کانگریس کو کمتر سمجھنا کیجریوال کی بڑی غلطی

بی جے پی کی تشہیری مشنری نے دہلی میں پیدا ہونے والی صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور عام آدمی پارٹی کو دفاعی موقف اختیار کرنے پر مجبور کر دیا

<div class="paragraphs"><p>اروند کیجریوال / تصویر آئی اے این ایس</p></div>

اروند کیجریوال / تصویر آئی اے این ایس

user

نواب علی اختر

دہلی کے انتخابی نتائج اب سب کے سامنے ہیں۔ الزامات اور جوابی الزامات کے طویل عرصے کے بعد جب 8 فروری کو ای وی ایم کو کھولا گیا تو نتیجہ بی جے پی کے حق میں آیا۔ اس طرح دہلی میں بی جے پی کی27 سالہ جلا وطنی ختم ہو چکی ہے اور اروند کیجریوال پہلی بار اپوزیشن میں بیٹھنے جا رہے ہیں۔ تاہم کیجریوال خود ایوان میں اپوزیشن کے کیمپ میں نہیں بیٹھ پائیں گے کیونکہ انہیں نئی دہلی کی سیٹ پر شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ نہ صرف کیجریوال بلکہ عام آدمی پارٹی کے تمام اہم لوگ ہار گئے ہیں۔ منیش سسودیا ہوں یا سوربھ بھاردواج، سب ہار گئے۔ بڑے لیڈروں میں آتشی ہی واحد نام ہے جو کالکاجی سے اپنی سیٹ بچانے میں کامیاب رہیں۔ بی جے پی کی جیت سے زیادہ کیجریوال کی ہار پر بحث ہو رہی ہے۔

اب جب کہ دہلی اسمبلی انتخابات کے نتائج آ چکے ہیں اور اس بار انتخابی جنگ نے قومی راجدھانی کی سیاسی تصویر پوری طرح بدل دی ہے۔ ’مفت والی سیاست‘ کرنے والے کیجریوال کی شکست کی کئی وجوہات ہیں جن میں بدعنوانی کے الزامات، فضائی آلودگی، حکومت مخالف لہر، بنیادی سہولیات سے متعلق عوامی شکایات، مسلسل داغدار تصویر قابل ذکر ہیں۔ عام آدمی پارٹی (اے اے پی) جو مسلسل تیسری بار حکومت بنانے کا خواب دیکھ رہی تھی، اسے کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ وہیں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے فتح درج کر کے دہلی کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ دوسری طرف کانگریس ایک بار پھر کوئی سیٹ تو نہیں حاصل کر سکی مگر انتخابی میدان میں اپنی شاندار موجودگی درج کرانے میں کامیاب رہی۔


کرپشن کے خلاف تحریک سے جنم لینے والی عام آدمی پارٹی اپنی حکومت کے ابتدائی ایام میں عوام کے لیے ایک کشش رکھنے والی جماعت قرار پانے لگی تھی۔ عوام بھی یہ مان رہے تھے کہ یہ پارٹی سب سے مختلف ہے ۔ عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرتے ہوئے بھی اروند کیجریوال نے عوامی تائید و حمایت حاصل کی تھی۔ عوام میں یہ رائے پیدا کر دی گئی تھی کہ انہیں مفت کی سہولیات فراہم کرنا ہی حکومت کی اصل کارکردگی ہے۔ انہوں نے دوسرے اہم اور بنیادی مسائل پر زیادہ کچھ توجہ نہیں دی۔ کیجریوال کی دوسری مکمل میعاد کے دوران جب کرپشن کے الزامات عائد ہونے لگے تو عوام کو بڑا جھٹکا لگا تھا۔ بی جے پی کی تشہیری مشنری نے دہلی میں پیدا ہونے والی صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور عام آدمی پارٹی کو دفاعی موقف اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔

لگاتار الزامات اور مقدمات کے نتیجہ میں عام آدمی پارٹی عوامی موڈ کو سمجھنے اور ناراضگی کو دور کرنے کی حکمت عملی بنانے میں ناکام رہی۔ پارٹی کے بڑے چہروں کی شکست اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ عوام کا ووٹ کسی کو بھی تخت پر اور کسی کو بھی تختہ پر لا سکتا ہے۔ دہلی کے نتائج اس بات کا واضح ثبوت دکھائی دیتے ہیں۔ دہلی کے نتائج آنے کے بعد ایک بڑا سوال ضرور کھڑا ہوا ہے کہ عام آدمی پارٹی کو کانگریس کے ساتھ اتحاد کرنا چاہیے تھا؟ اگر ہاتھ کا ساتھ ملتا تو دہلی میں جھاڑ و کمال کر سکتی تھی۔ دونوں پارٹیاں مل کر الیکشن لڑتیں تو موجودہ انتخابی مساوات بدل سکتے تھے۔ اس کا ثبوت لوک سبھا انتخابات ہیں جس میں اپوزیشن پارٹیوں کے ’انڈیا اتحاد‘ نے بھگوا بریگیڈ کے بیشتر ہتھکنڈوں کو ناکام بنا کر مضبوط اپوزیشن کی بنیاد رکھی تھی۔


’انڈیا اتحاد‘ میں کانگریس اور اے اے پی بھی شامل تھیں لیکن جیسے جیسے اسمبلی انتخابات قریب آئے، کیجریوال کی وزیراعظم بننے کی خواہش نے دونوں پارٹیوں کو الگ الگ الیکشن لڑنے پر مجبور کر دیا۔ پہلے ہریانہ اور اب دہلی میں دونوں پارٹیاں الگ الگ الیکشن لڑے جس کا فائدہ بی جے پی کو پہنچا۔ کیجریوال کی مقبولیت میں کمی، کانگریس کے ساتھ اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے ووٹوں کی تقسیم اور بی جے پی کی جارحانہ انتخابی حکمت عملی نے اے اے پی کی شکست کا اسکرپٹ لکھا۔ کیجریوال کی خواہشات دہلی کے الیکشن میں بی جے پی کو کامیابی حاصل کرنے میں کافی مددگار ثابت ہوئی ہیں۔ وہیں اے اے پی کو کئی سیٹوں پر چند ہزار ووٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ کانگریس کے ووٹ کئی سیٹوں پر اے اے پی کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتے تھے۔

عام آدمی پارٹی کے قومی کنوینر اروند کیجریوال خود بی جے پی کے پرویش ورما سے صرف 4,089 ووٹوں کے فرق سے ہار گئے۔ اسی طرح منیش سسودیا اور سوربھ بھاردواج جیسے اے اے پی کے بڑے لیڈر بہت کم فرق سے سیٹیں ہار گئے اور ان سیٹوں پر اس فرق سے زیادہ ووٹ کانگریس کے امیدواروں کو ملے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کانگریس کے ساتھ اتحاد نہ کرنا اے اے پی کے لیے بڑا نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔ اے اے پی نے 70 میں سے 22 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی لیکن ان میں سے کئی سیٹوں پر اس کے ووٹ شیئر میں کمی آئی ہے۔ کانگریس نے کوئی سیٹ نہیں جیتی لیکن کئی سیٹوں پر 5 سے15 فیصد ووٹ حاصل کر کے اپنی پوزیشن بہتر کی ہے۔


بی جے پی نے ایسی بہت سی سیٹیں جیتیں جہاں اسے اے اے پی اور کانگریس کے درمیان ووٹوں کی تقسیم کا فائدہ ہوا۔ اگر اے اے پی اور کانگریس کے درمیان اتحاد ہوتا تو بی جے پی کو سخت چیلنج کا سامنا کرنا پڑتا۔ وجہ یہ ہے کہ دہلی میں ایسی 14 سیٹیں ہیں جہاں عام آدمی پارٹی کے امیدوار کانگریس سے اتحاد نہ کرنے کی وجہ سے ہار گئے۔ راجدھانی کی سب سے ہاٹ سیٹ رہی نئی دہلی کے نتائج بھی حیران کن رہے۔ پرویش صاحب سنگھ (بی جے پی) نے یہاں سے 30,088 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی۔ عام آدمی پارٹی کے کنوینر اروند کیجریوال 4089 ووٹوں سے ہار گئے۔ کیجریوال کو 25,999 ووٹ ملے جبکہ کانگریس کے سندیپ دکشت 4,568 ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔

نئی دہلی سیٹ سے کیجریوال کا یہ چوتھا الیکشن تھا اور وہ یہاں پہلی بار ہارے ہیں۔ اس سے قبل 2014 میں بھی کیجریوال کو وارانسی لوک سبھا سیٹ پر شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف مقابلہ کیا تھا اور وہ 3 لاکھ 71 ہزار سے زیادہ ووٹوں سے ہارے تھے۔ سوال اٹھ رہے ہیں کہ کیجریوال جو ایک سال پہلے تک وزیراعظم بننے کی خواہش رکھتے تھے، وزیراعلیٰ کی کرسی بھی کھو چکے ہیں، اب وہ کیا کریں گے؟ سال 2023 میں اپوزیشن لوک سبھا انتخابات کی تیاری کر رہا تھا۔ تمام پارٹیاں اکٹھی ہوئیں اور ’انڈیا بلاک‘ تشکیل دیا۔ وزیراعظم کے چہرے پر بحث ہوئی تو اے اے پی نے کھل کر کیجریوال کا نام پیش کیا۔ بڑی اور تجربہ کار پارٹی کانگریس کو نظرانداز کرنا اور کیجریوال کا ’اوور کانفیڈینس‘ اے اے پی کولے ڈوبا۔


اب دہلی میں اے اے پی کی شکست سے نہ صرف کیجریوال کی سیاست پر گہرا اثر پڑے گا بلکہ پارٹی بھی متاثر ہوگی۔ اب صرف پنجاب میں اے اے پی کی حکومت رہ گئی ہے۔ یہ شکست یقیناً پارٹی ہائی کمان کو پریشان کرے گی اور اسے پنجاب کا قلعہ برقرار رکھنے کے لیے نئی حکمت عملی کے ساتھ آنا پڑ سکتا ہے۔ کانگریس کو دہلی میں کمتر سمجھنا کیجریوال کی سب سے بڑی بھول تھی ۔ کانگریس کے ’آشیرواد‘ سے کیجریوال دہلی میں اپنی کشتی پار لگا سکتے تھے ۔ ماہرین کا یہاں تک کہنا ہے کہ کانگریس کو دہلی میں اپنی کارکردگی کا فائدہ پنجاب میں ملے گا۔ کانگریس پنجاب میں سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی ہے اور دہلی کی طرح پنجاب میں بھی اے اے پی نے کانگریس سے اقتدار چھین لیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔