موہن بھاگوت کی ’نصیحت‘ کا مطلب!

بھاگوت نے پونے میں اپنے خطاب میں کہا کہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے بعد کچھ افراد اپنی قیادت کا دعویٰ کر کے سماج کی ہم آہنگی کو نقصان پہنچا رہے ہیں، مگر ان کے اقوال و اعمال میں تضاد نظر آتا ہے

<div class="paragraphs"><p>موہن بھاگوت / آئی اے این ایس</p></div>

موہن بھاگوت / آئی اے این ایس

user

نواب علی اختر

بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے حکومت میں اب تک یہی دیکھا گیا ہے کہ وزیراعظم یا کسی سینئر مرکزی وزیر کی جانب سے جب جب اقلیتوں یا مسلمانوں کا نام لے کر ہم آہنگی اور بھائی چارے کی دُہائی دی گئی ہے، تب تب ملک میں نفرت انگیزی کا خوفناک طوفان اُٹھا ہے اور اس کا شکار مسلمان ہوئے ہیں۔ کبھی مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا، کبھی مذہب پر حملہ کیا گیا، کبھی بین مذاہب شادیوں کو لو جہاد کا نام دے کر ہندوستان کی ثقافت کو پامال کیا گیا۔ اب تو مساجد کی بنیاد میں مندر تلاش کئے جانے کی مہم چلا کر بھگوا بریگیڈ کی جانب سے مسلمانوں کو اُکسانے کی سازش شروع کر دی گئی ہے ۔ باوجود اس کے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی مسلمانوں نے امن کا دامن نہیں چھوڑا۔

اسی طرح بی جے پی کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے پونے میں ایک پروگرام کے دوران اپنے خطاب میں کہا کہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے بعد کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ اس طرح کے مسائل کو اٹھا کر راتوں رات ’ہندوؤں کے لیڈر‘ بن سکتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ لوگ سماج کی ہم آہنگی کو بے پناہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔ بھاگوت کا کہنا تھا کہ ہندوستان ہمیشہ سے ایک تکثیری معاشرہ رہا ہے اور اب بھی ہے، ہمیں دنیا کو یہ دکھانے کی ضرورت ہے کہ یہ ملک ہم آہنگی کے ساتھ رہ رہا تھا اور آگے بھی بغیر کسی پریشانی کے رہ سکتا ہے۔ موہن بھاگوت جو اس سے قبل بھی اس طرح کے بیانات دے چکے ہیں لیکن ان کے قول و فعل میں تضاد فوراً سامنے آ جاتا ہے۔


بھاگوت یہیں نہیں رُکے، انہوں نے آگے کہا کہ رام مندر کی تعمیر کے بعد کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ نئی جگہوں پر اسی طرح کے مسائل اٹھا کر ہندوؤں کے لیڈر بن سکتے ہیں، یہ قابل قبول نہیں ہے۔ رام مندر کی تعمیر اس لئے کی گئی تھی کہ یہ تمام ہندوؤں کے عقیدہ کا معاملہ تھا لیکن اب ہر روز ایک نیا معاملہ سامنے لایا جا رہا ہے جو سماج کے لئے اور اس کی ہم آہنگی کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔ اس سے سماج میں انتشار پیدا ہو گا ۔ ملک میں جاری فرقہ وارانہ سیاست اور مندر مسجد تنازعات کے دوران آر ایس ایس سربراہ نے تشویش کا اظہار کر کے سبھی کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ آر ایس ایس کی ایماء پر اٹھائے جانے والے تنازعات پر بھاگوت کی تشویش ہر کوئی ہضم نہیں کر پا رہا ہے۔

تقریباً دو سال قبل بھی موہن بھاگوت ناگپور میں اسی طرح کا بیان دے چکے ہیں جس میں انہوں نے سنگھ کی طرف سے مندروں کے حوالہ سے کوئی تحریک چلانے سے توبہ کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بات سے انکار نہیں ہے کہ آر ایس ایس نے رام مندر تحریک میں حصہ لیا تھا لیکن اس تحریک میں شامل ہونا تنظیم کی بنیادی فطرت کے خلاف تھا۔ اب آر ایس ایس مستقبل میں کسی مندر تحریک میں شامل نہیں ہوگی۔ وہیں انہوں نے وارانسی کی گیان واپی مسجد کا بھی شوشہ چھوڑ دیا۔ حالانکہ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اب ملک کے فرقوں کے درمیان لڑائی نہیں ہونی چاہئے۔ انہوں نے آر ایس ایس کارکنان کو تاکید کی کہ ہمیں ہر مسجد میں شیو لنگ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔


ایسا لگتا ہے کہ ’اوپر‘ کی ’نصیحت‘ کو ’نیچے‘ حکم مانا جاتا ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں پر بیٹھے رہنما کوئی بات کہیں اور نتیجہ اس کے برعکس ہو۔ اس کی تازہ مثال اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ہیں۔ چند روز پہلے کی ہی بات ہے جب آر ایس ایس کے سر سنگھ چالک موہن بھاگوت ایک طرف ہندوؤں کو ملک میں اتحاد اور یکجہتی کی نصیحت کر رہے تھے اور مسجد ،مسجد مندر ڈھونڈنے اور ہندو رہنما بننے والوں پر تنقید کر رہے تھے وہیں دوسری طرف اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ان کی نصیحت کو اپنے فرقہ پرستانہ بیان سے ہوا میں اڑا رہے تھے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے بلکہ اس سے قبل بھی موہن بھاگوت کے بیان کو شدت پسندوں نے ہمیشہ نظر انداز کیا ہے۔

وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ایودھیا میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سناتن دھرم ہندوستان کا قومی مذہب ہے اور اس کی حفاظت کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ انہوں نے کہا کہ سناتن ایک ابدی دھرم ہے جو روز ازل سے چلا آ رہا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ سناتن دھرم نے دنیا کی ہر ذات و عقیدہ مذہب اور فرقہ کے لوگوں کو ان کی مصیبت کے وقت پناہ اور تحفظ فراہم کیا ہے اور جن لوگوں نے مقدس مقامات کو تباہ اور بے حرمتی کی ، وہ تباہ ہو چکے ہیں۔ یوگی نے مسلمانوں کو بلا واسطہ نشانہ بنایا اور اورنگ زیب کا ذکر کرتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا کہ اورنگ زیب کے خاندان کے لوگ آج رکشہ چلا رہے ہیں اگر وہ اچھے کام کرتے اور مندروں کو تباہ نہ کرتے تو ان کی ایسی حالت نہ ہوتی۔


موہن بھاگوت کی ’نصیحت‘ کے باوجود یوگی آدتیہ ناتھ کے ذریعہ مذہبی معاملات میں متنازعہ بیان دینا اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے قبل انہوں نے الہ آباد کے اسلاموفوبک جسٹس شیکھر یادو کے حالیہ تبصروں کی حمایت کی تھی اور حق بات سے تعبیر کیا تھا۔ بھاگوت کے بیان کے مقصد کچھ بھی ہو لیکن بظاہر ان کا بیان خوش آئند کہا جائے گا مگر یہ بھی سچ ہے کہ جن تنازعات نے بھاگوت جی کی نیند حرام کی ہے وہ ان کی اپنی تنظیم نے شروع کیا تھا، ان کے چیلے ایسی باتوں کو قبول نہیں کر رہے ہیں اس لئے انہیں کارروائی کرنی چاہئے۔ بھاگوت جی کو یہ مشورہ ان لوگوں کو دینا چاہئے جو نظریاتی طور پر ان سے متفق ہیں اور جو لوگ قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

ایسی صورت میں بھاگوت کے بیان کا کیا مطلب نکالا جائے گا؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر اتنا ضرور ہے کہ ملک میں مندر اور مساجد کے مسائل کو سیاست کا ذریعہ بنا کر فرقہ وارانہ تقسیم کو ہوا دینا خطرناک ہو سکتا ہے اس لئے مزید انتشار کو روکنے کے لیے فوری مداخلت کی جائے۔ یہ قوم کو مزید تقسیم کرنے کی کوشش ہے، ایسے اقدامات کو فوراً ختم کرنا بہت ضروری ہے۔ مختلف ضلعی عدالتوں میں عبادت گاہوں کے ایکٹ کے بڑھتے ہوئے غلط استعمال کے نتیجے میں تشدد اور جانی نقصان ہو رہا ہے۔ حالیہ سنبھل کا تشدد رونگٹے کھڑے کر دینے والا ہے۔ ایسے تنازعات اجمیر، نظام الدین اور حاجی علی جیسے مقامات تک پھیل سکتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔