکام اپنے اندرونی معاملات میں کسی بھی پاکستانی مداخلت سے محتاط نظر آتے ہیں لیکن پاکستان اس بات کو بخوبی سمجھتا ہے کہ اگر اسے خطے میں ایک موثر کھلاڑی کے طور پر دکھائی دینا ہے تو اسے عالمی سطح پر افغانستان کے لیے فعال اور موثر کردار ادا کرتے نظر آنا چاہیے۔ تاہم، حقیقت میں افغانستان کے طالبان حکمرانوں اور پاکستان کے فوجی اداروں کے درمیان کوئی زیادہ گہرے تعلقات موجود نہیں ہیں اور درحقیقت گزشتہ چھ ماہ کے دوران طالبان فورسز کی جانب سے سرحد پر باڑ لگانے کے معاملے پر دونوں ملکوں کے درمیان ٹکراؤ بھی ہوا ہے۔ اس طرح افغانستان کے لیے پاکستان کے جھکاؤ کو اس کے اپنے فائدے کے تناظر میں بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔


بھارت کا موقف

نئی دہلی ان پیش رفت کو بے چینی سے دیکھ رہا ہے اور اس نے اس اقدام کو سراسر غلط اور غیر ضروری قرار دیا ہے۔ جبکہ پاکستانی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ ہندوستان اسے غلط تناظر میں دیکھ رہا ہے۔ CPEC میں ہندوستان کے پاکستان اور چین دونوں کے ساتھ متنازعہ علاقے بھی شامل ہیں اور چین کے ساتھ غیر حل شدہ سرحدی تنازعات بھی شامل ہیں۔ دہلی کے لیے خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے مستقبل کا منظر نامہ تشویشناک ہے۔ پاکستان، چین کے قریب ہو رہا ہے اور چین کے ممکنہ منصوبے اور حکمت عملی پاکستان کے حق میں جھک سکتی ہے اور چین، پاکستان کے ساتھ مل کر بھارت کو افغانستان کی تعمیر نو کے منصوبوں سے باہر کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ مجموعی طور پر، افغانستان میں بھارت کے پڑوسیوں کی جانب سے کوئی بھی مشترکہ حملہ بھارت کے حق میں نہیں ہوسکتا۔ پاک چین اقدام کا مقابلہ کرنے کے لیے اس سلسلے میں بھارت کے کسی بھی اقدام پر عالمی کھلاڑی گہری نظر ضرور رکھیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔