معیشت میں اچھال خوش آئند، مگر زمینی سچائی تکلیف دہ...عبیداللہ ناصر

ہندوستان کی معیشت دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بن گئی، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ عوام کی بڑی تعداد آج بھی غربت، بیروزگاری اور بنیادی سہولتوں کی کمی سے دوچار ہے

<div class="paragraphs"><p>معیشت میں اچھال خوش آئند، مگر زمینی سچائی تکلیف دہ / اے آئی</p></div>

معیشت میں اچھال خوش آئند، مگر زمینی سچائی تکلیف دہ / اے آئی

user

عبیداللہ ناصر

نیتی آیوگ کے چیف ایگزیکٹو افسر وی وی آر سبرامنیم نے حالیہ دنوں یہ خوش خبری دی کہ ہندوستان نے اب جاپان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے اور دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت بن گیا ہے۔ ان کے مطابق انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2026 تک ہندوستان کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) 4187 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی، جو جاپان کی جی ڈی پی (4186 ارب ڈالر) سے معمولی سی زیادہ ہوگی۔ انھوں نے یہ اندازہ بھی پیش کیا کہ اگر موجودہ رفتار برقرار رہی تو آئندہ تین برسوں میں ہندوستان جرمنی کو بھی پیچھے چھوڑ کر دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔

ظاہر ہے، یہ خبریں سن کر کسی بھی ہندوستانی کو خوشی ہو سکتی ہے لیکن یہ خوشی کب تک برقرار رہ سکتی ہے، جب ہمیں اپنے اردگرد کی حقیقت کا ادراک ہو؟ ایک پرانی کہاوت یاد آتی ہے، ’’مور جب اپنے پر دیکھتا ہے تو خوش ہوتا ہے لیکن جب اپنے پیر دیکھتا ہے تو ساری خوشی کافور ہو جاتی ہے۔‘‘ جی ڈی پی کا بڑھنا بلاشبہ معیشت کی ترقی کی علامت ہو سکتا ہے، مگر جب تک اس ترقی کے ثمرات عام عوام تک نہ پہنچیں، یہ خوش فہمی سے زیادہ کچھ نہیں۔

ہندوستان آج جسے دنیا کی بڑی معیشتوں میں شمار کیا جا رہا ہے، وہ کئی معنوں میں اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہے۔ ملک میں ایک طرف وہ طبقہ ہے جو اپنے پالتو جانوروں کو بھی سونے چاندی کے برتنوں میں کھلاتا ہے، تو دوسری طرف کروڑوں لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے ترستے ہیں۔ ایک تیسرا طبقہ وہ ہے جو ہوٹلوں سے بچا ہوا جھوٹن کھا کر پیٹ بھرتا ہے۔ کیا یہ وہی ملک ہے جو جاپان سے معاشی برتری پر خوشیاں منا رہا ہے؟

آئیے کچھ زمینی حقائق پر نظر ڈالیں۔ فی کس آمدنی کے معاملے میں ہم جاپان سے میلوں پیچھے ہیں۔ جاپان کی فی کس آمدنی 33,960 ڈالر ہے جبکہ ہندوستان کی محض 2,880 ڈالر۔ انسانی ترقیاتی اشاریہ (ہیو مین ڈیو لپمنٹ انڈکس) میں بھی جاپان ہم سے بہت آگے ہے۔ تعلیم، صحت، زچہ و بچہ کی دیکھ بھال، شہری سہولیات، اور ورک کلچر، ہر میدان میں ہم جاپان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ سروس سیکٹر کی بات کریں تو نہ ہمارے پاس جاپان جیسے ہسپتال ہیں، نہ ایسی تعلیمی سہولیات، اور نہ ہی کوئی جامع سماجی تحفظ کا نظام۔


سرکاری اعداد و شمار کے مطابق آج بھی تقریباً 80 کروڑ لوگ پانچ کلو مفت راشن پر گزارا کر رہے ہیں۔ کیا یہ اعداد و شمار ترقی کی علامت ہیں یا غربت کی؟ اگر اتنی بڑی تعداد میں لوگ سرکاری امداد پر انحصار کر رہے ہیں، تو معیشت کی چوتھی پوزیشن کا جشن کس بنیاد پر منایا جا رہا ہے؟

معیشت کے دوسرے پہلو پر نظر ڈالیں تو 2014 تک ہندوستان پر کل قرض تقریباً 55 لاکھ کروڑ روپے تھا، جو اب بڑھ کر 200 لاکھ کروڑ کے قریب پہنچ چکا ہے۔ ہندوستانی روپیہ 2014 میں ایک ڈالر کے مقابلے میں 65-66 روپے کے قریب تھا، جو اب 90 روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس گراوٹ پر کبھی گجرات کے وزیر اعلیٰ اور آج کے وزیر اعظم جو کچھ کہتے تھے، وہ آج بھی سوشل میڈیا پر گونجتا ہے۔

قومی اثاثے سمجھے جانے والے سرکاری ادارے (پی ایس یوز) کو کوڑیوں کے مول بیچ دیا گیا۔ یہ وہی ادارے تھے جنہوں نے 2008-09 کی عالمی کساد بازاری کے دوران ہندوستانی معیشت کو سنبھالے رکھا تھا۔ بینکوں کی حالت بھی خستہ ہے۔ اربوں روپے کے قرضے لے کر بیرونِ ملک فرار ہونے والوں نے ان بینکوں کو مالی بحران میں ڈال دیا۔ ریزرو بینک کا ایمرجنسی فنڈ، جو 1962 کی چین جنگ اور 1971 کی پاکستان جنگ کے دوران بھی ہاتھ نہیں لگایا گیا، اسے بھی موجودہ حکومت نے خرچ کر ڈالا۔

ہندوستانی معیشت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج بیروزگاری ہے۔ پچھلے 60 برسوں میں کبھی بھی بیروزگاری کی شرح اتنی زیادہ نہیں دیکھی گئی جتنی گزشتہ دہائی میں بڑھی ہے۔ آج ملک میں بیروزگاری کی شرح 8 فیصد کے آس پاس ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ وزارت محنت نے گزشتہ دو برسوں سے بیروزگاری سے متعلق اعداد و شمار جاری کرنا ہی بند کر دیے ہیں، جو اس مسئلے پر حکومت کی بے حسی کو ظاہر کرتا ہے۔


سرکاری ملازمتیں، جو ایک وقت میں سماجی تحفظ اور وقار کی علامت سمجھی جاتی تھیں، اب تقریباً ختم ہو چکی ہیں۔ نئی بھرتیاں ٹھیکہ سسٹم کے تحت پرائیویٹ ایجنسیوں سے کرائی جا رہی ہیں، جن میں اصل ملازم کی تنخواہ کا بڑا حصہ ایجنسی کے دلالوں کی جیب میں چلا جاتا ہے۔ اگر کسی کنٹریکٹ ملازم کے ساتھ کوئی حادثہ ہو جائے تو حکومت اس کی ذمہ داری لینے سے انکار کر دیتی ہے۔ پہلے اگر کوئی سرکاری ملازم دورانِ سروس انتقال کر جاتا تو اس کے اہلِ خانہ کو پنشن یا نوکری دی جاتی تھی، اب وہ تمام سہولیات ختم ہو چکی ہیں۔ اٹل بہاری واجپئی کے دور میں پرانی پنشن اسکیم ختم کی گئی، جس پر عمل درآمد کانگریس کے دور میں تجویز کیا گیا تھا۔ اس سے بھی پنشن یافتہ طبقے کو شدید دھچکا لگا ہے۔

اندھادھند نجکاری کا سب سے منفی اثر اُن طبقات پر پڑا ہے جو ریزرویشن کی بنیاد پر سرکاری ملازمتوں میں آتے تھے۔ اب ان کی نوکریوں کی ضمانت ہی ختم ہو چکی ہے۔ یہاں تک کہ حکومت اب آئی اے ایس جیسے اعلیٰ عہدوں پر بھی پرائیویٹ سیکٹر سے ماہرین لانے لگی ہے، جن کا تربیتی زاویہ منافع کے حصول پر ہوتا ہے، عوامی خدمت پر نہیں۔ ایسے افراد سے فلاحی سوچ کی امید کرنا بے وقوفی ہوگی۔

یہ سب کچھ ہمارے نوجوانوں کے مستقبل کے ساتھ ایک سنگین کھلواڑ ہے۔ نوجوانوں کے خواب، ان کی صلاحیتیں اور ان کا یقین، سب کچھ بازار کے منافع کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ایسے میں اگر حکومت معیشت کی رفتار، جی ڈی پی کی اونچائی اور عالمی رینکنگ کا ڈھول پیٹ رہی ہے، تو یہ سب کچھ ایک ظالمانہ مذاق بن جاتا ہے۔ کیونکہ ایک ایسی معیشت جو اپنے نوجوانوں کو روزگار نہ دے، غریبوں کو عزت سے جینے کا حق نہ دے اور جس میں کروڑوں لوگ مفت راشن پر زندہ ہوں، وہ محض اعداد و شمار کی بازیگری ہے، حقیقت نہیں۔


Published: 15 Jun 2025, 6:11 PM