ہزار بیٹیاں گاندھی کی ... اروند موہن

فطری طور پر یہ سب گاندھی کی بیٹیاں ہیں، رویہ میں کئی بار نہیں، اکثر وہ گاندھی کی اماں بھی بن جاتی ہیں، بہن، ساتھی تو تھیں ہی۔ اور گاندھی خود بھی منو سمیت کئی لڑکیوں کی ماں بھی بن جاتے ہیں

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا
user

اروند موہن

بات چمپارن کے دنوں کی ہی ہے۔ موتیہاری پہنچنے کے اگلے ہی دن گاندھی اپنے دو معاونین کے ہمراہ اس پٹی جسولی گاؤں جا رہے تھے جہاں سے دو تین دن پہلے ہی نیلہے کے ظلم پر مبنی ایک حادثہ کی خبر ملی تھی۔ وہ تینوں ہاتھی پر تھے اور اپریل کا مہینہ ہونے کے سبب صبح جلدی نکلے تھے کہ دھوپ کم لگے۔ صبح کا وقت ہونے سے راستے میں جگہ جگہ ایسی خواتین نظر آئیں جو بیت الخلاء وغیرہ کے لیے نکلی تھیں۔ ہاتھی آتے دیکھ کر وہ منھ چھپا کر کھڑی ہو جاتی تھیں۔ گاندھی کی ٹیم کے لیے کوئی اور متبادل نہ تھا۔ لیکن اوپر بیٹھے جو بات چیت چل رہی تھی، وہ دلچسپ تھی۔ گاندھی کہہ رہے تھے کہ عورتوں کو پردے سے باہر لائے بغیر ملک کا کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ آدھی آبادی کا پردے میں رہنا ان سب کے ساتھ ظلم ہے اور ملک پیچھے جا رہا ہے۔ یہ تبادلہ خیال پورا ہو، اس سے پہلے ہی چندرہیا میں انھیں ضلع چھوڑنے کا نوٹس مل گیا اور وہ پولیس والے کے ذریعہ لائی گئی بیل گاڑی پر بیٹھ کر موتیہاری لوٹ آئے۔

چمپارن میں اپنا کام شروع کرتے ہی ان کو لگا کہ عورتوں کے درمیان جانا مشکل ہے، سو انھوں نے باہر سے سب سے پہلے کستوربا کو بلایا۔ پھر اشتہار دے کر سویم سیوک بلائے کیونکہ تب بہار میں کانگریس یا کسی ادارہ کے پاس ایک بھی کل وقتی کارکن نہ تھا، خاتون کارکن تو بہت دور کی باتا تھی۔ اونتیکا بائی گوکھلے، آنندی بہن، ساتھی نرہری پاریکھ کی بیوی منی بہن، مہادیو بھائی کی نو شادی شدہ درگا بہن جیسی خواتین کے تعاون سے انھوں نے کام شروع کیا تو بہار کے ساتھی وکیلوں نے بھی اپنی بیویوں اور بیٹیوں کو لگایا۔ یہ 1917 اور 1918 کی بات ہے۔

اسی بہار کے گیا میں 1922 میں کانگریس کا اجلاس ہوا۔ کانگریس اجلاسوں میں 1890 کے آس پاس سے گنتی کی خواتین آتی تھیں جو کانگریس کے عام اراکین سے بھی اونچی حیثیت والے کنبوں کی ہی ہوتی تھیں۔ دھیرے دھیرے تعداد بڑھنے لگی، لیکن ان کے بیٹھنے کا انتظام الگ رہتا تھا اور ان کے و مرد نمائندہ وفد کے درمیان ایک پردہ رہتا تھا جو اسٹیج کی طرف کھلا ہوتا تھا جس سے وہ اسٹیج کا کام تو دیکھ لیں لیکن باقی تاک جھانک نہ ہو۔ گیا کا قصہ ہے کہ اجلاس کے پہلے دن تو یہ تقسیم کرنے والا پردہ بار بار اِدھر سے اُدھر جھولتا رہا اور دوسرے دن خواتین نے اسے خود نوچ کر پھینک دیا کہ ہمیں اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔ خاتون نمائندے آئی بھی تھیں کافی بڑی تعداد میں۔ جی ہاں، یہ جادو محض پانچ سال میں ہوا تھا۔

اور یاد کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ انہی پانچ سالوں میں صرف چمپارن ستیاگرہ، احمد آباد مل مزدور تحریک اور کھیڑا تحریک ہی نہیں ہوئے، بہار اور پورا ملک تحریک عدم تعاون سے گزرا تھا جس میں چرخہ چلانا اور غیر ملکی لباس اور شراب کی دکانوں پر خواتین کا دھرنا خاص پروگرام تھے۔ اور اس میں ایسی ایسی خواتین آ کر دن دن بھر بیٹھتی تھیں جو اپنے شوہر، جیٹھ، سسر کے نام لینا گناہ مانتی تھیں، جنھیں اپنے محلے کا نام نہ معلوم تھا، جن کے لیے شہر میں اپنے گھر تک تنہا آنا جانا مشکل تھا۔


لیکن اس سے دس سال بعد گاندھی نے جب نمک ستیاگرہ کا فیصلہ کیا تب خواتین کے جیل جانے یا تحریک میں شراکت داری کی کئی طرح کی پابندیوں کے باوجود بیس ہزار سے زیادہ عورتوں نے گرفتاری دی تھی۔ ان میں لڑکوری یا حاملہ، بیمار اور ضعیف عورتوں کو مناہی تھی۔ آج تک کسی انقلاب، کسی تحریک میں ایک ساتھ اتنی خواتین جیل نہیں گئی ہیں۔ اور سول نافرمانی والا جیل کافی سختی کا بھی تھا۔ پھر جب پونے میں آل انڈیا وومنس کانفرنس کا اجلاس ہوا تو بیس ہزار خواتین کے جمع ہو جانے سے منتظمین کو کافی پریشانی اٹھانی پڑی۔

سختی تو اس سے بیس ایک سال پہلے جنوبی افریقہ میں شادی کے رجسٹریشن والے قانون پر گاندھی کے ذریعہ گرفتاری دینے پر راضی کرانے والی چاروں خواتین کے ساتھ بھی ہوئی تھی لیکن اگلی بار جب گرفتاری دینے کی باری آئی تو 143 خواتین سامنے نکل آئی۔ پہلی بار میں کستوربا، سنتوش بین (چھگن لال کی بیوی اور گاندھی کی بہو)، کاشی بیل (مگن لال کی بیوی) اور جئے کنور (ڈاکٹر پران جیون مہتا کی بیٹی) نے گرفتاری دی تھی اور گاندھی کے ذریعہ سنتوش بین اور کاشی بیل کو پہلے راضی کرانے کی خبر سے 'با' ناراض بھی ہوئی تھیں۔ اور جیل کی سختی سے بیمار با کا جسم نصف رہ گیا تھا اور وہ بڑی مشکل سے بچیں۔

اور اگر ہم بیالیس کی تحریک میں خواتین کی شراکت داری کی قیادت کا حساب لگائیں، تو آدھا آدھا معاملہ پہنچ گیا محسوس ہوگا۔ ارونا آصف علی، کملا دیوی، اوشا مہتا، سچیتا کرپلانی تو قیادت اور آرگنائر کے کردار میں ہی تھیں۔ نواکھالی میں گاندھی کی ٹولی میں خواتین ہی زیادہ تھیں۔ سب سے طویل سچیتا جی رہیں تو سب سے بڑی بہادر بی بی امۃ السلام نے دکھائی اور درگا مندر سے لوٹی تلواریں واپس آنے پر ہی بھوک ہڑتال توڑا۔ اس ستیاگرہ میں انھوں نے گاندھی کی بھی نہیں سنی اور گاندھی اس ضد سے خوش ہی ہوئے۔

حیرت انگیز جادوگری تھی گاندھی کی۔ انھوں نے فرقہ پرستی کے سوال پر بہت محنت کی۔ طویل عرصہ لگایا، جان جوکھم میں ہی نہیں ڈالا بلکہ جان دے بھی دی۔ لیکن تقسیم ہوا، فسادات ہوئے، ملک نے پاکستان سے الگ اور دنیا میں مثال بننے والا راستہ اختیار کیا۔ ننگی فرقہ پرستی اور مذہب کے نام پر بنٹوارے کے درمیان سبھی مذاہب کا احترام والا سیکولر نظام بنایا۔ گاندھی نے چھواچھوت کے سوال کو بہت اہمیت دی۔ بہت محنت کی۔ کیسے کیسے ادارے بنائے، کیسے کیسے لوگ پیدا کر لیے لیکن وہ برائی بھی پوری طرح نہ مٹی۔ قانون سے مٹ گئ، شہری سلوک میں کافی حد تک مٹی، گاؤں میں اور ملک کے ہر علاقے سے اس حساب سے کم مٹی۔ کھادی کا کام صفر سے شروع ہو کر بہت بڑھا۔ بنیادی تعلیم کا کام بھی بہت مشتہر ہوا۔ خواتین کو آگے لانا اور آزادی کی لڑائی کے ساتھ ملک کی تعمیر میں شراکت دار بنانا بھی ایسا ہی ایک کام تھا۔ وہ ہر معنی میں برابری کے حق میں کھڑے تھے اور عورتوں کو ووٹنگ کا حق دینے کی وکالت تب کرتے ہیں جب دنیا میں اس کی بحث بہت کم تھی۔ اس کا نتیجہ آج 100 سال بعد اور اچھی طرح دکھائی دے رہا ہے۔


اور ظاہر طور پر یہ کام تنہا گاندھی کا نہ ہو کر ملک کی ہزاروں ہزار خواتین کی شراکت داری سے ہی ممکن ہوا اور گاندھی جتنا نہ بھی ہو تو ان سے زیادہ من سے کام کرنے والی سینکڑوں خواتین لیڈروں نے اس میں کردار نبھایا۔ اور تقریباً سبھی گاندھی کے بھارت آنے کے بعد بیدار اور سرگرم ہوئیں اور سیاست سے لے کر تعمیری کاموں میں قیادت کرنے سے لے کر ہر سطح کا کردار نبھایا۔ اور گاندھی کے نہ رہنے پر بھی اپنا کام جاری رکھا۔ گاندھی 1916-17 سے ہندوستان میں سرگرم ہوئے اور ان سے متاثر لڑکیوں اور خواتین کی فوج نامی ستیاگرہ کے وقت سے آگے آتی دکھائی دیتی ہے جو سلسلہ ایلا بھٹ اور کرشنمل جگناتھ تک ابھی جاری ہے۔

ہمارے گاندھی بابا نے اپنی مہم میں پردہ کو سب سے بڑا ایشو بنایا، عورتوں کو دہلیز کے باہر لانا ایشو بنایا۔ ناپسندیدہ سامان فروخت کرنے والی دکانوں کے سامنے خاموشی سے بیٹھ کر دھرنا دینا سکھایا۔ گاندھی کے ذریعہ نمک کو ملک گیر تحریک کا ایشو اٹھانے کا جادو کی طرح اثر ہوا۔ یہ تب ہے جب کہ وہ نہ تو فیمنسٹ تھے اور نہ کسی طرح کا سنگل جنڈر تحریک ان کو پسند تھی۔ انھوں نے طویل منصوبہ کے ساتھ ان سوالوں پر کام کیا۔ حیرانی ہوتی ہے کہ چمپارن میں وہ کسانوں کی حالت بتانے والی جو گواہیاں اسٹامپ پیپر پر کرا رہے تھے اور ایسی پچیس ہزار گواہیاں ہوئیں، ان میں عورتوں (اور دلتوں) کی گواہیوں کا تناسب کافی اونچا ہے جب کہ زمین کی ملکیت کے معاملے میں تب عورتوں کو کون پوچھتا تھا۔

ان کی درست اور متوازن سوچ، اچھی پالیسی اور کئی بار عورتوں کے لیے خاص مواقع دینے کی اپنی اہمیت ہے۔ یہ کہانی بہت عام ہے کہ اپنے بعد کے دنوں، یعنی تحریک عدم اعتماد کے بعد کے ادوار میں گاندھی عورتوں سے الگ سے ملنے کے لیے ایک الگ پروگرام بھی منعقد کراتے تھے۔ یہ عام طور پر ان کے پہلے عوامی پروگرام سے چھوٹا ہوتا تھا لیکن اس میں جذبات اور اثرات کی تیزی بہت زیادہ ہوا کرتی تھی۔ اور اس پروگرام میں جانے والی خواتین سے اکثرہا ان کے گھر والے اجلاس میں جانے کے قبل زیورات اتروا لیتے تھے کیونکہ جب گاندھی کا خطاب شروع ہوتا تھا تو خواتین سدھ بدھ گنوا کر اپنے پاس کا سارا پیسہ، سارے گہنے گاندھی کی جھولی میں ڈال دیتی تھیں۔

گاندھی کے جادو کے اثر سے انھوں نے صرف اپنا روپیہ پیسہ اور زیور ہی وقف نہیں کیا، انھوں نے گاندھی پر اور ملک پر اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ کئی تو بہنوں کی ٹولیاں ہیں، کہیں ماں-بیٹی کی جوڑی، تو کئی بار شوہر-بیوی کی جوڑی۔ بلکہ ایسی جوڑیوں میں کام کو الگ بتایا یا گنوانا مشکل ہے، جیسے بنگال میں ہیم پربھا دیوی اور ستیش داس گپتا کا۔ کچھ خواتین کا بہت اہمیت پر حامل کام اور نام ذرا سی بحث کے بعد غائب سا ہو گیا ہے۔ تعمیری کاموں میں لگی خاتون لیڈروں کی بحث کم ہوئی ہے۔ پھر یہ بھی ہوا ہے کہ آزادی کی لڑائی بھی ملک کے ہر علاقے میں یکساں تیزی والی نہ تھی۔ پنجاب اور شمالی ہندوستان میں آریہ سماجی اثر سے عورتوں کی تعلیم وغیرہ پر کام ہوا لیکن اس نظریہ کی سرحدوں میں ہی۔ ایک دور تک وہاں کے لیڈر عورتوں کو جیل نہ جانے دیتے تھے۔ اس کے اوپر یہ ہوا کہ ملک تقسیم ہوا۔ سو پاکستان (شمالی یا مغربی) والے علاقے میں کام والی خواتین کے کام اور نام غائب ہوئے۔ آشا لتا سین، نیلی سین گپتا، ہیم پربھا دیوی وغیرہ اس کا شکار بھی ہوئیں۔


لیکن جب کستوربا تک پر کوئی ڈھنگ کا کام نہیں ہوا ہے تو چرخہ اور کھادی تحریک والی گنگا بہن یا ہنستے ہنستے پولیس کی گولی کھانے والی بوڑھی گاندھی ماتنگنی حاجرہ پر کون کام کرے گا۔ اُروشی بٹالیا نے 'دی ادر سائیڈ آف سائلنس' میں تقسیم اور فساد کا شکار ہوئی خواتین کی کہانی بتاتے بتاتے مرنالنی سارابھائی، لجاوتی ہجا، رامیشوری نہرو، بی بی امۃ السلام جیسوں کی بہادری اور کام کو بتایا ہے، لیکن ایسی کوشش انگلیوں پر گننے والی بھی نہیں ہوئی۔

خواتین پر مبنی نظریہ سے بھی تاریخ کی تحریر نہیں ہوئی ہے، ورنہ یہ کہانی کیسے رہ جاتی کہ ہماری ان ہیروئنوں میں سے بیشتر کو (مرد پرست سماجی نظام کے سبب بھی) کیا کیا تکلیفیں اٹھانی پڑیں، انھوں نے کس کس طرح کے فیصلے کر کے اپنے کام کیے، جان دینا اور جیل جانا ہی نہیں اپنا سب کچھ قربان کر دیا، یا قصداً چھوڑ دیا۔ کافی ساری لڑکیوں نے تو شادی نہ کرنے کا فیصلہ کیا، کئی نے ہوئی شادی توڑ دی اور خود سے اپنے شوہروں سے دوسری شادی کر لینے کو کہا (اور کئی ایسے عظیم مرد بھی نکلے جنھوں نے زندگی بھر شادی نہیں کی)، کئی نے ہوئی شادی کے درمیان برہمچریہ رکھنے کا فیصلہ کیا، کئی نے بچے پیدا نہ کرنے کا فیصلہ کیا، بیشتر نے گھر بار چھوڑا اور سب کچھ وقف کر دیا۔ درگا بائی کے سابق شوہر نے ان کی مرضی سے دوسری شادی کی اور جب دوسری بیوی انتقال کر گئی تو اس کے سارے زیورات درگا بائی کے ادارہ کو عطیہ کر دیے۔ لیکن سچیتا جی جیسی بھی ہوئی، جنھوں نے گاندھی کی لاکھ مخالفت کے باوجود شادی کی اور پھر شوہر و بیوی نے خوب کام کیا۔ انھوں نے بچے نہ پیدا کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔ کئی تو جوڑیوں میں ہی کام کرتی رہیں۔ کئی کو ان کے شوہر یا سسر نے ہی پڑھایا اور تحریک کا سبق سکھلایا۔ کئی کی شادیاں بین ذاتی یا بین مذہبی ہوئیں۔ کئی نے عمر سے بے میل شادی کی یا دوستی رکھی۔ کئی کو بڑھاپے میں تکلیف ہوئی تو کسی کو گود لیا۔ کئی کے ساتھ ایسا ہوا کہ اپنا سب کچھ عطیہ کر دینے کے سبب ضعیفی میں رہنے کی جگہ نہ رہی۔ اور کئی کی تکلیف تو انجانی ہی رہ گئی۔ جب یومِ پیدائش و یومِ وفات والے دن کا پتہ رکھنے والے بھی نہ ہوں، تب باقی فکر کون کرے گا۔

فطری طور پر یہ سب گاندھی کی بیٹیاں (نظریات اور روش میں) ہیں۔ رویہ میں کئی بار نہیں، اکثر وہ گاندھی کی اماں بھی بن جاتی ہیں، بہن، ساتھی تو تھیں ہی۔ اور گاندھی خود بھی منو سمیت کئی لڑکیوں کی ماں بھی بن جاتے ہیں۔ لیکن ایک یکسانیت اور ہے، عورت ہونے کی اپنی تکلیف ساتھ چلتی ہیں۔ منو، سشیلا نیر اور آبھا جیسی کم عمر والی لڑکیوں کو ہی نہیں، سرلا دیوی چودھرانی اور جانے کس کس کے نام سیدھے گاندھی سے ہی جوڑے گئے۔ ایسے الزام خواتین کو کمزور کرنے کا مرد پرستانہ ہتھیار بھی ہیں۔ اس قسم کی بکواس خواتین کو ہی برداشت کرنی پڑی ہیں۔ خواتین کو صرف یہی ایک دقت نہیں رہی، ان کے لیے خاتون ہونے کی اپنی تکلیف رہی، خصوصاً شادی شدہ زندگی اور اولاد پیدا کرنے والیوں کے لیے۔ ہم پاتے ہیں کہ گیارہ دن کے بچے کے ساتھ ستیہ وتی جیل جاتی ہیں اور چندرپربھا سنگل مدر ہو کر اپنے بچوں کو کتنی بہترین پرورش دیتی ہیں۔ کم پڑھائی ہونا اور آگے زندگی میں بڑھنے کے لیے ضروری پڑھائی کو پھر پورا کرنا بھی ایک عام پریشانی دکھائی دیتی ہے۔

فیمنسٹ نظریہ سے بہت اچھی کتاب 'استری سنگھرش کا اتیہاس' لکھنے والی رادھا کمار بھی مانتی ہیں کہ ہندوستان میں خواتین کے اداروں پر سے رجواڑے یا بڑے گھر کی خواتین کا قبضہ ہٹا کر عام عورتوں کا قبضہ گاندھی کی تحریک کے دور میں ہی ہوا اور اس سے ان تنظیموں کا کردار بالکل بدل گیا۔ ظاہر طور پر گاندھی بھی عورتوں کو اُپواس (روزہ) کرانے اور چرخہ چلوانے والے کردار بھر میں محدود نہیں کرتے۔ ان کی عورتیں ان سے ہر سطح پر عورتوں کو نمائندگی دی جاتی ہے اور وہ اسے تربیت کا نام نہیں دیتے۔

(اروند موہن سینئر صحافی ہیں، انھوں نے گاندھی جی پر پانچ کتابیں تحریر کی ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔